پلاننگ ڈویژن میں آپ اسے آٹو میٹڈ نظام کہہ لیں‘ جس میں اعداد و شمار اوپر نیچے کرکے Figures Fudgingنہیں ہو سکتی‘ دوسری جانب بجٹ تقریر صرف ایک کاسمیٹک تقریر ہوتی ہے جس میں لفظوں اور ہندسوں کا ہیر پھیر کرنا عین ممکن ہوتاہے۔پاکستان کے دو عدد وزرائے خزانہ ایسے آئے جنہوں نے معاشیات کی تاریخ میں Facts and Figuresدونوں کو ملا کر ان میں Fudging کا منفرد عالمی اعزاز حاصل کیا۔خطرناک اور شرم ناک اعزاز۔
اسی سال مارچ میںامریکی سائفر کے ذریعے پاکستان بھجوائی گئی موشن آف نو کانفیڈنس کامیاب بنانے کے لیے تحریری پلان آف ایکشن آیا۔ ''امپورٹڈ‘‘ پلان کے انڈر ٹیکرز نے پارلیمنٹری ڈیموکریسی کے ہاتھ پائوں باند ھ کر لوٹوں کے لنڈا بازار میں ووٹ کی زبردست عزت افزائی کی۔ رجیم چینج کے اس پروجیکٹ کی بڑی وجہ معاشی بدحالی بتائی گئی ساتھ ساتھ ڈالر کو 100روپے پر واپس لانا رجیم چینج کا دوسراآئٹم سانگ تھا‘ مگر اس دو نکاتی بیانیے کے تخلیق کار ایک نکتہ تو بالکل ہی بھول گئے کہ ہر سال کی طرح 2022-2023ء کے ''امپورٹڈ‘‘ بجٹ سے پہلے پلاننگ ڈویژن کا اکنامک سروے جاری ہونا ہے۔ یہ ایسی سالانہ سرکاری دستاویز ہوتی ہے جس میں پچھلے بجٹ کے عرصے میں ہونے والی معاشی ترقی یا تنزلی‘ بڑے بڑے معاشی Indicators، غیر ملکی کرنسی کے Reserves، پروڈکشن‘ انڈسٹری‘ ایکسپورٹ‘ ایگریکلچر سمیت قومی زندگی کے تمام شعبوں کی Actual Performance (حقیقی کارکردگی) میڈیا کے ذریعے قوم کے سامنے رکھی جاتی ہے۔ ہر سالانہ میزانیہ سے پہلے جاری ہونے والے قومی معاشی سروے کی کتابیں‘ جاری بجٹ کے دوران فروری میں compile ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔مئی کے درمیان تک پچھلے سال کے ریلیز ہونے والے فنڈز اور گرانٹس وغیرہ کا حساب لگتا ہے۔جو فنانس خرچ نہ ہو‘ متعلقہ ڈویژن‘ منسٹری اور ڈیپارٹمنٹ اُسے خزانے کو واپس بھجوانے کا پابند ہے۔اس لیے معاشی سروے ایک ایسا جاری پروسیس ہے جو بڑی حد تک ناقابلِ تردید ہوتا ہے۔
اب آئیے ''امپورٹڈ‘‘ حکومت کی طرف سے جاری ہونے والے پی ٹی آئی دور کے آخری فنانشل سال کے اکنامک سروے کی طرف‘ جسے ''امپورٹڈ‘‘ حکومت کے چاروزیروں نے خودپریس کانفرنس کے ذریعے قومی میڈیا کے سامنے رکھا۔اس اکنامک سروے کے ذریعے سامنے لائے گئے اعداد و شمار نے وہ دو وجوہات دھو کر رکھ دیں جن کا پراپیگنڈا کرنے کے لیے Yellow facesکو مسلسل استعمال کیا گیا ان میں سے پہلی وجہ پاکستان کے اندر کساد بازاری بتائی گئی‘ جبکہ دوسرے نمبر پر ڈالر کی قیمت میں ریورس گیئر لگا کر اُسے 100روپے پر واپس لانا تھا۔
آپ نے سنا ہوگا کہ پری بجٹ سرکاری پریس بریفنگ کو 100 فیصد چندنکتوں کے گرد گھمایا گیا:
پرائم سرکاری نکتہ کہ عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی حکومت نالائق نکلی‘ اس دور میں قومی معیشت کا بیڑا غرق ہوگیا۔کسی شعبے سے خیر کی خبر نہیں آئی۔اس لیے فوری طور پر اس حکومت کو گھر بھیج کر اقتدار اعلیٰ ''پرفارمنس‘‘ اور ''اہلیت‘‘ رکھنے والے لوگوں کے حوالے کردیا جائے۔ تاثر یہ بنایا گیا گویا 70 سال پہلے پیدا ہوتے ہی عمران خان اقتدار میں آگیا تھا‘ اس ملک میں جو کچھ غلط ہوا‘ اُس کا سیدھا سیدھا ذمہ دار عمران خان ہے۔اس لیے صرف اور صرف اُسے ہی جوابدہی کرنی ہے۔پچھلے ساڑھے تین سال ہر کیمرے کے سامنے یہی کٹہرا سجا رہا۔سب کے سوال‘ ساری دشنام‘ صرف عمران خان کے نام ساون کی برسات کی طرح برستی چلی گئی۔
اب بہترین پرفارمنس دکھانے والے خاندان بلکہ اُن کے پوتے اور نواسے نواسیاں‘ ساڑھے تین سال بعد اقتدار کے ایوانوں میں واپس بٹھا دیے گئے اس لیے اپنی اُس تاریخ پر نظر ڈالنے میں کوئی حرج نہیں جو سچ ہے۔صرف سچ اور سچ کے سوا کچھ نہیں۔14اگست 1947ء سے سال1957ء تک اتنی حکومتیںاس تیز رفتاری سے بدلی گئیں کہ بھارت کو ہماری راج نیتی‘ پرفارمنس اور اہلیت پر پھبتی کسنے کا موقع مل گیا۔یہ تب کی بات ہے جب پاکستان میں پرفارمنس اور اہلیت کی میوزیکل چیئر کا کھیل اپنے ابتدائی عشرے میں تھا۔اختتام پر ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہرلعل نہرو(جو 15 اگست1947ء کے روز وزیر اعظم بنے اور 27مئی سال1964ء تک اس عہدے پر براجمان رہے) نے کہا کہ میں نے اپنے دورِ حکومت میں اتنی دھوتیاں نہیں بدلیں‘ جتنے پاکستان نے اپنے وزیر اعظم بدل دیے 1958 ء کا سال آتے ہی پاکستان میں طاقت کے بڑے مراکز نے آپس میں گرینڈ این آر او کرلیا۔ نظامِ انصاف کے بڑوں نے Kelsen's Doctrine of law of Necessityکو نظریۂ ضرورت کے نام سے نظام کے گلے کا ہار بنادیا۔ملک میں دوجماعتی نظام تخلیق کیا گیا‘ جس میں چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تیسرا فریق تھا۔اس حوالے سے مطالعہ پاکستان میں جو fact sheet موجود ہے‘ وہ 1958ء سے لے کر 2018ء تک پاکستان میں سہ فریقی حکومت کی تفصیلات یوں بیان کرتی ہے:
پہلی حکومت 1958 میں برسر اقتدار آئی‘ جو سی ایم ایل اے کی قیادت میں 1966ء تک چلتی رہی۔جب پاکستان کی عمر20سال ہوئی تو 1967ء میں نئے ویژن والے سی ایم ایل اے آگے بڑھے۔ 1971ء تک اُن کے اقتدار کا پھریرا لہراتا رہا۔اس وقت تک متحدہ پاکستان اقتدار کی میوزیکل چیئر قومی درجے سے نیچے اُتر کر لسانی تقسیم میں تبدیل ہوچکی تھی۔سقوطِ ڈھاکہ کے بعد1971ء میں پی پی پی کو سویلین سی ایم ایل اے کی حیثیت سے اقتدار منتقل ہوا۔جو مختلف evolutionaryمراحل سے گزرتا ہوا 1977ء تک چلتا گیا۔جہاں ایک بار پھر مطالعہ پاکستان میں سی ایم ایل اے کی دبنگ اینٹری نظر آتی ہے جس کے قبضہ قدرت میں 1988 کا سورج طلوع ہوگیا۔
اب شارٹ ٹرم این آر او کا rapid fireمرحلہ آن پہنچا تھا۔1988ء تا1990ء پی پی پی کو پرفارمنس سٹیج حوالے ہوا۔1990ء میں دوسالہ بریک کے بعد 1993ء میںپرانی دلہن کو نئے عروسی جوڑے میں میوزیکل چیئر پہ بٹھایا گیا۔ rapid fire‘ 1993ئمیں پھر فائر ہوا جس کے نتیجے میں سال 1996ء تک میوزیکل چیئر پی پی پی کے پاس رہی۔اس چیئر کے ماسٹر keyholderایک بار پھر سیاسیحلالہ ہوااور 1997 ء تا 1999ء پھر گھر کی چابیاں اُسے ملیں جسے'بے ایمان‘ کہہ کر گھر سے نکالا گیا تھا۔1999ء میں ہماری راج نیتی کو روشن خیالی کا دورہ پڑگیا۔نئے آنے والے نے کتے بغل میں دبا کر تصویر کھنچوائی اور ملک کو Enlightened moderationکا ٹیوشن پڑھاتے پڑھاتے سال2008ء آگیا۔
بے نظیر بھٹو صاحبہ کی شہادت کے بعد کہیں کی اینٹ‘ کہیں کا روڑا‘ بھان متی نے پھر سے کنبہ جوڑا کنبہ جوڑنے کی binding forceاین آر او ہی تھا‘ جو2013ء تک وفاق میںچلا سندھ میں 15 سال سے اُس کی مسلسل نمائش جاری ہے۔جس کے بعد پھر امریکی این آر او پر جدہ ہجرت کرنے والے باریاں لگانے پاکستان میں اقتدار کے ایوانوں میں لا بٹھائے گئے۔ بے صبری کی انتہا مارچ 2022ء میں پھر وہی کھیل‘ پھر وہی کھلاڑی مگر اکنامک سروے اور ڈالر 203 روپے پر پہنچنے کے بعد امریکی سائیفرکے علاوہ عمران کو نکالنے کی وجہ اور کیا تھی؟جو جاننا چاہے‘ وہ پیچھے دیکھو پیچھے‘ صرف 10ہفتے پیچھے۔1958ء سے2018ء تک اقتدار میں رہنے والے پھر واپس آگئے۔ وجہ وہی تھی۔