سوال اپنی جگہ بہت اہم ہے۔ کیا 1973ء کے آئین میں موجودہ پارلیمنٹ یا پھر سپریم کورٹ یا دونوں‘آرٹیکل 62(1)(F)میں ترمیم کر سکتے ہیں ؟ لیکن پہلے یہ ضروری ہو گا کہ پچھلے وکالت نامہ کے تسلسل میں آرٹیکل 62(1)(F)کو سامنے رکھ لیں۔ یہ آرٹیکل یوںبولتاہے :
"He is sagacious, righteous and non-profligate, honest and ameen, there being no declaration to the contrary by a court of law".
یعنی کوئی امیدوار صرف اُسی صورت میں پارلیمنٹ کا الیکشن لڑنے کا اہل ہوگا یا پارلیمنٹیرین چُنے جانے کے قابل ہو گا جب وہ راست باز(مَن اور قول کا سچا)صالح اور منصف مزاج‘ غیرلالچی‘ ایمان دار اور امانت دار ہو۔ اورہر ایسے امیدوار کی ان خصلتوں/کردار کے حوالے سے کسی مجاز کورٹ آف لاء کی جانب سے اس کے برعکس/خلاف کوئی ڈیکلریشن یا فیصلہ نہ صادرہواہو۔اب آئیے ہم آرٹیکل 62کے ذیلی آرٹیکل F‘ Y‘ آرٹیکل E اور آرٹیکل D کو ایک دوسرے کے مقابل رکھ کر پڑھیں۔ جس سے صاف پتا چل جائے گا کہ عملی طور پر ان تینوں آرٹیکلز کا مقصدِ تخلیق اور نفسِ مضمون اصل میں ایک ہی ہے۔
اسی مرحلے پر اس بحث کا ایک اوراہم پہلو بھی دیکھ لیتے ہیں‘وہ یہ کہ بحیثیت ِقوم‘ ہم میں سے ہر شخص پاکستان اور اسلام سے محبت کا زوردار دعویدار ہے۔زبانی حد تک ہر کوئی اسلام کی بالا دستی اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا پھریرا لال قلعے پر لہرانے کا خواہش مند رہتا ہے۔ افرادِ ملت کی انہی خواہشوں کو 1973ء کے آئین نے اپنے دیباچہ (Preamble) کی بنیاد بنایا ہے۔
آئینِ پاکستان کے Preambleکا آغاز ان الفاظ سے ہورہاہے:
Whereas sovereignty over the entire Universe belongs to Almighty Allah alone, and the authority to be exercised by the people of Pakistan within the limits prescribed by Him is a sacred trust.
12اپریل 1973ء کے روز ہم نے اس Preamble میں دیے گئے مقاصدِ پاکستان کو اپنا لیا تھا۔ کسی عام قرارداد کی شکل میں نہیں‘ بلکہ پارلیمنٹ کے ذریعے‘ وہ بھی دستور کی شکل میں ہم نے یہ آئین بحیثیت قوم‘ متفقہ طور پر (adopt)کرکے اپنے اور اپنی سرزمینِ وطن پر لاگو کردیا۔جس کی رو سے ملک کے بنیادی سٹرکچر کے 3پِلرکھل کرسامنے آ گئے‘جو یہ ہیں:
پہلاپِلر: یہ ناقابلِ تنسیخ دستوری اصول طے کر لیا گیاہے کہ ساری کائنات پر ہر طرح کا اقتدارِ اعلیٰ(Soverignty) صرف اور صرف اللہ رب العزت کی ذاتِ با برکات کے قبضۂ قدرت میں ہے۔
دوسراپِلر: پاکستان کے لوگ‘پاکستان میں ہرقسم کی اتھارٹی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے طے کردہ حدود (limits) کے اندر رہتے ہوئے استعمال (Exercise) کرنے کے پابند بنا دیے گئے ہیں۔
تیسراپِلر: اللہ تعالی کی کائنات میں‘ پاکستان کی سر زمین پر اللہ تعالیٰ ہی کی طے کردہ حدود کو پاکستان کے لوگوں کے لیے مقدس امانت (sacred trust) سمجھا جائے گا۔
اوپر درج کیے گئے ان تین عددپلرز سے آئین نہ کسی شخص یا ادارے کو انحراف کی اجازت دیتا ہے۔ نہ ہی اللہ تعالیٰ کی طے کردہ حدود کے نیچے سارے اختیاراور اقتدار‘ جن کو اللہ ہی کی امانت قراردے دیا گیا ہے‘ کو تاراج کرنے کا حق دیتا ہے۔ لہٰذا کسی آئینی ترمیم یا عدالتی فیصلے سے آئین کا وہ اساسی ڈھانچہ جسے آج تکBasic Structure قرار دیا جاتا رہا ہے‘ وہ در اصل آئین کا Islamic Structure ہے اور میں اسے ایسا ہی سمجھتا ہوں۔ یہ کوئی محض لفظی بحث نہیں جس سے کسی مذاکرے‘ ریمارکس یا کسی طرح کے بھی حکم نامے سے فرار کا کوئی راستہ تلاش کیا جا سکے۔ میرے نزدیک آئین کے Preamble میں جہاں لفظ people of Pakistan استعمال کیا گیا ہے‘ اس میں صرف مرد‘ عورت اور مزدور نہیں آتے بلکہ عدلیہ‘ دفاع اور میڈیا کے ادارے بھی اسی کیٹیگری میں آتے ہیں۔
1973ء کا آئین یہیں نہیں رکتا بلکہ اس سے بھی آگے جاتا ہے۔ پوری وضاحت اور کھلے لفظوں کے ساتھ یہ بتاتے ہوئے کہ پاکستان میں مسلم آبادی کو اجتماعی حیات گزارنے کے لیے کس نظریے کو منتخب کیا گیا۔ آئیے میں آپ کی توجہ آئین کے Preamble کے پانچویں پیراگراف کی طرف دلوائوں‘ جس کے واشگاف الفاظ یہ ہیں:
Wherein the Muslims shall be enabled to order their lives in the individual and collective spheres in accordance with the teachings and requirements of Islam as set out in the Holy Quran and Sunnah;
اس آئینی کمانڈ کو غور سے پڑھ کردیکھ لیں۔ اس میں کوئی ابہام یا غلط فہمی کہیں نہیں پائی جاتی کہ 1973ء کا آئین‘ وطنِ عزیز میں طاقت کے سارے مراکزسے کیا مطالبہ کرتا ہے۔ اس کا پہلا مطالبہ یہی ہے پاکستان کے مسلمانوں کو ہر قیمت پر اس قابل بنایا جائے کہ وہ اپنی زندگیوں کو‘ چاہے وہ انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی معاملات ہوں‘ جن کے لیے آئین میں (collective spheres) کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ ساتھ ساتھ یہ بھی کہ ان دونوں درجوں پر اسلام کی تعلیمات اور ان تعلیمات کے تقاضے پورے کیے جائیں جو دینِ اسلام‘ پاکستان کی مسلم آبادی سے کرتا ہے۔ وہی تقاضے جو مقدس قرآن کریم اور سنتِ نبی آخر الزماں حضرت محمدﷺ میں طے کر دیے گئے ہیں۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ ان تقاضوں کے مطابق ہی انفرادی اور اجتماعی معاملات چلائے جائیں۔
میں نے آج پاکستان کے اس اسلامی آئین کو اس کے اپنے آرٹیکلزکی روشنی میں کھول کر رکھ دینے کی کوشش کی ہے کیونکہ اس وقت کئی جانب سے ایسا ابہام اور مغا لطہ پیدا کیا جا رہا ہے جس سے لگتا ہے شاید ہمارا آئین ماڈرن تقاضوں کے مطابق بڑا ظالمانہ ہے۔ ایسا ہرگز بھی نہیں ہے کیونکہ 1973ء کے آئین کے Preamble کا پیراگراف نمبر 6 ریاست کو اس بات کا پابند بناتا ہے کہ وہ ملک پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کو تین بنیادی سہولتیں فراہم کرے: پہلی سہولت کے مطابق اقلیتوں کو پوری آزادی کے ساتھ اپنے مذاہب کا اظہار (Profess) کرنے کے لیے آئین باقاعدہ اجازت‘ اقدامات اور سہولتیں فراہم کرنے کا حکم دیتا ہے۔ دوسری سہولت کے ذریعے ہمارا اسلامی آئین تمام مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے اپنے مذہب کی عبادت‘ روایت اور پرسنل لاء پر عمل (Practice) کرنے کی مکمل آزادی دیتا ہے۔ تیسری سہولت کہتی ہے‘ ہر مذہب کے ماننے والوں کو آئینِ پاکستان اپنے اپنے تشخص اور کلچر کو ترقی دینے‘ اسے (Develop) کرنے کے حق میں ریاست کو مکمل سہولت کاری کا پابند کرتا ہے۔ اس مرحلے پر اس سوال کا جواب دینا چاہوں گا جو اپنی جگہ بہت اہم ہے۔ کیا 1973ء کے آئین میں موجودہ پارلیمنٹ یا پھر سپریم کورٹ یا دونوں‘ آرٹیکل 62(1)(F) میں ترمیم کر سکتے ہیں؟ لیکن ذرا رک جائیے۔ (جاری)