اس وقت میرے سامنے ریڈنگ ٹیبل پر فاضل پشاور ہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ کا ایک عبوری حکم ہے‘ جس کے الفاظ یہ ہیں:
The worthy Advocate General, Khyber Pakhtunkhwa shall come up with clear instructions from the interim setup about the present state of affairs, wherein, there is perception that a single political party has been targeted and they are not allowed to hold public meetings and to start election campaign.
اس عدالتی حکم کے ذریعے ایڈوکیٹ جنرل صوبۂ خیبر پختونخوا کو ہدایت جاری کی گئی ہے کہ وہ عبوری سیٹ اَپ/ نگران صوبائی حکومت سے موجودہ زمینی‘ معروضی صورتحال پر واضح ہدایات لے کر آئیں کیونکہ حالیہ سٹیٹ آف افیئرز سے یہ تاثر ابھر کر سامنے آیا ہے کہ ایک سنگل سیاسی پارٹی سے وابستہ لوگوں کو پبلک میٹنگ/ جلسے منعقد کرنے اور آنے والے انتخابات کی انتخابی مہم کی شروعات کی بھی اجازت نہیں دی جا رہی۔ آنریبل پشاور ہائی کورٹ کے جس ڈویژن بنچ نے آنے والے جنرل الیکشن کے ماحول اور اس کی شفافیت کے حوالے سے یہ مختصر مگر سرجیکل آبزرویشنز دی ہیں‘ وہ صورتحال دو حوالوں سے جانچنا ضروری ہے۔
آئندہ الیکشن کی شفافیت کا پہلا حوالہ: الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ویب سائٹ پر موجود الیکشن ایکٹ 2017ء کے نیچے رجسٹرڈ شدہ سیاسی جماعتوں کی تعداد 175ہے۔ یہ فہرست عام آدمی تحریکِ پاکستان سے شروع ہو کر پاک ڈیفنس قومی موومنٹ پہ ختم ہوتی ہے۔ فہرست کی آخری لائن میں بغیر سیریل نمبر لکھے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کا نام بھی لکھا ہوا ہے۔ قانونی طور پر رجسٹرڈ شدہ ان سیاسی جماعتوں میں سے تین درجن کے قریب پارٹیاں الیکشن میں عملی حصہ لیتی ہیں۔ جن میں سے پہلے نمبر پر پاکستان تحریکِ انصاف ہے۔ دوسرے نمبر پر پی ڈی ایم میں شامل 14سیاسی پارٹیاں آتی ہیں۔ یہ سیاسی پارٹیاں رجیم چینج کے بعد‘ 20ماہ سے مسلسل اقتدار میں بیٹھی ہیں۔ پہلے کلی طور پر اقتدار ان کے حوالے تھا‘ اب ان پارٹیوں کے نامزد کردہ خاص بندے‘ جزوی طور پر پانچ عدد عبوری حکومتوں کے سیٹ اَپ میں شامل ہیں۔ لطیفہ یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی پارٹیاں یہ فرض کر بیٹھی ہیں کہ لوگ ان کو حکمران بھی مان لیں گے اور حکمرانوں کی اپوزیشن بھی‘ اسی لیے وہ ایک دوسرے کو بلی چوہے کے کھیل کا کھلاڑی کہہ رہی ہیں۔ پی ڈی ایم کا خیال ہے کہ یہ مشرف کے دور جیسا ہی دور ہے‘ جس میں مولانا صاحب حکومت میں بھی بیٹھے ہوئے تھے‘ کشمیر کمیٹی کی چیئر مینی بھی ان کے پاس تھی اور اپوزیشن لیڈر کی جھنڈے والی گاڑی بھی ان ہی کے انڈر تھی۔
ان سب پارٹیوں کوحسبِ توفیق اور حسبِ طاقت اسلام آباد سمیت ملک کے چاروں وفاقی یونٹوں میں جلسے‘ ریلیاں‘ کارنر میٹنگ اور پارٹی کنونشن کرنے کی کھلی اجازت ہے‘ جن کی رپورٹنگ قومی اور علاقائی اخبار اور ٹی وی چینلز کرتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر مذہب کے نام پر انتخابی سیاست کرنے والی رجسٹرڈ شدہ پارٹیاں ہیں‘ ان کو بھی ہر طرح کی انتخابی مہم چلانے کی اجازت ہے۔ ان کے بعد علاقائی/ لسانی گروہوں کی نمائندگی کرنے والی سیاسی جماعتوں کا نمبر آتا ہے۔ ساتھ ہی ملک کی اقلیتی برادری کی رجسٹرڈ سیاسی جماعتیں آتی ہیں۔
اس وقت اوپر درج ہر کیٹیگری کی سیاسی پارٹی اور اس کے ہر امیدوار کو انتخابی مہم چلانے‘ اجتماع منعقد کرنے‘ اپنا ایجنڈہ اور منشور عوام تک پہنچانے کی اجازت ہے‘ ماسوائے پاکستان تحریک انصاف کے۔ اس کیساتھ ساتھ 9اپریل 2022ء سے لے کر آج 24نومبر 2023ء تک ہر شہر‘ ہر صوبے بلکہ ہر انتخابی حلقے میں سے پاکستان تحریکِ انصاف کے 50ہزار سے زیادہ لوگوں کو مختلف مقدمات میں ملوث یا گرفتار کیا جا چکا ہے۔ اس پر نظامِ عدل و انصاف اور قومی انتخابات کے ریگولیٹر کی خاموشی 25کروڑ لوگوں کے لیے اب راز کی بات نہیں رہی۔ اس کھلے تضاد کو الیکشن کی شفافیت کوئی اندھا بھی نہیں کہہ سکے گا۔
آئندہ الیکشن کی شفافیت کا دوسرا حوالہ: یہ حوالہ بعض اداروں کی جانبداری پہ اٹھنے والے کھلے سوالات کا ہے۔ اس حقیقت سے کون آنکھیں چُرا سکتا ہے کہ چاروں صوبوں‘ گلگت بلتستان‘ وفاقی دارالحکومت سمیت ہر یونٹ کے پولیس افسران کے نشانے پر پی ٹی آئی کی لیڈر شپ‘ پی ٹی آئی کے حامی‘ پی ٹی آئی کی یوتھ اور پی ٹی آئی کی خواتین ہیں۔ صرف اسلام آباد میں رجیم چینج کے بعد سے اب تک 2826کارکنوں کی ضمانت بعد از گرفتاری یا پھر ضمانت قبل از گرفتاری کے کیسوں میں‘ میں اور میرے ساتھ لیگل ٹیم پیش ہوئی۔ لاتعداد دوسرے وکلا بھی جرمِ بے گناہی میں ملوث بے شمار ضمیر کے قیدیوں کے لیے پیش ہوتے رہے۔ ایک ایک رات میں‘ ایک ایک شہر میں آٹھ آٹھ ماہ پرانی FIRنکال کر اس میں چار‘ پانچ سو پی ٹی آئی ورکرز‘ سوشل میڈیا ایکٹوسٹ اور عمران خان کے ہمدرد‘ پولیس ضمنی اور تتیمہ بیان کے ذریعے ملزم بنائے جا رہے ہیں۔ ان سب کے خلاف سرے سے اور کوئی گواہ ہے ہی نہیں‘ صرف پولیس کے حاضر سروس ملازم گواہ ہیں‘ جنہیں عدالتی زبان میں Stock Witnessکہہ کر مسترد کیا جاتا ہے۔
اسسٹنٹ کمشنر‘ ڈپٹی کمشنر‘ تحصیلدار اور نائب تحصیلدار‘ سب کی ایسی وڈیوز سوشل میڈیا پر دیکھی جا سکتی ہیں جن میں وہ پی ٹی آئی کے لیڈروں کے ڈیرے‘ گھر اور دکانیں بلڈوزروں سے گراتے ہوئے اور انکے گھر سیل کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ یہ بھی ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ عمران خان کی گرفتاری اسلام آباد ہائیکورٹ کمپلیکس کے اس کمرے سے ہوئی جس میں وہ بائیو میٹرک کیلئے انگوٹھا لگانے آئے تھے۔ دوسری جانب میاں نواز شریف کیلئے بائیو میٹرک خود چل کر ایئر پورٹ کے اندر چلی گئی۔ ایسے واقعات نے عمران خان کی حمایت میں اضافہ کیا ہے کیونکہ اس طرح کی کھلی ناانصافیوں سے عمران خان کا دو نہیں‘ ایک پاکستان والا بیانیہ پھر سچا ثابت ہوگیا۔ان حالات میں آئندہ الیکشن کی شفافیت والا نعرہ کون مانے گا؟ جمعرات کے دن الیکشن کمیشن نے لیول پلیئنگ فیلڈ پر مبنی ایک اور فیصلہ صادرکیا۔ پاکستان تحریکِ انصاف آئینی طور پر رجسٹرڈ پولیٹکل پارٹی ہے۔ اس لیے پی ٹی آئی سے پچھلے الیکشن والا انتخابی نشان بلا قانونی طور نہیں چھینا جا سکتا‘ چنانچہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ایک بینچ نے نیا کام کر دکھایا۔ 175میں سے ایک پی ٹی آئی کو سنگل آئوٹ کرکے کہا کہ اپنا انٹرا پارٹی الیکشن پھر کراؤ۔ ایسا کوئی اختیار الیکشن ایکٹ 2017ء کے باب 11میں درج سیکشن 208میں کمیشن کے پاس نہیں ہے۔ پانچ اگست 2023ء کی ایک ترمیم کے ذریعے الیکشن کمیشن کو صرف یہ اختیار حاصل ہے کہ اگر کوئی پارٹی آئین کے تحت پانچ سال کے اندر الیکشن نہ کرائے تو اسے دو لاکھ روپے جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔ پی ٹی آئی نے نہ صرف بروقت الیکشن کروائے بلکہ الیکشن کی ساری تفصیل اور متعلقہ دستاویزات بھی طے شدہ وقت میں الیکشن کمیشن کے پاس جمع کروا دیے۔
پچھلے 75سال میں الیکشن کمیشن نے کبھی کسی سیاسی پارٹی کے انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار نہیں دیا۔ عمران خان کے گارڈ‘ مالی‘ خاکروب‘ باورچی تک کے انٹر ویو کرکے بھی لاڈلے کو کچھ حاصل نہیں ہوا‘ بس اب ایک شیرو بچتا ہے‘ جس کی گواہی کے لیے چوہا اور بلی بے چین ہیں۔