نواز شریف اور مریم نواز 12اکتوبر کو یومِ سیاہ منانا بھول گئے! آپ نے غور کیا؟ اس سال 12اکتوبر کا دن خاموشی زدہ سادگی سے گزر گیا۔ 23سال میں پہلی مرتبہ مسلم لیگ (ن) نے 12اکتوبر یومِ سیاہ کے طور پر نہیں منایا اور نہ ہی کسی بھی شہر میں کسی تقریب کا اہتمام کیا۔ ایسا ہر گز پہلی بار نہیں ہوا‘ (ن) لیگ جب بھی ڈیل سے دور ہوتی ہے تو ووٹ کو عزت بھی دیتی ہے اور متقدرہ مخالف ہیرو والا ماسک بھی پہن لیتی ہے۔ تاریخ میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ آئیے بڑی مثالیں دیکھ لیتے ہیں۔
پہلی مثال‘(ن) لیگ ڈیل سے پہلے: نواز شریف مختلف ٹی وی چینلز کو انٹرویو دیتے نظر آئے۔ بیانیہ یہ تھا کہ یہ پچھلے 75سال سے ہمیں چلنے نہیں دے رہے۔ ان سے حساب لینا ہوگا۔ ان کو کٹہرے میں لانا ہوگا۔ مشرقی پاکستان سے لے کر سیاچن تک سب کچھ کھول کے رکھ دیں گے۔ (ن) لیگ کے سابق سپیکر قومی اسمبلی اپوزیشن رہنما کی حیثیت سے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہیں۔ فرمایا ''پاؤں کانپ رہے تھے۔ سانس پھولی ہوئی تھی۔ پسینے چھوٹ رہے تھے‘‘۔ (ن) لیگ کا وزیر سابق دفاع کھڑا ہوتا ہے اور کہتا ہے ''انہوں نے ہڈیاں تک چوس لی ہیں۔ کب تک ہم بکر ی بنے رہیں گے‘‘۔ پھر قوم کو اٹھ کھڑے ہونے کا مشورہ دیا اور ساتھ ہی خود بھی بیٹھ گئے۔ مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزر کہتی ہیں کہ بے لاگ احتساب کریں گے۔ کوئی شخص‘ کوئی ادارہ قانون سے بالاتر نہیں۔ جب تک احتساب نہیں ہوگا میں ان کا پیچھا نہیں چھوڑوں گی۔ پھر ڈیل مل گئی۔ نواز شریف کو پچاس روپے کے سٹام پیپر پر ملی چار ہفتے کی ضمانت برائے علاج‘ چار سال کی ضمانت بِلا علاج میں بدل گئی۔ جبکہ چھوٹا بھائی وزیراعظم بن گیا۔ پارٹی کو پھر سے اقتدار مل گیا۔ اس دوران لیول پلینگ فیلڈ بھی تیار ہونے لگا۔ عمران خان سلاخوں کے پیچھے چلے گئے۔ پی ٹی آئی نہ جلسہ‘ نہ ریلی‘ نہ جلوس‘ نہ مظاہرہ کر سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی‘ مولانا صاحب‘ اے این پی‘ ایم کیو ایم‘ بلوچستان عوامی پارٹی سمیت باقی سب جلسے کریں‘ جلسیاں کریں ۔ سب کے لیے جلسے اور جلسیاں کھلی چھٹی سمیت حاضر ہیں۔
پیا ہوئے کوتوال‘ پھر ڈر کاہے کا؟
دوسری مثال‘(ن) لیگ ڈیل کے بعد: وہ نواز شریف جنہوں نے قمر جاوید باجوہ اور فیض حمید کا نام لے کر کہا کہ میں ان کا احتساب کرنے لندن سے جلدی واپس آرہا ہوں۔ ایسا احتساب ہوگا جس کو پاکستان کے لوگ یاد رکھیں گے۔ شہباز شریف اور مریم نواز فوراً لندن پہنچے اور پچھلی پرچی نواز شریف کے ہاتھ سے واپس لے لی۔ چنانچہ نواز شریف نے صرف دو دن بعد ہی ان دونوں کا پکڑایا ہوا نیا پرچہ پڑھنا شروع کر دیا۔ تبدیل شدہ منترا اب یوں ہے‘ میں واپس آؤں گا تو خوشحالی آئے گی‘ میں واپس آؤں گا تو مہنگائی ختم ہوگی۔
لوگ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ نواز شریف کی 40سالہ خوشحالی کابڑا راز اسحاق ڈار ہیں۔ ایک اور صاحب بھی تھے ان دنوں وہ گلیوں گلیوں خاک اُڑاتے پھرتے ہیں۔ یہ کوئی اندرون لاہور کی گلیاں نہیں بلکہ مانامہ بر وزنِ پانامہ قطر شریف کی گلیاں ہیں۔ جہاں آئے روز ریت کے بڑے طوفان (Sand Storm) آتے ہیں۔ جن میں نہ کچھ دکھائی دیتا ہے‘ نہ سجھائی دیتا ہے۔ جوں ہی چھٹی‘ ساتویں ڈیل ملی نواز شریف نے پاکستانیوں کی غربت دور کرنے کے لیے جہاز چارٹر کر لیا۔ قوم کو اس مہنگائی سے نجات دلانے کے لیے واپسی کا سفر باندھا جو ان کے بھائی نے 'بقلم خود‘ پھیلائی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں راون اور رام کے کریکٹر ایک ہی چھت کے نیچے پائے جاتے ہیں۔
بات ہورہی تھی 12اکتوبر کی‘ جس دن (ن)لیگ 1999ء والے انقلابِ مشرف کا یومِ سیاہ منانا بھول گئی۔ ایسا کیا ہوا کہ اب کے سال پونم میں‘ جب وہ آرہے ہیں ملنے‘ تو ان سمیت شہباز شریف وغیرہ وغیرہ یعنی کسی بھی رہنما کا ایک مذمتی بیان تک سامنے نہیں آیا۔ اس حوالے سے مریم نواز صاحبہ کا 24/7احتجاجی ٹویٹر بھی سقوطِ مرگ کی طرح مکمل خاموش رہا۔ گوناگوں مصروفیات کی وجہ سے انہیں شاید یاد ہی نہیں رہا کہ 12اکتوبر 1999ء کو پرویز مشرف نے ان کے والد نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے برطرف کیا تھا۔ کسی اور کو یاد رہے یا نہ رہے‘ جنرل ضیا الدین بٹ‘ جن کو نواز شریف نے چند گھنٹے کے لیے آرمی چیف لگایا تھا‘ وہ 12اکتوبر 1999ء کو کیسے بھولے ہوں گے۔ پرویز مشرف نے نواز حکومت کے خاتمے کے بعد ملک میں پہلے ایمرجنسی لگائی اور پھر اسے ایمرجنسی پلس کا نام دے دیا۔ ان دونوں حوالوں سے بھی نواز شریف‘ ان کے خاندان اور تمام حواریوں‘ جو وقت بے وقت ٹویٹس داغنے کے لیے مشہور ہیں‘ سب پر خاموشی طاری ہو گئی۔
نواز شریف کا استقبال تین سطح پر ہو رہا ہے۔ ایک ایسا ملک کہ جہاں مرغی چور کو تو ضمانت نہیں مل سکتی لیکن بغیر بائیو میٹرک‘ سزا یافتہ مجرم کو عدالت میں سرنڈر کرنے سے پہلے ہی چھ منٹ میں ریلیف مل سکتا ہے‘ عدالتی مفروری کے بعد بھی۔ نواز شریف کا دوسرا استقبالِ انتظامیہ ہے۔ ہمارے ایک پنڈی وال دوست‘ جو کبھی عمران خان کے بھی دوست تھے‘ مگر اب شدید ناقد ہیں‘ انہوں نے استقبالِ انتظامیہ کی تفصیل کا سمندر کوزے میں بند کر دیا۔ ایک ٹی وی ٹاک شو میں کہنے لگے کہ نواز شریف ڈیل ڈَن پر واپس نہیں آرہے۔ اس دفعہ وہ پکّا بندو بست کرکے آرہے ہیں۔ نواز شریف کا تیسرا استقبال ورودِ سرکاریہ ہے۔ جس کے لیے مبینہ طور پر بلوچستان کی انتظامیہ نے بھی دو ویگن فی ایم پی اے کا حکم جاری کیا ہے۔ جس کی بابت ایک سابق ایم پی اے صاحب کا وڈیو لیک سب کے سامنے ہے۔ پشتو زبان کا یہ ایک جملہ قابلِ توجہ ہے۔ ''کاکڑا فکر ماہ کاوا‘‘ ساتھ کہا بس ہم اسے پکنک بنا لیں گے‘ کھانا پینا ہوگا۔ لاہور کا سیر ہو گا‘ مینارِ پاکستان دیکھے گا۔ وہ بولتا ہے باقی کام لائٹ والا کر دے گا۔
استقبال سے جو بائیڈن یاد آتا ہے جس نے تل ابیب میں نیتن یاہو سے جپھیوں کے بعد ویسٹ بینک میں فلسطینی صدر محمود عباس سے ملنے جانا تھا۔ پھر امریکہ نے چار ملکی کانفرنس اُردن میں رکھی۔ جہاں مصر کے صدر‘ فلسطین کے صدر اور اُردن کے شاہ عبداللہ نے بائیڈن کا استقبال کرنا تھا۔ یہ بظاہر امریکہ کے مقابلے میں چھوٹے چھوٹے عرب ملکوں کے بڑے بڑے جگرے والے رہنما ہیں جنہوں نے کھل کر کہہ دیا کہ جس کے لیے دل میں عزت نہ ہو اس کے استقبال سے کیا نتیجہ نکلے گا؟ نہ امن‘ نہ سلامتی۔ خوشحالی تو خواب ہے۔ احمد فراز کہتے ہیں:
جہاں چیونٹیاں ہوئیں خیمہ زن‘ یہاں جگنوؤں کے مکان تھے
جہاں روشنی ہے کھنڈر کھنڈر‘ یہاں قمقموں سے جوان تھے