"SBA" (space) message & send to 7575

چکلے…(2)

جسم و جاں ''فار سیل‘‘لگانے کے لیے اب تو عمر کی بھی قید نہیں رہی۔بقولِ ادبِ لطیف ؎
حاصلِ عمرِ پریشاں بیچتا پھرتا ہوں میں
دربدر خونِ رگِ جاں بیچتا پھرتا ہوں
اس خرید و فروخت کو روکنے کے لیے قوم کا اجتماعی شعور بیدار ہے اور ایک جیسی سوچ بھی۔ ریاستی دہشت کے سارے حربے استعمال کرلیے گئے لیکن امریکی سائفر سے آنے والے ''امپورٹڈ‘‘ رجیم چینج کو جی بھر کے جگ ہنسائی ملی ہے‘پذیرائی ہرگزنہیں۔کہیں پہ بھی نہیں۔
مشکل سے یہ لائنیں مکمل ہوئیں کہ وقت کے خلاف Marathon دوڑ کی سیٹی پھر سے بج گئی۔وکالت نامہ یہیں چھوڑنا پڑا۔ 24گھنٹے بعد آج واپس بیٹھا ہوں تو پاکستان کی سیاسی دنیا کا حال وہی ہے جو Cliffپر آباد بستی کا زلزلے کے بعد ہوتا ہے۔یہ پاکستانی سیاست کا پہلا 3Dمنظر نامہ ہے۔ آئیے اس کے اندر چلتے ہیں۔
سیاسی منظرنامے کی پہلی ڈی: ابھی 10‘ 12دن پہلے نواز لیگ کی مریم نواز کا بیانیہ بھی 3Dتھا یعنی سہ جہتی۔پہلے حصے میں کہنے لگیں‘عمران خان یہ سپریم کورٹ ہے۔ اس کے فیصلے ماننے پڑتے ہیں۔یہ جلسہ نہیں‘جس میں کوئی جو چاہے بکواس کرتا پھرے۔بہتر یہ ہے کہ اب تم گھر میں چھپ کر بیٹھ جائو۔ اس بیانیہ کا دوسرا حصہ یہ تھا کہ عمران خان ملک کی آخری عدالت سپریم کورٹ پر حملہ آور ہے۔جس کا حوالہ سوشل میڈیا سے دیا جاتا۔تیسرا حوالہ یہ تھا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں اور جسٹس اعجاز الاحسن صاحب جیسے قابل جج (جنہوں نے جناب قاضی فائز عیسیٰ صاحب کے بعد C.J.Pبننا ہے) کے فیصلے کے سامنے جھک جائو۔
پھر یوں ہوا کہ قاسم سوری کی نقل میں پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کو رولنگ پر آمادہ کیا گیا۔اُن کی آمادگی سے پہلے کے فارن ٹرپ بطورِ وجۂ آمادگی کا مکمل تصویر نامہ موجود ہے۔جو ہر خاص و عام کو دعوتِ نظارہ دیتا ہے۔ بہر حال مس رولنگ جس تیزی سے آئی تھی‘ اُسی تیزی سے جوڈیشل ریویو میں فیل ہونے کے بعد سپردِ خاک ہو گئی۔ جس کے نتیجے میں پی ایم ایل این نے نیا عالمی ریکارڈ بنایا۔ایک ماہ میں 20لوٹے خرید کر جو حکومت بنائی گئی‘اُس کی رخصتی اُن لوٹوں کی شکست ِفاش کے نتیجے میں ہوئی۔ اس طرح امپورٹڈ سیزن- 2کے مرکزی کردار حمزہ شہباز 30دن میں 3دفعہ سی ایم کی کرسی پر آئے اور تینوں دفعہ اُٹھا دیے گئے۔بقول ِ مرزا غالب ؎
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
یہی محترمہ ان دنوں سپریم کورٹ کے لیے کیا کیا لفظ استعمال کر رہی ہیں۔ اسی Full Benchپر ایسے ایسے الزام دھر رہی ہیں جن کو سن کر توہینِ عدالت کا قانون بھی شرمانے لگا ہے۔
سیاسی منظر نامے کی دوسری ڈی: پرویز الٰہی سے رات 2بج کر 20 منٹ پر صدر عارف علوی صاحب نے حلف لے لیا۔پنجاب میں پی ٹی آئی کی coalitionحکومت پھر سے یوںبحال ہو گئی ؎
موسم بدلا رُت گدرائی اہلِ جنوں بے باک ہوئے
فصلِ بہار کے آتے آتے کتنے گریباں چاک ہوئے
ادبِ لطیف کے شاعر ظہیر کاشمیری کے یہاں گریباں چاک سے مراد ہے '' رشتوں اور رشتہ داروں‘‘ کا بے نقاب ہونا۔
سیاسی منظر نامے کی تیسری ڈی: اس کا تعلق تاجِ برطانیہ سے بھی ہے اور ہمارے بے تاج برطانوی سیاسی مفرور سے بھی۔یہ ہیں حضرتِ بیمار بلکہ بیماروں کے بھی بیمار۔جن کی Red-cherry blossom رنگ میں زیبِ تن لباس کی تصویر گزشتہ رات وائرل ہوئی۔ نواز شریف اپنے بھائی اور بیٹی کی حکومت کے راج میں ابھی تک وطن واپس نہیں آسکے۔نیب کے قانون میں ترمیم ہوگئی‘اُس کے بعد بھی نہیں۔ سپریم کورٹ کے رولز میں ترمیم کے بعد بھی نہیں۔ قومی ادارۂ احتساب کے ذمہ داروں کی تبدیلی کے بعد بھی نہیں۔ ملک کی ہر عدالت میں پراسیکیوٹرز کی رخصتی کے بعد بھی نہیں۔
لندن کے ایک بیرسٹر دوست نے ایک عجیب اتفاق کی جانب توجہ دلائی‘ کہتے ہیں: جنابِ نواز شریف کے سارے شوق نوابی ہیں۔ فلپائن کے مارکوس کو جس رنگ کے کپڑے‘ جوتے‘ کوٹ اور سکارف پسند تھے۔ عین اُسی دل فریب رنگ پر اس دل نواز ہستی کا دل آ گیا ہے۔چائو چونچلے اپنی جگہ‘ شریف‘ سیٹھی‘ حقانی‘ٹرائیکا کی اَنتھک کوششوں سے بننے والی ''امپورٹڈ‘‘ dynasty یا حکومت‘ صرف سات کلومیٹر میں سکڑ کر رہ گئی ہے۔ گولڑہ موڑ سے بھارہ کہو موڑ تک۔ جس کے نارتھ میں کے پی میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے جبکہ سائوتھ میں پی ٹی آئی کی مخلوط حکومت۔ سندھ میں پی پی کا راج ہے جبکہ بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی‘جسے سات کلومیٹر کے وزیر اعظم نے باپ پارٹی کا نام دیا تھا اور مطلب کے وقت ایک ووٹ کی برتری حاصل کرنے کے لیے اُس سیاسی جماعت پر انحصار کیا۔ جب یہ وکالت نامہ آپ کے ہاتھ میں آئے گاتب تک پنجاب کی کابینہ بن چکی ہوگی۔
پچھلے چار ماہ نے وطن اور اہلِ وطن کو کیا دیا۔ دنیا میں کہیں ہماری آبرو بڑھی؟ ڈالر 100روپے پہ واپس آ گیا؟ تیل‘ پٹرول اور ڈیزل سستا ہوا؟ مہنگائی کم ہوئی یا زیادہ۔ قوتِ خرید بڑھی کہ گھٹ گئی؟ مڈل کلاس‘ لوئر مڈل کلاس سکھی ہوئی یا دکھی؟ جن کے ہاتھوں میں نوکریوں کی زنجیریں اور پائوں میں مفادات کی بیڑیاں ہیں‘ وہ ادبِ شریف کے حق میں بولیں گے۔ نوکری پر لات نہیں ماریں گے۔ مفادات کے اُس بازار میں جانے کے بجائے بہتر ہو گا جواب کے لیے پھر ادبِ لطیف کی طرف چلتے ہیں۔
جال ہی جال تھے پھیلے ہوئے غداری کے
اہلِ دربار سرِ خیل تھے مکاری کے
داغ ہی داغ ہیں تاریخِ جہاں بانی پر
آج پھر بل ہیں وہی وقت کی پیشانی پر
''چکلے‘‘ساحر نے لکھی‘شورش نے اُس کا خلاصہ بیان کیا۔
مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
(ختم )

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں