ایڈیٹر کا دل دہلا دینے والی تصویر ہندوستان کے دو مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے گلزاری لال نندہ کی تھی۔اگلے دن کے اخبار نے ہندوستان جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ریاست کا وزیر اعلیٰ‘چیف سیکرٹری‘ یونین منسٹر حاضر ہوئے‘اور نندہ کی منت کی کہ سرکاری گھر قبول کرلیں۔ نندہ بمشکل 500روپے ماہانہ وظیفے پر راضی ہوئے‘باقی سہولتوں کی آفرز ٹھکرا دیں۔مالک مکان کو جب پتا چلا کہ اُس کا کرایہ دار پورے ہندوستان کا دو بار وزیر اعظم رہ چکا ہے‘ تو دوڑتا ہوا معافی مانگنے گلزاری لال کے پاس آیا اور پیر پکڑ لیے۔بولا: مجھے بالکل پتا نہیں تھا‘آپ کون ہیں‘ ناں آپ نے بتایا۔نندہ مسکرائے اور کہا :معمولی کرایہ دارتھا اور رہوں گا‘ بتانے کی کیا ضرورت۔ گلزاری لال نے باقی زندگی بھی اسی کرائے کے مکان میں گزاری اور مرتے دم تک 500 روپے میں گزارہ کرتے رہے۔
گلزاری لال نندہ بمبئی اور احمد آباد کی یونیورسٹیوں میں پروفیسر رہے۔ سیاست میں قدم رکھا تو یونین منسٹر‘ وزیر خارجہ‘ ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن اور کئی بار لوک سبھا کے ممبر بھی منتخب ہوئے۔وہ سادگی کی چلتی پھرتی مثال تھے‘ حیران کردینے والی مثال۔ وہ عمر کے 100ویں سال میں فوت ہوئے۔ شہید ملّت نواب زادہ لیاقت علی خان کی طرح‘ نہ جائداد‘نہ کوئی بینک بیلنس اور نہ ہی کوئی ذاتی گھر چھوڑا۔
Pity the Nation میں ہمیں جبران خلیل جبران اور جسٹس آصف کھوسہ‘ دونوں نے ایک ہی پیغام پہنچانے کی سعی کی۔ یہی کہ صاف ستھرے لوگوں کے پاس عزت و احترام کا وہ خزانہ ہوتا ہے‘ جسے کرپشن زدہ سارے ارب پتی اور کھرب پتی مل کر بھی خرید نہیں سکتے۔
پچھلے دس بارہ ہفتوں سے ادبِ لطیف سے تعلق رکھنے والاایک ہی موضوع کئی محفلوں میں چلتا آرہا ہے۔ وہ ہے مزاحمت کی شاعری ختم کیوں ہوئی‘آگے کیوں نہیں بڑھ رہی۔بہت سے احباب احمد فراز کی مزاحمتی ادب کی شہ پارہ نظم ''محاصرہ‘‘ شیئر کرتے ہوئے پائے گئے۔ساتھ ہی یہ تبصرہ بھی کہ عمران خان کی تحریکِ مزاحمت کے نتیجے میں مزاحمتی شاعری نے کیوں جنم نہیں لیا ؛چنانچہ قدرتی طور پرمیرا دھیان بھی اُس طرف چلا گیا۔معلوم ہوا کہ مارچ 2022ء سے اس جولائی تک اردو اور سرائیکی زبانوں میں نوجوان شاعروں نے کمال مزاحمتی ادب تخلیق کیا ہے۔اس نئے مزاحمتی ادب نے حبیب جالب اور احمد فراز کی روایت اردو میں آگے بڑھائی جبکہ سرائیکی زبان کے نوجوان شاعروں نے شاکر شجاع آبادی کی باغیانہ رزم نگاری کا اگلا باب لکھ ڈالا ہے۔
یہ شاعری اور شاعر چند مہینوں کے عرصے میں گل و بلبل اور کاکل و رخسارکے نغمے گانے والوں سے کوسوں آگے نکل آئے ہیں۔ایک ایک مزاحمتی شاعری کی وڈیو چند لاکھ سے نکل کر ملینز کی تعداد میں share اور viral ہورہی ہے۔ اصل المیہ یہ ہواکہ مزاحمتی شاعری چھاپنے کے لیے تیار کون ہوگا؟غیر اعلانیہ شدید ترین بلکہ کرفیویانہ قسم کی سنسر شپ اور اعلانیہ چھاپے اس مزاحمتی ادب کو متبادل (Alternate) میڈیا کی نشر گاہوں اور پبلش کدوں پر لے گئے ہیں۔ایسے موسم میں جہاں جدید دورکے دُرّے برستے ہوں۔ ووٹ کی عزت کا مطلب یہاں کرسی کی عاشقی میں عزتِ سادات خوشی خوشی پیش کرنا ہو۔جمہوری آزادیوں کے معنی صرف ''وہ سنو جو میں بتائوں اور صرف وہ دیکھو جو میں کہوں‘‘ کے بامِ عروج تک پہنچ جائیں اور جہاں پہ عوام کے لیے خواص کی پریت کھجور جیسی ہو جائے۔ ایسے موسم میں اس منظر کو دیکھ کر ہی کبیرا رودیا تھا۔
پریتم ایسی پریت نہ کریو
جیسی کرے کھجور
دھوپ لگے تو سایہ نہ ہی
بھوک لگے‘ پھل دور
پریت کبیرا ایسی کریو
جیسی کرے کپاس
جیو تو تن کو ڈھانکے
مرو نہ چھوڑے ساتھ
پریت نہ کریو پنچھی جیسی
جل سوکھے‘ اُڑ جائے
پریت تو کریو مچھلی جیسی
جل سوکھے‘ مر جائے!
اسی ماحول میں چادر اور چار دیواری کی آبرو ریزی کے نئے مناظر رپورٹ ہونا شروع ہوئے۔ سیانے سچ کہتے ہیں کہ سچا شعر زخم اور چوٹ کے درد سے اُبھرتا ہے۔ نظامِ سرمایہ داری اور اُس کے لے پالک‘ بالکے‘ زخم لگانے میں خود کفیل ہیں۔ ایسے ہی کچھ زخم آپ بیتی کے دوران میں نے بھی کُریدے تو اندر سے زخم خوردہ آواز نکلی‘ جس کا عنوان ہے: نئی چادر نئی چار دیواری۔
جو بول اٹھے گا مار دیں گے‘ یہ طے ہوا تھا
سبھی کا حلیہ بگاڑ دیں گے‘ یہ طے ہوا تھا
جو اپنی دھرتی پہ اپنا پرچم اٹھا کے گھر سے نکل پڑے ہیں
ہم اُن کو اُن کی ہی لاٹھیوں سے پچھاڑ دیں گے یہ طے ہوا تھا
ہیں جتنے مجرم‘ اٹھائی گیرے‘ ہمارے ہیرے
جو دوسرے ہیں ہم اُن کی نسلیں لتاڑ دیں گے یہ طے ہوا تھا
یہ دھرتی ماں ہے اسے نئے ورلڈ آرڈر کی اوڑھنی دو
پرانی چادر پرانے دَر کو اکھاڑ دیں گے یہ طے ہوا تھا
جو مائیں بچوں کو ڈھونڈتی ہیں پکارتی ہیں
انہیں زمیں میں اُتار دیں گے یہ طے ہوا تھا
اگر جو اذنِ کلام چاہو تو جائو سلطاں سے پوچھ آئو
اُنہی سے پوچھو جو پھر سے ہم کو اُدھار دیں گے یہ طے ہوا تھا
ہمارا اعوان اپنا بابر ہے اُس کا لہجہ بھی آتشیں سا
ملا کہیں پہ تو اُس کو تھوڑا سدھار دیں گے یہ طے ہوا تھا
Pity the nation, oh, pity the people
قابلِ رحم ہے وہ قوم‘ آہ‘ قابلِ رحم ہیں وہ لوگ
Who allow their rights to erode
جو جیتے جاگتے اپنی آزادیاں لٹنے کا تماشا دیکھتے ہیں
(ختم)