میں مطمئن ہوں‘ پوری طرح سے خوش خیال۔کچھ لوگوں کو پریشانی ہے کہ انڈیا چاند کی تسخیر کر چکا ہے‘ کچھ دوسرے خواتین و حضرات کل سے اس بات پر ہلکان ہوئے جاتے ہیں کہ بھارت نے چاند پر قدم رکھنے کے دو ہفتے کے اندر اندرسورج کو مسخر کرنے کے سفر پر روانگی ڈال دی۔ نہ فکر کر یں اورنہ ہی کسی سے ذکر کریں‘چندا ماموں ہو یا سورج انکل‘ بھارت وہاں زندگی کے آثار اور زندہ رہنے کے گُر سیکھنے کے لیے پہنچا ہے۔ ہم وطنو!میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جو ں ہی بھارت چاند اور سورج سے ڈھونڈ ڈھانڈ کر ثبوت ِ حیات پبلک کرے گا۔ پھر اُس کا باپ بھی ہمیں نہیں روک سکتا۔ نوٹ کر لیں‘ چاند پر بھی اور سورج پر بھی پہلی ہائوسنگ سوسائٹی ہماری بنے گی۔اور یہ بھی یاد رکھیں کہ حضرتِ علامہ اقبال نے جو یہ کہا تھا؎
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
اُن کا یہ پیغام ہر گز ہمارے لیے نہیں تھا۔ تُرک اور پرشین سکالر حضرت علامہ کو پیار اور عقیدت سے اقبالِ لاہوری کے لقب سے یاد کرتے ہیں جبکہ حضرتِ اقبال بڑے نباض فلسفی تھے۔ اس لیے وہ ہماری صلاحیتوں سے پوری طرح آگاہ تھے۔ غلام برّصغیرِ ایشیا میں اُن کا مخاطب ہندوستان تھا۔ہمارے حصے میں اُن کے پیغام کا جو ٹکڑا آیا وہ یہ ہے۔
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
آپ سوائے سوشل میڈیا کے‘سرکاری ذرائع ابلاغ‘ درباری مائوتھ پیس جو ہولناک بے روزگاری میں بھی بر سرِروزگار ہیں‘ کے فرمودات اُٹھا کر دیکھ لیں‘ جن کے ذریعے 24 کروڑ 10 لاکھ لوگوں کے عشق کے امتحانی پرچے ہر طرف سے لیک ہو رہے ہیں۔راج دربار میں اس لیکیج پر انعام و اکرام مقرر ہے۔لیک شدہ خدمات کے عوض مراعات ہیں‘ ٹوکریاں ہیں‘ ٹوکرے ہیں۔ بلا ٹیسٹ‘ انٹرویو‘ فیئر کمپیٹیشن اور مقابلے کے امتحان سے سو فیصد استثنا والی نوکریاں ہیں۔ لفافے لفافیاں اور عمرے‘ زیارتاںTopping on the cake سمجھ لیں۔ جہاں کوئی آسامی وہاں ایسے گو سوامی۔ آئیے گوسوامی سیریز کے ایڈوانس لیک شدہ پرچوں پہ نظر دوڑائیں۔
گو سوامی سیریز کا پہلا لیک شدہ امتحانی پرچہ: اس پر چے کا مضمون ضیائی ہے۔ جس کے نتیجے میں ریفرنڈم والی سچی روایت سامنے آئی۔یہ ہے مذہبی کارڈ کے بے دریغ استعمال کی روایت۔ جس کے ذریعے لوگوں کی توجہ بجلی‘ گیس‘ دال‘ روٹی‘ ڈیزل‘ پٹرول کے نام پر لگائے گئے بے رحمانہ زخموں کا علاج ڈھونڈا جاتا ہے۔ اس پرچے کے سوال گلگت سے گلگشت تک‘ کرّم سے کراچی تک پوری فنکاری سے بکھیرے جا رہے ہیں۔
گو سوامی سیریز کا دوسرا لیک شدہ امتحانی پرچہ: یہ پرچہ تقریباًگیارہ ؍بارہ سو سال پرانے مضمون کے لیے ترتیب دیا گیا ہے۔ جس کے لیے خاص منشی‘ مشّدی ڈھونڈے گئے۔ مضمون یہ ہے کہ ظلم کربلا سے بھی بڑھ جائے‘ خواہ وہ معاشی ہو‘ طبقاتی ہو‘ سیاسی ہو‘ذاتی دشمنی پر مبنی ہو یا احساسِ محرومی و شکت کی ندامت پہ۔ احتجاج مسئلے کا حل ہر گز نہیں ہے۔ جن لوگوں نے1973ء کا آئین تشکیل کیا یا اُس کی تشکیل ِنو کی‘ وہ بے چارے اس علم سے محروم رہے اور خواہ مخواہ اُن سے اجتہادی غلطیاں ہوتی چلی گئیں۔ اس سلسلے کی پہلی اجتہادی غلطی آئین سازوں کو ووٹ دے کر اسمبلی میں بھجوانے والے عوام نے کی۔ جنہوں نے مذہبی کارڈ کھیل کر سیاست پر قبضہ کرنے کے خواہش مندوں کو حسرت ناک شکست سے دوچار کیا۔ دوسری غلطی 1973ء کے آئین کا متفقہ دیباچہ لکھنے والوں سے ہوئی۔ جس میں Court Justice, Fundamental Rights, Human Rights, Social Justiceاور ساتھ ساتھ Political Justice دینے کا معاہدہ ریاست اور شہریوں کے درمیان آئین میں شامل کر دیا۔ تیسری شدید اجتہادی غلطی تب ہوئی جب 18ویں آئینی ترمیم پاس کی گئی۔ جس کے ذریعے سے سیاسی انصاف کے لیے ادارہ جاتی ترامیم کر کے لوگوں کو کھل کے بات کرنے‘ آزادانہ جلسے‘ریلیاں اور اجتماع منعقد کرنے اور اپنی بات ایوانوں تک پہنچانے جیسے بنیادی حقوق مستحکم کئے گئے۔ ریاستِ پاکستان کے عوام کو ریاستِ پاکستان نے اگلی اجتہادی خطا کے ذریعے 1973ء کے آئین کے دیباچے میں عوام کو Ultimate Sovereign یعنی اپنے امور میں خود آخری فیصلہ ساز بنا ڈالا۔
لطف کی بات ہے یا دربار کے لطف و کرم کا نتیجہ کہ آج ہزارروپے کی بجلی کے عوض20ہزار روپے کا بِل وصول کرنے والے اس ظلم پر اپنے وسائل سے سڑکوں پر کیوں نکل رہے ہیں۔یہ درباری راگ الاپنے والوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو راج دربار کا وظیفہ خوار نہیں۔
وظیفہ خوار سے اسداللہ خاں یاد آتے ہیں جنہوں نے کھلی آنکھوں سے غاصب ظالموں کے ہاتھوں دلّی کو لٹتے دیکھا۔لوگ اُن کو اردو کے معرکہ آراشاعر کی حیثیت سے پہچانتے ہیں۔ اُس میدان میں اُن کا نہ کوئی ثانی تھا‘ نہ ہے اور نہ ہوگا۔ اسد اللہ خاں غالب ایک نہیں بلکہ دو درباروں کے وظیفہ خوار تھے۔ ایک تو سب جانتے ہیں کہ وہ ہندوستا ن کے آخری مغل تاجدار‘بہادر شاہ ظفر کے اتالیق رہے۔ اس حیثیت میں اُنہیں شاہی دربار میں کرسی اور وظیفہ ملتا تھا۔ دوسری جانب ایسٹ انڈیا کمپنی‘ جسے گورے اپنے غلاموں سے کمپنی بہادر کہلواتے تھے‘ وہاں سے بھی اسد اللہ خاں غالب کو وظیفہ ملتارہا۔ اگلی بات بڑی ظاہر و باہر ہے لیکن آج کے راج دربار کے غلام نہ اُسے جاننا چاہتے ہیں نہ بیان کرنے کی سکت رکھتے ہیں۔ غالب تاریخ کے وقائع نگار بھی مانے جاتے ہیں۔ غالب شاعر تھے‘ مرنجاں مرنج شخصیت بھی مگر وہ بلا کے بہادر نکلے۔ دلّی کے اجڑنے پر انہوں نے دو کتابیں تحریر کر دکھائیں‘ جو اُس دور کے بڑے بڑے سورما کہلانے والے بھی نہ کر سکے۔ غالب کی ان تاریخی کتابوں کے نام ہیں دستنبو(جو پہلی بار 1858ء میں شائع ہوئی )اور مہرِنیم رُوز۔
ان دنوں دربار کی دُھن پر بجنے والا وہی بینڈ ہے جو 'مجھے کیوں نکالا‘ اور 'ووٹ کو عزت دو‘ نامی نغمے الاپنے والوں کی مدح سرائی کرتا رہا۔ اُس وقت آلِ شریف آدھی سڑکوں پر تھی اور آدھی پنجاب کے تخت پر۔ سرکاری گاڑیوں اور سرکاری وسائل کی طاقت پر یہ مہم دریائے سواں سے شروع ہوئی اور دریائے راوی پہنچ کر غرق ہوگئی۔ ان کے نزدیک پاکستان تحریک انصاف یا بجلی کے مارے ہوئے لوگوں کا سڑک پرنکلنا عین عذاب اور حرام ہے‘ مگر راج دربار کے راگی جہاں مرضی نکلیں‘ جو مرضی کہیں‘ وہ سب حلال ہے۔ جس کی تازہ ترین مثال چار ہفتے پہلے اس سرزمینِ بے آئین کے دستور روڈ پر افغانی جھنڈوں کے ساتھ نکلوائے جانے والے فرمائشی جلوس میں دیکھی گئی۔گوسوامی سیریز کے ٹیسٹ پیپرز میں تین اشارے اور بھی ہیں۔پہلا اشارہ اُس کے بارے میں جس نے پاکستان میں بھارتی دہشت گردی پھیلائی‘وہ ابھی نندن ہے۔ جس نے بجلی کی مہنگائی آسمان تک پہنچائی وہ ابھی لندن ہے اورتیسرا اشارہ اُس کے بارے میں ہے جس نے Covid-19میں بجلی کے بل سرکار کی جیب سے ادا کئے وہ ابھی اندر ہے۔
معیشت پامال ہے‘معاشرہ زیر ِ وبال ہے‘ غریب کنگال ہے‘ ملک پر حکمرانی کرنے والے جن کے پاس مال ہی مال ہے۔ وہ حکمرانی ختم ہوتے ہی اپنے آبائی وطن انگلستان لوٹ گئے۔
وہی خدا ہے‘ وہی ناخدا کہاں جائیں
سفینہ ڈوب رہا ہے‘ بتا کہاں جائیں
شریکِ حال ہیں اندیشہ ہائے مستقبل
ہے ابتدا میں غمِ انتہا‘ کہاں جائیں