کمالِ فن ہے‘ کمالِ فن۔ اسے صرف فن کاری نہیں کہا جا سکتا۔ عوام کو بتایا گیا ہم دونوں کا اقوام متحدہ میں جانا آپ کے مفاد کے لیے بہت ضروری ہے۔ ''امپورٹڈ‘‘ خود بھی اور اُس کا انچارجِ وزارتِ خارجی امور بھی۔ اُردو میں امور کا مطلب‘ تعلقات اور ضروریات بھی ہے۔ یہ بھی کوئی کہنے والی بات ہے کہ پاکستان کے یہ دونوں غیر اکثریتی پارلیمانی لیڈرز صرف اُن ملکوں میں ہی جاتے ہیں جہاں ان کی خاندانی جائیدادیں ہیں۔ ویسے آپس کی بات ہے‘ سب سوچتے ہوں گے۔ یہ دونوں اقوام متحدہ میں جا کر کریں گے کیا؟ خارجی امور ایک کے وزارتی اختیار سے خارج ہے۔ بے چارہ کرایہ دار ہے صرف حقوقِ کرایہ داری رکھتا ہے۔ چونکہ پاکستان میں ہر قرض اور مرض باہر سے امپورٹ ہو کر آتا ہے اس لیے مالک باہر کے دروازے کی چابیاں اپنی جیب سے نہیں نکلنے دیتے۔ ویسے بھی جن پر عام آدمی اعتبار نہیں کرتا‘ خواص کیا خاک کریں گے؟ آئیے UN کے نام پر امریکہ بہادر المعروف US کے دورے کے اہم نکات کی جانب۔
پہلا نکتہ : پاکستان کا تیسرا حصہ سیلابی پانی کے نیچے ہے۔ یہ بات کوئی اور نہیں کہہ رہا بلکہ اس کی دعوے دار خود ''امپورٹڈ‘‘ حکومت ہے۔ اس سیلابِ بلا کی آمدکو روکنا تو خیر سے کبھی ''امپورٹڈ‘‘ حکمرانوں کی ترجیح ہی نہیں تھی ورنہ چالیس دن میں پانی کی آبادیوں سے دور نکاسی کا کچھ ایڈوانس بندوبست لازماً ہو سکتا تھا‘ جو نہ ہوا۔ باہر سے سیلاب کے لیے جو امداد آئی ہے‘وہ کتنے محفوظ ہاتھوں میں ہے‘ اس کا ثبوت بھی کسی اور نے نہیں ''امپورٹڈ‘‘ کابینہ کی ایک منسٹر نے خود میڈیا کے سامنے رکھا۔
موصوفہ نے آن کیمرا فرمایا: سیلاب کے متاثرین کا فنڈHack یعنی چوری ہو گیا ہے۔ اب کوئی یہ پوچھے کہ جس ملک کے حکمران لیڈر ز پہلے سے یہ موقف رکھتے ہوں۔ اگر اُن کے اثاثے اُن کی آمدن سے زیادہ ہیں تو کسی کو کیا تکلیف ہے؟ اگر ان حکمرانوں کے بینک اکائونٹس میں کسی نے چپکے سے دس‘ بیس ارب روپے کی کرنسی جمع کروا دی تو اس میں اُن بے گناہوں کا کیا قصور ؟ اگر ان کے چپڑاسی‘ ڈرائیور یا اس کی پھوپھوکے نام پر اکائونٹ کھول کر اُس میں چار‘ چھ ارب روپے میں نے گھما لیے اور گھوم کر وہ پیسے میرے اکائونٹ میں آ گئے تو اس میں نیب یا کسی اور احتسابی ادارے کا کیا کام ہے؟ آن ریکارڈ یہ بیان دینے والے لیڈر کہہ رہے ہیں‘سندھ سیلاب کے لیے جمع ہونے والی رقم ہیکرز لے اُڑے۔
مطلب یہ ہوا وادیٔ مہران کے عوام کا خزانہ محفوظ ہاتھوں میں نہیں۔پھر لیڈی منسٹر نے کہا کہ BISP اکائونٹ سے بھی پیسے چوری ہو رہے ہیں۔ قومی خزانے میں اس طرح اور اس سے بھی بڑے کھلواڑ 75 سالوں سے جاری ہیں اور ساتھ ساتھ ہر واردات کے بعد مجرموں کو انعامی کرسی ملنے کا سلسلہ بھی۔ ایسے میں خزانہ لٹ جائے‘ ووٹر سیلاب کے بھاڑ میں جائے‘ مرسُوں مرسُوں امریکہ نہ چھڈسوں۔ کیا آج سکائپ‘ زوم‘ وٹس ایپ وغیرہ پر عالمی لیڈرز کانفرنسوں میں شرکت نہیں کرتے؟ مگر اب کہنے والا کون ہے؟
کر کے نذرِ گردشِ حالات امریکہ نہ جا
کیسے پورے ہوں گے اخراجات امریکہ نہ جا
بس لڑائے رکھ یونہی جانِ جہاں ہمسایوں سے
بس بنائے رکھ ہماری بات امریکہ نہ جا
تیرے جانے سے تو جاں ہو جائیں گے برباد ہم
دے کے اشکوں کی ہمیں برسات امریکہ نہ جا
خاک میں مل جائیں گے سارے ہمارے کرّوفر
لوگ بیٹھے ہیں لگائے گھات‘ امریکہ نہ جا
دوسرا نکتہ:اقوامِ متحدہ سے متعلقہ پاکستان اور اسلامیانِ پاکستان کے تین عدد ایشوز Pending ہیں۔ ان میں سے آتش فشاں ایشو مسئلہ کشمیر کا حل ہے۔ UN کی قرار دادوں کی روشنی میں کشمیریو ں کے مستقبل کا فیصلہ آزادنہ استصوابِ رائے کے ذریعے۔ سوال یہ ہے خارجی امور کے وزیر یا اس کے ''امپورٹڈ‘‘ وزیراعظم نے اپنی مہنگی ترین سفارت کاری کے ذریعے سکیورٹی کونسل‘ سائیڈ لائن‘ Bilateral talks میں کیا تیر مارا؟ کشمیر پر دو سال سے جاری بے رحمانہ لاک ڈائون پر بھارت کی مذمت کی؟ ہمارا دوسرا مسئلہ بھی رگِ جاں سے کم اہم نہیں۔ بیت المقدس قبلۂ اوّل کی آزادی۔ اقوامِ متحدہ کے فیصلوں کی روشنی میں فلسطین کے لیے آزاد ریاست کا قیام اور بیت المقدس کو اُس فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بنانے پر کوئی بات چیت کی؟
صبح شام فلسطین میں خون بہتا ہے
سایۂ مرگ میں کب سے انساں رہتا ہے
ظلم کے ہوتے امن کہاں ممکن یارو
اسے مٹا کر جگ میں امن بحال کرو
اس تسلسل میں تیسرا مسئلہ دنیا بھر میں بسنے والے پونے دو ارب مسلمانوں کی دل آزاری اور روح آزاری کا ہے۔ مغرب کے گورے نسل پرست سیاست کاروں نے اسے اسلاموفوبیا کا مرض بنا ڈالا۔ اپنی مطلب براری گھٹیا بازاری سیاست کے لیے۔ عمران خان جب بھی اقوامِ متحدہ سے مخاطب ہوئے‘ اسلاموفوبیا کے خلاف کھل کر بھرپور دلائل کے ساتھ اسلامو فوبیا کے ذہنی مریض لیڈروں کا پوسٹ مارٹم کیا۔ جس کی گونج UN اور US دونوں میں ابھی باقی ہے۔
موجودہ دورے سے ''امپورٹڈ‘‘ وزیراعظم کی واحد کمائی اپنے بزرگوار ممدوح صدر جوبائیڈن کے ساتھ کھڑے ہو کر کھینچی گئی تصویر ہے۔ ایسی تصویر جو آپ میں سے ہر شخص کے ساتھ کسی نہ کسی شادی کی تقریب میں اجنبی کھڑے ہو کر کھنچوا لیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر یہ تصویر طاعون کی طرح پھیلی ہے۔ جس میں شہباز شریف نے اپنے مشہور زمانہ انگلی والا ہاتھ امریکی صدر کی کمر سے لپیٹ رکھا ہے۔ کسی کافر ادا فقرے باز نے اس پر سرخی جمائی: آخرکار شہباز شریف اپنے سیاسی خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ آپ اس تصویر کو سائیفر رجیم چینج کی Trailبھی کہہ سکتے ہیں اور Moneyبھی۔
اس دورے سے یواین میں تو کچھ نہ ہوا۔ ہاں البتہ شہباز شریف نے یو ایس میں پاکستان کی جلد ڈیفالٹ والی پیشین گوئی سے جو کچھ کر دکھایا‘ اُس کے نتائج بھیانک ہیں۔