سیلابِ نوح ہم میں سے کسی نے نہیں دیکھا مگر ان دنوں سرزمینِ پاک پر سیلاب ہی سیلاب اُمڈ پڑے ہیں۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا وفاقی یونٹ ہے جہاں آبادی بکھری ہوئی اور وسائل لٹے پٹے ہیں۔ بلوچستان کا ووٹر بلوچستان میں رہتا ہے لیکن لیڈروں کی حویلیاں‘ قلعے اور سرداریاں‘ بے تنخواہ ملازموں کے حوالے ہیں جبکہ لیڈر خود اور ان کے بچے بلکہ کئی کئی families کراچی‘ ملتان‘ لاہور‘ اسلام آباد‘ دبئی اور مغربی ملکوں میں رہتی ہیں۔ 75 سالہ Resource-Leaks کا ایسا سیلاب برپا ہے جس نے ریاستی اداروں کی Empowermentکا تصور بھی مٹا کر رکھ دیا۔ پورے بلوچستان میں تعلیم‘ صحت‘ سوشل ویلفیئر اور زچہ و بچہ کے بارے میں کوئی مستند سروے کسی ادارے کے پاس موجودنہیں ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے محروم علاقے احساسِ محرومی کے بھنور میں مسلسل پھنستے چلے گئے۔ نظر آنے والے اداروں میں کہیں لیویز‘ کہیں پولیس یا دیگر ریاستی آپریٹرز‘نمایاں سے نمایاں ہوتے گئے۔سال 2008ء میں وفاقی حکومت نے آغازِ حقوقِ بلوچستان کے پیکیج کا اعلان کیا۔ اس کے مقاصد حاصل کرنے کیلئے بلوچستان مصالحتی کمیٹی بنائی گئی۔ جس کا سربراہ صدرِ مملکت اور سیکرٹری مجھے چنا گیا۔ اُن دنوں دنیا بھر کے Most Wanted چہروں کے بارے میں ہر روز خبریں آتی تھیں کہ وہ کوئٹہ میں پائے جاتے ہیں یا پھر Spotہوئے ہیں۔ ہولناک دھماکے کیلئے صبح‘ دوپہر‘ شام‘ ہسپتال‘ یونیورسٹی‘ بازار‘گھر یا مارکیٹ کی کوئی قید نہیں تھی۔ کوئٹہ کے عدالت روڈ پر بلوچستان پریس کلب کی عمارت تھی۔ جہاں تک پہنچنا بذاتِ خود ہائی سکیورٹی رسک تھا اس کے باوجود لشکری رئیسانی اور میں نے تین دن تک بلوچستان کے ہر طبقۂ فکر کے لیڈروں‘ دانشوروں اور سٹیک ہولڈرز سے بیچ بازار میں بیٹھ کر اسی شاہراہ پر مصالحتی جرگہ منعقد کیا۔ اس سے بھی پہلے‘میرے زمانہ طالب علمی سے دوستوں یاروں کی وجہ سے بلوچستان میں آنا جانا چلا آ رہا تھا۔ اس لیے یہ ذمہ داری مجھے دی گئی۔ پھر لاء پریکٹس میں آنے کے بعد بلوچستان کے تقریباً تمام بڑے سیاسی خاندانوں بشمول ہزارہ برادری کے مقدمات لڑنے کیلئے میرا بلوچستان ہائیکورٹ اکثر آنا جانا رہتا تھا۔
آغازِ حقوقِ بلوچستان کے اس جرگے کی کارروائی دل دُکھادینے والی تھی جبکہ عام آدمی کی زندگی کی حوالے سے حاصل ہونے والی معلومات ہوش اُڑا دینے والی تھیں۔ اس تجربے کی وجہ سے صوبہ بلوچستان کے بارے میں میرا Perception،360ڈگری تبدیل ہو گیا۔یہ ہوشربا بات نہیں کہ بلوچستان کے حصے کی 35 ہزار ملازمتیں وہ نکلیں جن پر بیوروکریٹس اور سیاست کار سرداروں کے ایسے ملازم‘ تعلق دار یا اقربا بھرتی ہوئے اور جن کیلئے بلوچستان کی سرزمین پر کبھی انٹرویو بھی نہیں ہوا۔نہ ہی کوئی بھرتی سنٹر کھولا گیا۔ ایسے لوگوں کو ملازمت دینے کی وجہ یہ بتائی گئی کہ ہم نے اشتہار دیا تھا لیکن کوئی امیدوار بھرتی ہونے کیلئے اسلام آباد آیا ہی نہیں۔ مزید ہوش اُڑانا چاہیں تو یہ بھی جان لیں کہ ہزاروں لوگوں کو رورل بلوچستان کے جعلی ڈومیسائل سرٹیفکیٹ پر نوکریاں ملتی رہیں جبکہ ان علاقوں میں نقلی بھرتیوں کے نتیجے میں پڑھے لکھے نوجوان قومی اداروں کے بجائے پرائیویٹ لشکروں میں بھرتی ہونا شروع ہو گئے۔ جس کے نتائج آج سب کے سامنے ہیں۔
2020 ء میں‘ میں نے کیبنٹ ڈویژن کے انچارج منسٹر کی حیثیت سے ایک بار پھر جعلی ڈومیسائل اور جعلی بھرتیوں کا معاملہ سرکاری طور پر اٹھایا۔نہ صرف اسے پارلیمنٹ کے فلور پر اجاگر کیا بلکہ گھوسٹ بھرتیوں کی جگہ حقداروں کو حق دینے کیلئے اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی بنوائی۔ دو ہزار سے زائد جعلی بھرتی ہونے والے لوگ identify ہو گئے‘ پتا چلا کہ اُن میں سے آدھے سرکاری سٹیک ہولڈر خود اسی کمیٹی کے ذریعے لے کر آئے تھے جبکہ باقی گزٹڈ آفیسر بن چکے ہیں اس لئے اُن کے خلاف کارروائی کااختیار اُس درجہ پر بیوروکریسی نے استعمال کرنا تھا‘ جہاں ان اہلکاروں کے رشتہ دار بیٹھے ہوئے تھے۔یہ اقربا پروری‘ بدانتظامی اور اداروں کی Empowerment اور Capacity نہ ہونے کی ہلکی سے روداد ہے۔
ان دنوں پھر بلوچستان شدید سیلابوں کی زد میں ہے جہاں بارشی پانی کا سیلاب ہر سال دو موسموں میں حملہ آور ہوتا ہے۔ تازہ سیلاب لاکھوں مویشی‘ مرغیاں‘ چوزے‘ بکریاں اور پرندے بہا کر لے گیا۔ سینکڑوں بستیاں شدید متاثر ہوئیں اور ہزاروں گھر‘ گھرانے بھی مسمار یا ناکارہ ہو گئے۔ حکومتی ریلیف کی سیاسی کارروائیاں تکلیف دہ حد تک نمائشی ہیں جنہیں سیاسی Ramp پر ماڈلز کی کیٹ واک کہنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ چین‘ امریکہ‘ برطانیہ‘ یورپ سمیت لاتعداد ایشیائی اور ساحلی شہروں میں سیلاب‘ سونامی اور Cyclone آتے رہتے ہیں۔ ایسی بلا آئے تو حکومت‘ اُس کا سربراہ اور ریاستی ادارے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر متاثرین کی مدد کیلئے دوڑ پڑتے ہیں۔ اس عمر میں بھی صدر بائیڈن اور ان کی بیگم نے سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی مدد کیلئے ایسا ہی کیا۔ ہمارے ہاں سیلاب فنڈ کھا جانے کے مقدمے زیرِتفتیش بھی آئے اور زیرِ سماعت بھی۔ ایسے کیسز کا نتیجہ بھی نکلا۔ جی ہاں سیلاب فنڈ کھانے والوں کو مزید فنڈ کھانے کا موقع دینے کیلئے قومی وسائل لوٹنے کے اختیار پر پھر بٹھا دینے والا نتیجہ۔
اب آئیے کچھ دوسرے سیلابوں کی طرف۔سب سے بڑا سیلاب آئینِ پاکستان کے اردگرد پھیلا ہوا ہے اور خاص طور پر انسانی حقوق پر بار بار حملہ آور ہے۔ ان دنوںFundamental Rights کے باب کا آرٹیکل نمبر 19اس سیلاب کے گرداب میں ایسا پھنسا ہے جیسے انگلش کا محاورہ In the Eye of Storm۔اس سیلاب کی ایک لہر نے کچھ صحافی اور اینکرز کو بہا کر سات سمندر پار جا پھینکا۔ دوسرے سیلابی ریلے نے نیوز ایڈیٹرز کو حوالات کی کال کوٹھڑیوں میں دھکا دے مارا۔ ایک سائیکلون کے پہلے حملے نے معروف نیوز چینل سے اٹھنے والی آواز پر پانی پھیر دیا۔
جی لیجئے! سیلابی ریلہ بڑھتا ہوا عوام کے سب سے بڑے سونامی سے ٹکرا گیا۔بغیر شوکاز‘ بغیر کسی نوٹس کے‘ بغیر Right of Hearing دیے۔ عمران خان کی براہِ راست تقریریں نشر کرنے پر پابندی لگ گئی۔ عمران بھی عجیب آدمی ہیں۔ بالکل حضرتِ اقبالؒ کی طرح‘ جن کا کہنا ہے ؎
اثر کرے نہ کرے سُن تو لے میری فریاد
نہیں ہے داد کا طالب یہ بندئہ آزاد
خطر پسند طبیعت کو سازگار نہیں
وہ گلستاں کہ جہاں گھات میں نہ ہو صیّاد