"SBA" (space) message & send to 7575

اسلامی آئین کی الٹرا ماڈرن تشریح… (3)

آئیے! ذرارک جاتے ہیں۔اس مرحلے پر ضروری ہو گا آئینِ پاکستان کی اساس یعنی Basic Structureکو 1973ء کے آئین سے مزید دیکھ لیں۔ آئین کے باب نمبر2میں ریاست پاکستان کو چلانے اور اس کی ادارہ جاتی تربیت اور رہنمائی کے لیے Principles of Policyواضح کیے گئے ہیں۔جن میں سے آرٹیکل 31ذیلی آرٹیکل نمبر(1)بہت واضح احکامات دیتا ہے۔ الفاظ یہ ہیں:
Steps shall be taken to enable the Muslims of Pakistan, individually and collectively, to order their lives in accordance with the fundamental principles and basic concepts of Islam and to provide facilities whereby they may be enabled to understand the meaning of life according to the Holy Quran and Sunnah.
1973ء کے آئین کے آرٹیکل 31کی تشکیل بہت گہرائی کے ساتھ معنی خیز ہے۔ پانچ لائنوں کی مختصر تحریر میں اسلامی طرزِ حیات یا Islamic way of lifeکیلئے ریاست کے رہنما اصول پوری وضاحت سے یوں رکھے گئے ہیں۔ نمبر1۔ ریاست کا پہلا رہنما اصول: ریاستِ پاکستان کو اس امرکا پابند بنایا گیا کہ وہ ایسے اقدامات کرے جو پاکستان کی مسلم آبادی کو اسلامی اصولوں پر مبنی زندگی گزارنے کے قابل بنادیں۔
نمبر2۔ ریاست کادوسرا رہنما اصول: ہمارا آئین پاکستان کے مسلم شہریوں کی زندگی کے دو پہلوئوں میں اسلامی طرزِ حیات کا تقاضا کرتا ہے‘ ایک ہے افراد کی ذاتی زندگیاں (individual life)۔ دوسرا ہے Collective Spheres یعنی ریاستِ پاکستان میں اجتماعی طرزِ حیات کو اسلامی اصولوں سے ہم آہنگ کرنے کو ممکن بنانا۔
نمبر3۔ ریاست کا تیسرا رہنما اصول: آئین کا آرٹیکل 31 ریاست کے نام اس بات کیcommand جاری کرتا ہے کہ اسلامی طرزِ حیات کی ترویج کیلئے ریاست کے مسلم شہریوں کو اپنی زندگیاں اسلام کے بنیادی اصولوں اور بنیادی نظریات/ عقائد (Basic Concept) کے مطابق ڈھا لنے میں معاون بنے اور اسے یقینی بنائے۔
نمبر4۔ ریاست کا چوتھا رہنما اصول: ریاست اس بات کی پابند ہے کہ شہریوں کوایسی سہولتیں اور ذرائع مہیا کرے جن کے ذریعے پاکستان کے مسلمان شہری اس قابل ہوجائیں کہ قرآن مجید اور سنتِ رسولﷺ کی ہدایات کی روشنی میں اپنی ذاتی زندگی کوکیونکر استوار کرنا ہے۔
یہ اصول ریاست کے رہنما اصولوں میں صرف ایک آرٹیکل نمبر31کے اندر اتنی تفصیل سے رکھنے کا مطلب و مقصد کیا ہے؟ اس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ پاکستان کا آئین اسلامی ہے‘ جو ہر شہری پر شخصی حیثیت سے اسلام کے تقاضے پورے کرنے کی ذمہ داری ڈالتا ہے۔ ساتھ وہ پاکستانی سماج سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ انفرادی اور ادارہ جاتی سطح پر بھی اسلامک وے آف لائف کیلئے لازمی طور پر راستہ ہموار کرے۔ اس کے ذیلی آرٹیکل میں بھی خاص طور پر اخلاقی معیار قائم رکھنے پر زور دیاہے۔ جس کے لیے بڑے مضبوط الفاظ یوں استعمال کیے گئے ہیں۔
The state shall endeavour, as respects the Muslims of Pakistan:- 31-(2) (b):"...the observance of the Islamic moral standards"
آج کی نیشن سٹیٹس میں کئی قسم کی ریاستیں وجود میں آ چکی ہیں جن میں ویلفیئر سٹیٹ‘ ڈکٹیٹر شپ‘ نظامِ سرمایہ داری‘ بادشاہت‘ امارات‘ کمیونسٹ ریاست‘ لبرل ریاست‘ فوج کے زیر تصرف ریاست۔ ری پبلک‘ یونین آف سٹیٹس‘ مذہبی پاپائیت کی ریاستیں‘ سنگل ہائوس جمہوری نظام‘ صدارتی نظام‘ پارلیمانی ریاستیں‘ بنانا ری پبلک‘ سوشلسٹ ریاست‘ یہودی ریاست‘ کرسچین ریاستیں‘ ہندو ریاست‘ بدھ اِزم سٹیٹس‘ کنفیوشسٹ ریاست‘ Autocratic ریاست‘ سیکولر ریاستیں‘ استعمار کی کالونیاں اور زیر قبضہ ریاستیں۔ ہمارے جیسی اسلامک ری پبلک بھی۔ اگر ہم یونائٹیڈ کنگڈم آف انگلینڈ اینڈ ویلز کی مثال لے لیتے ہیں یا پھر USA بہادر کو بطور کیس سٹڈی سامنے رکھ لیں‘ ہر دو صورتوں میں راج نیتی کی اخلاقیات اور اپنے لوگوں کے سامنے اپنے عہدے کی جوابدہی کی بڑی جاندار مثالیں موجود ملتی ہیں۔ یو کے میں منتخب وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کا نام پانامہ لیکس میں آ گیا۔ ڈیوڈ اس قدر بے وقوف تھے کہ نہ تو انہوں نے ''مجھے کیوں نکالا‘‘ کی مہم چلائی‘ نہ ہی اپنے وزیر سے کہلوایا کہ ''کیمرون صاحب! تُسیں فکرنہ کرو لوکی پانامہ نُوں بُھل جان گے‘‘۔ ڈیوڈ کیمرون کسی کرپشن میں ملوث نہ تھے اور نہ ہی ان پر کوئی مقدمہ بنا‘ نہ سزا ہوئی۔ یہ کمزور گورا‘ اپنی پبلک کی رائے کے سامنے یہ کہتے ہوئے ڈھیر ہو گیا کہ میں پانامہ لیکس کے پروپیگنڈے کا بوجھ اپنے ملکی نظام پر نہیں ڈال سکتا۔ 1973ء کی آئین ساز اسمبلی نے جسے framer of the constitution بھی کہا جاتا ہے‘ اس بات کا پورا اہتمام کیا کہ نظریۂ ضرورت آئین میں سے اسلامی اقدار کو بہا کر نہ لے جائے‘جس کا ثبوت ہمارے دستور کے پارٹ IX میں Islamic Provisions کے آئینی تحفظ کے عنوان تلے ملتا ہے۔ یہ ہے آرٹیکل نمبر 227 جس کا حرفِ آغاز ہے: Provisions relating to the Holy Quran and Sunnah۔ اس آرٹیکل میں 2 عدد ذیلی شقیں اور ایک صراحت (Explnation) بھی ڈالی گئی۔ آرٹیکل نمبر 227 کی پہلی شق کے الفاظ یہ ہیں: All existing laws shall be brought in conformity with the Injunctions of Islam as laid down in the Holy Quran and Sunnah, in this Part referred to as the Injunctions of Islam, and no law shall be enacted which is repugnant to such injunctions۔یہ اسلامی عقائداور حدود کے آئینی تحفظ کا سب سے زوردار‘ کمانڈنگ آرٹیکل ہے جس نے آئین میں شامل قرآن و سنت کی تعلیمات اور حدود‘ دونوں کو دنیاوی قوانین (Man made laws) سے برتر و بالا رکھا۔ آرٹیکل 227 کے تحت پاکستان میں موجود سارے قوانین کو اسلامی حدود کے مطابق بنانے کی پابندی لگائی گئی ہے۔ اسلامی حدود کی تعریف میں قرآنِ کریم اور سنتِ جناب رسولﷺ بتائی گئی۔ ساتھ ہی یہ پابندی لگا دی گئی کہ پاکستان میں کوئی بھی ایسا قانون نہیں بن سکتا جو قرآن و سنت سے متصادم (Repugnant) ہو۔
اب آئیے اس سوال کی جانب کہ کیا پارلیمنٹ‘ سپریم کورٹ آف پاکستان یا پھر دونوں آئین میں سے اسلامی دفعات اور حدود پر مبنی حصوں کو حذف یا تبدیل کر سکتی ہیں؟ اس کا جواب 1973ء کے آئین اور میرے مطابق ہے: Absolutly Not، یعنی بالکل بھی نہیں! سپریم کورٹ کے 5 جج صاحبان نے اسی تناظر میں‘ اسی ہفتے C.P.NO-2 صدارتی ریفرنس نمبر1 اور C.P.No-9 /2022 کا consolidated فیصلہ جاری کیا۔ فیصلے کے پیراگراف نمبر 40 میں لارجر بینچ کے سامنے میرے دلائل کا حوالہ پڑھا جا سکتا ہے جہاں سپریم کورٹ نے 62(1)f کو تبدیل کرنے سے معذوری ظاہر کی۔ پارلیمنٹ میں کسی کے پاس دو تہائی اکثریت نہیں‘ لہٰذا اسلامی آئین کی الٹرا ماڈرن تشریح یا تنسیخ دیوانے کا خواب ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں