"SBA" (space) message & send to 7575

Ex-Parteگناہ

کوئی اَن ہونی سی اَن ہونی ہے! کوئی حیرانی سی حیرانی ہے۔ آپ اسے 75سالہ پاکستانی تاریخ کا سب سے بڑا سرپرائز کہنے میں بھی حق بجانب ہیں۔ لوگ آزاد ہونا چاہتے ہیں اپنے آزاد ملک میں۔ کروڑوں لوگ‘ جن میں سے لاکھوں سڑکوں پر نکل آئے اور اپنا فیصلہ سنا چکے ہیں۔ وطن عزیز نے اپنا لانگ مارچ ٹُو فریڈم صرف اگست 1947ء میں دیکھا تھا۔ یہ قدرت کا حسنِ انتظام ہے یا سیاسی جبروت کا حسنِ انتقام کہ عوام FIRسے خوفزدہ ہیں نہ ہتھکڑی سے ڈر رہے ہیں۔ حسین ترین اتفاق یہ کہ عمران خان کے حقیقی آزادی مارچ کا نعرہ بھی وہی ہے جو تحریک آزادیٔ پاکستان میں لگتا تھا۔
تیرا میرا رشتہ کیا: لا الہ الا اللہ
پاکستان کا مطلب کیا: لا الہ الا اللہ
انفرادی و شخصی خواہشات مقصدِ حیات ہوں تو ایسے فرد یا سماج کے خلاف Technology of Fearکام آسکتی ہے لیکن اسے قدرت کا انعام کہیے کہ اگر مقصد اجتماعی ہو اور ذاتی خواہشات سے اُوپر اٹھ کر اس کے لیے کوئی میدان میں نکل پڑے۔ ایسے میں خوف کی کیمسٹری اُس کے دل و دماغ اور جسد و روح سے دور بھاگتی ہے۔ اس وقت پاکستان کی 22 کروڑ آبادی میں سے 18 کروڑ لوگ یوتھ سے تعلق رکھتے ہیں۔ نوجوانی ہر طرح کی انرجی کا پاور پیک ہوتا ہے۔ اسے نظریے کی وائرنگ میں ڈال دیا جائے تو پھر زمینی بجلی کیا آسمانی بجلی بھی اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ برادرم اوریا مقبول جان نے اس پر کمال کا تبصرہ کیا۔ اوریا صاحب کہنے لگے: عمران خان کے مارچ میں میری عمر کے لوگ تھوڑی ہی شریک ہیں جو مصلحت پسندی سے چلیں۔ یعنی نظریۂ ضرورت کا سوچیں۔ اس وقت پاکستان کی ورکنگ کلاس پہلی بار 75سالہ Status Quo اور پاور بروکر Elite طبقات کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ یہ نوجوان طبقے کے حرفِ انکارکا صرف نقطۂ آغاز ہے۔ سال 2023ء کے الیکشن میں 2کروڑ سے زائد پاور پیک نوجوان ووٹر بننے جا رہے ہیں۔ ایک کروڑ پاکستانی جو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں انہیں بھی شامل کر لیں۔ اس نئے سیاسی کلچر اور نئے Phenomenonسے انکار ایسے ہی ہے جیسے کوئی سورج کے سامنے انگلی رکھ کر اسے چھپانے کی کوشش کرے۔ پاکستان کی ریاست ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تبدیل ہو چکی ہے۔ مجھے 1970ء کے عشرے کا آغاز اور اپنے سکو ل کا زمانہ یاد آرہا ہے جب شہر اقتدار سیکٹر جی سِکس‘ سیکٹر جی سیون اور سیکٹر ایف سِکس کے چند سو گھروں تک محدود تھا۔ وہاں زیادہ تر سرکاری ملازمین کے رہائشی کواٹرز زیرِ تعمیر تھے۔ فیڈرل گورنمنٹ ہائی سکول نمبر1‘ ڈگر ی کالج اور دو تین پرائمری سکولوں کے ساتھ اسلام آباد Capital of the Nationکا کل علمی اثاثہ تھا۔ ان سکولوں میں بنگالی لڑکے اور لڑکیاں ہمارے کلاس فیلو تھے۔ مشرقی پاکستان کے ان سٹوڈنٹس کی کمپنی نے بنگالی زبان بھی کسی حد تک سکھا دی۔ چھ‘ سات مہینے پہلے Azerbaijanکے صدر صاحب کی خود نوشت کتاب کی رونمائی نیشنل لائبریری اسلام آباد میں منعقد ہوئی جہاں مجھے مہمان خصوصی اور "Key Note Speaker" کے طور پر بلایا گیا۔ شرق و غرب کے تقریباً سارے سفیر موجود تھے۔
بنگلہ دیش کے سفیر صاحب Azerbaijanکے سفیر صاحب کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے میزبان کے طور پر اُن کے ساتھ کھڑے تھے۔ جن کا تعارف کروایا گیا تو میرے دل میں گمشدہ محبت کی تازہ لہر دَر آئی۔ میں نے پوچھا ''کیمون آثے؟ اَپ نار نوم کی چھیلو؟‘‘ بنگلہ دیش کے سفیر کا چہرہ خوشی سے کِھل اُٹھا۔ پوچھنے لگے: آپ نے بنگالی زبان کس سے سیکھی؟ میں نے کہا: اپنے بنگالی بہن بھائیوں سے اور پھر چائے کی میز سے Media Event تک ہم ساتھ ساتھ ہی رہے۔
بنگلہ دیش کا تذکرہ بنگلہ دیش نامنظور تحریک کے حوالے سے ذہن میں آیا۔ تب میں ہائی سکول میں تھا‘ جب شہرِ اقتدار نے اپنی سڑکوں پر بچوں کے جلوس دیکھے۔ تب بھی بڑے بڑے مصلحت کا شکار تھے اور ان کا احتجاج پریس کلبوں سے آگے نہ بڑھ سکا۔ ابھی ابھی ریاست پاکستان کے بڑے داروغہ نے خدا کی قسم کھا کر کہا ہے کہ میں نے ساری انٹیلی جنس ایجنسیز اورکارِ خاص والوں سے پوچھا ہے‘ سچ یہ ہے کہ عمران کے لیے 40‘ 50سے زیادہ لوگ باہر نہیں نکلے۔ رائیونڈ کے حکمران خاندان (یہ اصطلاح رائیونڈ کی خاتون لیڈر نے اپنی زبان سے بولی ہے) کے مطابق صرف وہ لوگ پاکستان میں بستے ہیں جن کے پاس وزارتیں ہوں۔ باقی سب اِیون فیلڈ سے عوامی مزاحمت کے خلاف بدکلامی مزاحمت کی لفظی تحریک چلا رہے ہیں۔ متحدہ پاکستان کے زمانے میں شیخ مجیب 60 فیصد ووٹ لے کر الیکشن جیتا۔ اُسے ڈھاکہ سے سہالہ جو میرے آبائی گائوں ہوتھلہ سے جڑا ہوا ہے‘ کے پولیس ٹریننگ کالج میں بند کر دیاگیا۔ شیخ مجیب غدار بنا مگر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے الیکشن جیتنے سے پہلے اسے ناہل قرار نہیں دیا تھا۔
تھرڈ پارٹی Historyپڑھیں تو پتا چلے گا کہ اُس وقت کے پاور بروکر Eliteطبقات شیخ مجیب کی فتح کو اپنی شکست سمجھ بیٹھے۔ علامہ اقبال کے خواب اور قائداعظم کی محنت سے بننے والا ملک تو ٹوٹ گیا لیکن شکر صد شکر‘ اُ ن کی اَنا نہیں ٹوٹی جس طرح ان دنوں ہم ارشد شریف کے قاتلوں کو کینیا میں تلاش کر نے پرزور دے رہے ہیں‘ عین اُسی طرح ہم مشرقی پاکستان میں گمشدہ غداروں کو تلاش کرنے کے لیے سر گرداں رہے‘ 51سال گزرنے کے بعد بھی۔ یہ تلاشِ گمشدہ نصف صدی کا قصہ ہے‘ دو چار برس کی بات نہیں۔ لیکن ملک توڑنے والوں کے جو نام ہم ڈھونڈ رہے ہیں اُن کی رپورٹ حمود الرحمن کمیشن نے دے رکھی ہے۔ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ ابھی تک گمشدہ نہیں۔ اُسے سِلہٹ کے کِھلیانوں اور چِٹا گانگ کے پہاڑوں میں تلاش کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ رپورٹ پاک سیکرٹریٹ کے کیبنٹ ڈویژن میں پڑی ہے اس گُم سُم رپورٹ کے کمرے کی ابھی چابی بھی گُم نہیں ہوئی۔
رپورٹ سے یاد آیا۔ پاناما کیس میں والیم نمبر 10بھی ایک رپورٹ ہی تو ہے۔ یہ رپورٹ 10 Downing Street میں نہیں ملک میں موجود ہے۔ اِسے فوراً پبلک ہونا چاہیے۔ ورنہ ان دونوں رپورٹوں پر اپنے اندازے باندھنے والےEx-Parteگناہ کرتے رہیں گے۔ Ex-Parteگناہ کا قصہ پھر سنائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں