لیبل کا رنگ بالکل ویسا ہی ہے جیسا پہاڑی علاقوں میں 1947ء ماڈل بیڈ فورڈ بس پر نیا رنگ ڈال کر سامنے لکھا جاتا ہے ''پہاڑوں کی شہزادی‘ ماڈل 2023ء‘‘۔ اسی طرح کے 2023ء ماڈل سیاست والے پہاڑوں کی شہزادی پر جناب حسن عسکری صاحب کی گفتگو کے چرچے ہیں جو انہوں نے قائداعظم ہاؤس لاہور کے اچانک دریافت ہونے کے بعد دنیا ٹی وی کے ایک پروگرام میں کی۔ اسلامیانِ پاکستان اور بنگلہ دیش کو RSSاور تاجِ برطانیہ کے استعمار سے چھین کر ہمیں آزاد ملک دینے والے اس وطن کے بانی‘ پہلے گورنر جنرل حضرت قائداعظم محمد علی جناح ؒ کی لاہور میں ایک نہیں بلکہ دو جائیدادیں سامنے آگئیں۔
قائداعظم ہاؤس پر ہلڑ بازی کے بعد شہباز شریف کا کہنا ہے کہ وہ مسلسل خون کے آنسو رو رہے ہیں۔ شہباز شریف کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اسی لاہور میں سبزہ زار‘ ماڈل ٹائون‘ زمان پارک‘ لبرٹی چوک اور کینال بینک بھی واقع ہے۔ جہاں لاہور ہی کے شہریوں کو بے رحمی سے قتل کیا گیا۔ پھر ان کے بے گورو کفن لاشے وارثوں کے حوالے کیے گئے۔ ساتھ ہی ریاستی جبروت کے ذریعے ان مقتولوں کے جنازے اندھیرے میں پڑھانے کاحکم دیاگیا۔ اے! کاش اصلی نہ سہی کوئی رنگین مصنوعی آنسو ایسا ہوتا جو شہباز شریف کی آنکھوں سے ان مقتولوں کے لیے بھی گر جاتا۔
ابھی کل ہی کی بات ہے جب وزارتِ داخلہ پنجاب نے دعویٰ کیا تھا کہ ماڈل ٹائون میں ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ پر بھاری تعداد میں اسلحہ اور بارود موجود ہے۔ ظاہر ہے‘ اس فائر آرم کو چلانے والے شر پسند بھی وہیں پر موجود ہیں۔ اس لیے امن وامان اور لاہور کو محفوظ بنانے کے لیے ماڈل ٹائون ایکشن ناگزیر ٹھہرایا گیا۔ اس وقت پنجاب میں ایسے ٹولے کو صوبائی حکومت کہا جا رہا ہے جس کو پنجاب کے عوام نے ایک ووٹ بھی نہیں دیا۔ یہ ٹولہ اقتدار کے پچھلے گیٹ سے اندر آیا اور اس اقتدار کی عمر آئینِ پاکستان نے 90 روز طے کر رکھی ہے۔
آج 90دن گزرے ہوئے بھی زمانے گزر گئے مگر یہ ٹولہ ریاست کے اندر نئی ریاست بنا کر ظلم کی نئی داستانیں ہر روزرقم کر رہا ہے۔ دوسری جانب کے پی میں بھی ایسے ہی جتھے کو سرکاری وسائل کا قبضہ دے دیا گیا۔ جن کے پاس نہ توکوئی مینڈیٹ ہے‘ نہ ووٹ کی حمایت‘ نہ ووٹ کی طاقت اور نہ ہی کوئی ایسا آئینی آرٹیکل پایا جاتا ہے جس کے نیچے انہیں 90روز سے زیادہ اقتدار کے ایوانوں میں بٹھایا جا سکے۔
تازہ گزرے ہوئے 13ماہ کا فلیش بیک ذہن میں لائیں تو سارے سوالوں کے جواب خود بخود سامنے دیوار پر لکھے ہوئے نظر آئیں گے۔ اسی دیوار کے سائے میں کہیں کُوزہ رکھا ہے جسے عوامی زبان میں لوٹا کہتے ہیں اور کہیں بوتل سجائی گئی ہے۔ جس کے اندر 75سال سے ایک ہی زہریلا مشروب پڑا ہے۔ بوتل اور کُوزے پر کبھی 1952ء ماڈل‘ کبھی 1958ء ماڈل‘ کبھی 1970ء ماڈل‘ کبھی1977ء ماڈل‘ کبھی 1999ء ماڈل اور کبھی 2022ء ماڈل لکھ کر لوگوں کو بے وقوف بنانے کا نوٹنکی رچائی جاتی ہے۔
آئیے اِن پرانے کُوزوں اور ان سڑی ہوئی بوتلوں میں ذرا جھانک کر اندر دیکھ لیں۔
پہلا کوزہ: یہ سال 1952ء تھا۔ پاکستان کی عمر مشکل سے 5سال تھی۔ پہلی بار مولانا مودودی صاحب اور مولانا عبدالستار نیازی صاحب کے خلاف ملٹری کورٹ میں ٹرائل شروع کر دیا گیا۔ مؤثر حقِ دفاع سے محروم ملزموں کو ملک میں شر پسندی کا ذمہ دار قرار دے کر موت کی سزا سنا دی گئی۔ جس کے بعد سال 1954ء‘ 1958ء‘ 1967ء‘ 1970ء اور 1975ء میں وقتاً فوقتاً پنڈی سازش کیس‘ اگرتلہ سازش کیس‘ اٹک سازش کیس چلائے گئے۔ جن کے ملزموں میں شہرۂ آفاق انقلابی شاعر فیض احمد فیض بھی شامل تھے۔ فیض مرحوم کا ٹرائل کرنے والے کون تھے‘ آج انہیں کوئی نہیں جانتا لیکن فیض آج بھی چوتھی نسل کے ٹویٹر اکائونٹ‘ فیس بک‘ انسٹا گرام‘ جلسوں اور ریلیوں کو گرماتے ہوئے گلی گلی میں پائے جاتے ہیں۔قدرت کے اس انتقام کو میاں محمد بخشؒ نے یوں بیان کیا:
مارن والے موئے محمد‘ قدرت رَب دی ہوئی
دوسرا کُوزہ: قائداعظمؒ کی بخشی ہوئی آزاد سرزمین پر قائداعظم کی ہمشیرہ محترمہ ڈاکٹر فاطمہ جناح صاحبہ نے جوں ہی اس کُوزے کو توڑنا چاہا‘ ان پر بغاوت اور شر پسندی کا کیس بن گیا۔ آج عمران خان اسی راہِ حق کے راہی ہیں جسے سٹیٹس کو کے گماشتے راہِ بغاوت کہتے ہیں۔
بدھ کی شام (ن) لیگ کے ایک مرکزی رہنما نے ٹی وی پروگرام پر قوم کے سامنے کہا کہ زمان پارک میں عمران خان کے گھر سے دہشت گرد ''برآمد ہو چکے ہیں‘‘۔ یہ سن کر یوں لگا کہ دہشت گرد کسی سیف ہائوس موجود ہیں‘ ان کے اقبالی بیان کی وڈیوز بن چکی ہیں۔ اب صرف انہیں پریزن وین کے اندر لِٹا کر زمان پارک ہائوس کے دروازے تک لانا ہے۔ جس کے بعد مسعود محمود جیسے یہ سلطانی گواہ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد عمران خان نیازی کے خلاف کسی اندھیرے کمرے کے کنٹرولڈ ماحول میں بیان قلم بند کرائیں گے اور 90روز کے اندر الیکشن کرانے کا مطالبہ کرنے کے جرم میں عمران خان کو سزا سنائی جائی گی۔
اس ٹرائل کورٹ سے نہ کسی جج کا نام سامنے آئے گا۔ نہ کسی وکیلِ صفائی کو ملزم تک رسائی ہوگی اور ایک بار پھر پرانی شراب‘ پرانا کُوزہ نئے رنگ اور نئے لیبل کے ساتھ انصاف ماڈل 2023ء قوم کے سامنے لانے کا پلان پایۂ تکمیل کو پہنچے گا۔
شبِ گزشتہ دعویٰ کیا گیا کہ آٹھ مشکوک لوگ زمان پارک کی طرف سے نہر کراس کرنے کے جرم میں گرفتار کر لیے گئے۔ حکومت نے یہ نہیں کہا کہ یہ مشکوک لوگ وہاں کس نے پہنچائے اور اُن کے وہاں پہنچنے کی خبر حکومت کو کس نے پہنچائی۔ ہر رات زمان پارک پر نئے حملے کی تیاری ہوتی ہے۔ ہر دن عوام کے ریڑھ کی ہڈی میں خوف کی لہر دوڑانے کے لیے مخصوص کیمرے اپنے وطن میں اپنے لوگوں کی بے توقیری کے مناظر دکھاتے ہیں۔