"SBA" (space) message & send to 7575

مشکل فیصلہ

دستِ سوال دراز کرنے سے زیادہ اور مشکل فیصلہ کون سا ہوسکتا ہے؟ سب سے بڑی آفاقی سچائی کے پیغام میں‘ سوال کے لیے پھیلے ہوئے ہاتھ کو کہتر کہا گیا۔ '' امریکہ کے امپورٹڈ رجیم چینج پلان‘‘ کے مائوتھ پیس کا صرف ایک فیصلہ لے لیں۔سعودی سفیر کے سامنے '' امپورٹڈ‘‘ کی تقریر‘ جس میں وہ انگلیوں سے روٹی بنا کر اُسے منہ میں ڈالنے کی نقل کرتے ہوئے اردو کے لہوری لہجے کو عربی بنا کر کہتا ہے ''جنابِ برادر! میرے لیے سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ ہم نے ''خُبز‘‘ کھانی ہے۔‘‘ اس سے پہلے اسی غیرت مند نے کہا تھا کہ میں بھیک مانگنے نہیں آیا‘ آپ75سال سے ہماری مدد فرما رہے ہیں۔ تھوڑی امداد اور دے دیں‘ ہم انشاء اللہ اپنے پائوں پر کھڑے ہوجائیں گے۔ہماری مدد کریں ‘ہم اپنا پسینہ بہاکر آپ کی پائی پائی ادا کردیں گے۔اسی شیر نے پرائس کنٹرول کا حیران کن نسخہ بیان کیا تھا کہ میں کپڑے بیچ کر آپ کو سستا آٹا دوں گا۔ کرپشن کے مقدمات میں مطلوب اور منی لانڈرنگ کے مقدر والے سکندر کا تازہ فرمان ایسا آیا کہ ایک گھنٹے میں سٹاک مارکیٹ کریش کرگئی۔کاروباری لوگوں کے 232ارب روپے ڈوب گئے ‘ ملک کی 13 بڑی صنعتوں پر سُپر ٹیکس لگا کر اُنہیں گھٹنوں کے بل گرادیا۔ سُپر ٹیکس اُس غیر ملکی مافیا نے لگایاجو سُپر کرپشن کے کیسز میں ملزم ہے‘مجرم ہے‘ مطلوب ہے اور مفرور بھی ہے۔ جس پر جناب کامران خان نے واقعاتی رپورٹنگ پر مبنی سرجیکل ٹوئٹ ان حقائق کے ساتھ جاری کی :
''تباہی کے 10 ہفتے آج صنعتوں پر 10 فیصد اضافی ٹیکس قیامت سے کم نہیں۔ پہلے ہی پٹرول‘ ڈیزل‘ بجلی ‘گیس قیمتیں 50 سے 80 فیصد بڑھ چکی ہیں۔ ڈالر 180 سے 208 روپے جا پہنچا۔ مہنگائی چھپر پھاڑ چکی ہے۔ وہ تمام لوگ جو آپریشن #Regime Change in Pakistanکے معمار و شریک تھے‘ انہیں قوم کبھی معاف نہیں کرے گی۔‘‘
اس وقت پاکستان میں نظام اور عوام ‘دونوں کی بربادی کی نئی تاریخ لکھی جارہی ہے۔بربادی کی تاریخ کے سارے صفحات کالے(Dark Pages) ہوتے ہیں۔اس لیے اُنہیں چھاپنے کی رفتار بہت تیزہے۔ ویسی ہی تیز جیسی بے وقعت (Valueless)پیپر کرنسی چھاپنے کی حالیہ امپورٹڈ رفتار۔ رفتار سے یاد آیا ‘پاکستان کس تیز رفتاری سے دنیا میں تنہا ہوا ہے۔ہماری قومی بدقسمتی کی سیریز کے تازہ ترین کچھ اہم واقعات یوں ہیں۔
بدقسمتی کا پہلا واقعہ:ابھی کل کی بات ہے عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی دوستی کوہ ہمالیہ سے اونچی تھی۔سات سمندروں سے گہری اورشہد سے بھی میٹھی۔ ایک سائیفر پر اپنے ملک کے مفادات قربان کرنے والے امریکہ کے غلاموں نے اس دوستی کو وائٹ ہائوس میں غرق کردیا۔اسی ہفتے چین میں (23‘24جون ) XIV BRICS SUMMITچین کی دعوت پر منعقد ہوئی۔جس میں روس‘ برازیل‘انڈونیشیا‘ملائیشیا ‘ایران ‘مصر‘ قازقستان‘ازبکستان‘تھائی لینڈ‘ ار جنٹینا اور بھارت کی حکومت کے سربراہ اور ریاستی سربراہوں نے بھی شرکت کی۔یہاں تک کہ برکس اس گلوبل سمٹ میں سینی گال‘اتھوپیا اور آئلینڈز آف فجی کو بھی دعوت دی گئی لیکن بارڈر سے جڑی ہوئی ''امپورٹڈ حکومت ‘‘کے سربراہ کو سمٹ کی دعوت دینے کے قابل نہ سمجھا گیا۔ یہ تماشے کا نہیں‘رونے کا مقام ہے کہ اقوامِ متحدہ میں ویٹو پاور رکھنے والا ہمارا عظیم دوست اپنی جائدادوں ‘ ذاتی مفادات اور بچوں کے عارضی ننھیال پر قربان کردیا گیا۔
بدقسمتی کا دوسرا واقعہ: FATFمیں اگلی تاریخ پیشی ڈالنے کا ہے۔ جس پہ پاکستان کے حالات کو کھلی آنکھوں سے دیکھ کرگرے لسٹ سے نکالا جائے گا۔ ''امپورٹڈ رجیم‘‘ کے ایکسپورٹڈ لیڈر کے دور میں ہی ہم گرے لسٹ کے گڑھے میں گرے تھے۔ تاریخ پیشی کے بعد اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کو نیب کے دائرہ اختیار سے خارج کردیا گیا۔ نیب لاء میں ترمیم کرکے 1200ارب روپے مالیت کے 117 کیس ‘(فالودہ سے لے کر مقصود چپڑاسی تک)سارے مقدمے بھسم ہوگئے۔ معاملے کا باریک نکتہ یہ ہے ‘ نیب آرڈیننس 1999ء میں ایک ترمیم بارِ ثبوت (Onus of Proof)کرپشن کے اثاثے رکھنے والے کی جگہ پراسیکیوشن کے کندھوں پہ شفٹ کرنے کا بھی شامل ہوا۔حالانکہ یہ قانون UN Convention Against Corruption, 2005پاکستان کے اوپر bindingکی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ ریاستِ پاکستان نے اس کنونشن پر دستخط کر رکھے ہیں۔خدا کرے فیٹف کی ٹیم اندھی ‘کانی یا کم از کم بھینگی ہوجائے تاکہ وہ اس نئی violationکو دیکھ نہ سکے۔نہ ہی اُسے پاکستان کی ساری کرسیوں پر بیٹھے ہوئے70فیصد سے زیادہ منی لانڈرنگ کے ملزم‘مجرم‘مطلوب اور مفرور نظرآسکیں۔
بدقسمتی کا تیسرا واقعہ:اُس کا تعلق پاکستان کی مڈل کلاس‘لوئر مڈل کلاس اور تنخواہ دار طبقے کی بدقسمتی سے ہے۔ جسے سُپر کے بجائے سپریم ٹیکس سے شکار کیا گیا۔50,000سے ایک لاکھ تنخواہ والے ٹیکس دیں گے ‘تو اُن کے پاس خود کھانے اور فیملی کو کھلانے کے لیے بچے گا کیا؟''امپورٹڈ حکومت‘‘ نے بجٹ دیتے وقت پہلی بارنیا آئین لکھ ڈالا۔کیونکہ آئین میں بجٹ کے لیے منی بِل کا لفظ آیا ہے۔امریکہ اور آئی ایم ایف کی خوشنودی کے لیے پہلی بار بجٹ ڈاکومنٹ پر provisional لکھا گیا۔اس عبوری بجٹ کو عوام دوست کا سرکاری ٹائٹل ملا۔ بندگانِ شکم نے اس پہTurn around in Economyکی سرخی لگائی (میری اطلاع ہے کہ اس نام سے حکومت بہت جلد بہت بڑی پبلسٹی مہم شروع کررہی ہے‘مہنگائی کے فائدے بتانے کے لیے )۔دوسری جانب Stanford Universityکے Freeman Institute(FSI)نے ایک ریسرچ پیپر پبلش کیا‘جس کا عنوان Frameworks for a Developmental Welfare State: Lessons from Pakistan's Ehsaas Programmeہے۔ یہ یونیورسٹی تحقیق کی دنیا میں ٹاپ یونیورسٹی سمجھی جاتی ہے۔اس یونیورسٹی کے ماہرین کو فلاحی ریاست بنانے کی طرف پاکستان کا سفر نظر آگیا ہے۔وہ جو عمران خان کے ساڑھے تین سال میں طے ہوا۔ بیمار صنعتوں کی بحالی ‘پیداوار‘روزگار اور کمزور آمدنی والوں کو سبسڈی کا سہارا دے کر۔
''امپورٹڈ رجیم ‘‘پٹرول‘گیس ‘کھانے اورمٹی کا تیل‘ٹیکس اور سُپر ٹیکس کے ریٹ بڑھانے کو مشکل فیصلہ کہہ رہا ہے۔قیمتوں میں اضافہ سب سے آسان فیصلہ ہے۔اتنا آسان ‘جو ایک سٹینوگرافر ٹائپ کرے گا اورآفس Superintendent اُسے نوٹیفائی کردے گا۔نہ گورننس کا جھمیلا ‘نہ پلاننگ کمیشن سے مشورہ ‘نہ ہی ضرورت مند طبقات کا ملک گیر ڈیٹا اکٹھا کرنے کا جھنجھٹ۔گورننس کا اصل مشکل فیصلہ یہ ہے کہ ملک میں کسی کو بھی ایک لیٹر پٹرول ‘نہ ہی ایک یونٹ مفت بجلی ملے۔کیونکہ ایلیٹ کے لیے اس مفت بجلی کا بل پبلک کی جیب سے نکلتا ہے۔
ساتھ ایک مفت مشورہ بھی :
کاغذ اُتے اَگ نہ رکھیں ‘پاگل دے سِر پگ نہ رکھیں
بُلھے شاہ دی من لے سنگیا ‘ ملک دا راکھا ٹھگ نہ رکھیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں