بات ڈاکٹر شہباز گِل کی نہیں۔ اس سرزمینِ با آئین میں یہ رواج پڑا کیسے‘ بڑھا کیسے اور اسے ختم کیسے کرنا ہے۔ اس لیے PTI کو عدالت جانا پڑا۔ UK ریاست کے طور پر سرزمینِ بے آئین ہے‘ اس کے باوجود چند سو پائونڈز فضول خرچی کرنے پر برطانیہ کے پرائم منسٹر کو اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑ گئے۔ دوسری جانب ہم بڑے فخر کے ساتھ اپنے نظامِ حکومت کو Westminster Model کی جمہوریت قرار دیتے ہیں۔ کیا وہاں کسی تھانے میں تشدد ہو سکتا ہے؟ زیرِ حراست ملزم مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جائے اور وہ عدالت کو اپنے جسم کے Private Parts پر بے رحمانہ تشدد کے نشان دکھائے تو کیا سکاٹ لینڈ یارڈ پولیس پر پرچہ نہیں ہو گا؟ کیا ویسٹ منسٹر جمہوریت میں پولیس کی حراست میں کوئی ملزم یا مشتبہ شخص مارا جا سکتا ہے؟ کیا اُس جمہوریت میں کوئی وزیر یا حکومتی عہدیدار حراستی مجرم کے تشدد پر ان لفظوں میں اعلانیہ تبصرہ کر سکتا ہے: ''اب چیخ کیوں رہے ہو، اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں‘‘؟۔
ہاں البتہ گورننس کا ایک ماڈل ایسا بھی ہے جس کی تاریخ سے یہ مثال دی جاتی ہے‘ کہ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ اس گورننس ماڈل کو جمہوری نازی اِزم کہتے ہیں۔ پاکستان کے کریمنل جسٹس سسٹم میں جس خوش فہم تعداد میں قانون بنائے گئے ہیں اور اس قدر قانون بنائے جا رہے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں فوجداری قانون دنیا کے شاید ہی کسی ملک میں بنے ہوں گے۔ یہی حال فوجداری نظامِ انصاف کے لیے قائم کی گئی عدالتوں کا ہے۔ لوکل اینڈ سپیشل لاز کی عدالتیں، پرائس کنٹرول، انسدادِ دہشت گردی‘ انسدادِ منشیات‘ انسدادِ بدعنوانی‘ انسدادِ منی لانڈرنگ، انسدادِ کرپشن‘ انسدادِ چلڈرن تشدد‘ وومن پروٹیکشن بِل‘ گھریلو تشدد بِل‘ زینب الرٹ بِل‘ سپیڈی ٹرائل کورٹس۔ سارے نام لکھنے کے لیے شاید ایک پورا کالم بھی ناکافی ہو۔ جیسے آئینی فورم‘ قانونی فورم‘ جوڈیشل فورم‘ اپیل کورٹس‘ ٹرائل کورٹس‘ اپیلنٹ کورٹس‘ Revisional کورٹس‘ Quasi Judicial Foras‘ ٹریبونلز وغیرہ، وغیرہ، وغیرہ۔
اب آئیے اس کی طرف جو نہیں ہے۔ اور پھر دیکھیں گے وہ جو اس کریمنل جسٹس سسٹم کے ذریعے کوچہ و بازار میں بے چینی‘ کرائسس اور امتیازی سلوک‘ غیر مساوی سلوک‘ عدم اعتماد اور ریلیف کے بجائے تکلیف جیسے بچے پیدا کر رہا ہے۔ اس فوجداری نظامِ کی بنیادِ قانون و انصاف آئینِ پاکستان کے وہ آرٹیکلز ہیں جن میں درج بنیادی انسانی حقوق شہریوں کو تحفظ کی گارنٹی دیتے ہیں۔ جس کا ہلکا سا خاکہ آئینی نظام کو سمجھنے کے لیے یہاں درج کرنا ضروری ہے۔
پہلی آئینی گارنٹی:
آئین کا آرٹیکل نمبر 4 اس سکیم میں پہلے نمبر پرآتا ہے جس کے الفاظ میں ہر شہری کا یہ حق ہے کہ وہ قانون کی پروٹیکشن Enjoy کرے اور کوئی بھی دوسرا شخص جو فی الحال پاکستان میں موجود ہو‘ اُسے بھی یہی حق حاصل ہے۔ یہ بنیادی حق inalienable یعنی ناقابلِ تنسیخ اور نان- ٹرانسفر ایبل حق ہے‘ کہ سب کو قانون کا تحفظ حاصل ہو اور سب کے ساتھ قانون کے عین مطابق سلوک روا رکھا جائے۔ آرٹیکل نمبر 4 کا ذیلی آرٹیکل نمبر 2، Custodial ٹارچر اور زیرِ حراست مارے جانے والے پاکستانی شہریوں کے قبل از وقت تحفظ کی ساری ذمہ داری ریاست کے ذمہ ڈالتا ہے۔
ذیلی آرٹیکل (a) کے الفاظ یہ ہیں:
"No action detrimental to the life, liberty, body, reputation or property of any person shall be taken except in accordance with law;"۔
آرٹیکل 4 کی عبارت، روح اور مقصد صرف ایک ہے۔ طاقت کے نشے میں بدمست افراد اور اداروں کو واضح طور پر بتانا کہ شہری کی زندگی‘ آزادی‘ جسم‘ عزت و آبرو یا پھر اثاثے اور پراپرٹی چھین لینا‘ آئین کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔
دوسری آئینی گارنٹی: یہ گارنٹی 1973ء کے آئین کے پارٹ نمبر 2 میں واضح طور پر ان الفاظ میں شہریوں کو دی گئی۔
Security of Person Article 9: "No person shall be deprived of life or liability save in accordance with law"
سادہ ترجمہ یہ ہے کہ کسی بھی شخص کو زندہ رہنے کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ نہ ہی اس کی آزادیاں اس سے چھینی جا سکتی ہیں۔ ماسوائے قانون میں دیے گئے واضح احکامات کے۔ یعنی قاتل کو زندگی کے حق سے محروم کرنے کا اختیار سٹریٹ جسٹس کے ذریعے استعمال نہیں ہو سکتا۔ کوئی ایک طبقہ یا ٹولا کسی دوسرے کو واجب القتل کہہ کر نہیں مار سکتا۔ اس کے لیے عدالتی طریقہ کار میں کمپلینٹ‘ ایف آئی آر‘ گرفتاری‘ ضمانت‘ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 173 کے تحت چالان پیش کرنا۔ اختیارِ سماعت رکھنے والی عدالت میں ٹرائل پھر فیصلہ۔ پھر اپیل؍ نگرانی۔ پھر ہائیکورٹ سے کنفرمیشن آف ڈیتھ۔ پھر سپریم کورٹ میں اپیل۔ جس کے بعد سپریم کورٹ میں ہی آئین کے آرٹیکل 188 کے تحت نظر ثانی کا مقدمہ دائر ہو سکتا ہے۔ اس سارے عمل کے بعد آخر میں صدرِ پاکستان سے رُوبرو آئین کے آرٹیکل نمبر 45 کے تحت سزا معاف کرنے کی آخری حتمی اپیل بھی کی جا سکتی ہے۔ صدر کی طرف سے سزا معاف نہ ہونے کے بعد پھانسی کی سزا پر عمل ممکن ہے۔
اس سارے پراسیس کی تکمیل کے بعد مجرم ثابت ہونے پر کسی کو قانونی طور پر سزائے موت دینے سے پہلے ڈاکٹر اس کا طبی معائنہ کرے گا‘ وارث مرنے والے سے آخری ملاقات کریں گے۔ Executioner اس کے چہرے پر نقاب ڈالے گا اور یہ ساری کارروائی پورے احترام سے ہو گی۔ پھانسی گھاٹ کا لیور کھینچے جانے سے ایک منٹ پہلے مقتول یا مظلوم کے وارث چاہیں تو وہ خون بہا‘ بدلِ صلح لے کر یا اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے فساد فی الارض ختم کرنے کے لیے قاتل کو آخری سانس سے پہلے بھی معاف کر سکتے ہیں۔ مگر اس سارے عرصے میں آئین‘ قانون‘ مینوئل آف پرزن رُولز یا اسلامی لاز‘ زیرِحراست قیدی‘ حوالاتی‘ ملزم یا مجرم پر Custodial Torture and Custodial Killing کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔
بات ڈاکٹر شہبازگِل کی نہیں...