غریب سرزمین پر عجیب نظام چلایا جا رہا ہے۔ ہر دوسرے دن عالمی کشکول کے ذریعے قرض مانگ کر عیاشی کرنے والے ہاتھی خودمختاری کے نعرے لگاتے ہیں بلکہ خودی اور خودداری کے ترانے گاتے ہیں‘ پُرجوش اور پُرزور آواز میں۔ سڑک پر نکل کر کوئی عام آدمی ایک احتجاجی آواز نکالے تو اُس کو پانچ سال کے لیے زندان میں بھجواتے ہیں۔ 76 سالہ بے اندازہ طاقت اور لاتعداد ملکوں میں چھپائی ہوئی بے شمار دولت کے نشے میں ڈوبے ہوئے باقی سب کچھ بیچ بیٹھے۔ پیچھے رہ جانے والے چند قومی ادارے لوٹ سیل میں بیچنے کے لیے میراتھان بھاگتے نظر آتے ہیں۔ ایسے میں جو آوازیں بولنے کی گستاخی کریں تو 25 کروڑ چڑیوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ چہچہانا چھوڑ دیں۔ جور و ستم کے اس ماحول نے لمبے عرصے بعد مزاحمتی ادب کو پھر سے جنم دینا شروع کر رکھا ہے۔ ایسی ہی ایک آزاد چڑیا مشتاق سبقت کے نام سے یوں چہچہاتے چہچہاتے اُڑ گئی۔ (مشتاق سبقت سرائیکی‘ پنجابی اور اُردو زبان کے مشہور شاعر تھے‘ جن کا تعلق کوٹ ادّو کے نواح میں واقع ایک گاؤں کھجی والا سے تھا۔ مشتاق سبقت 26 مارچ 2024ء کے روز اللہ کو پیارے ہو گئے) مشتاق سبقت مرحوم نے حال ہی میں انقلابی لہجے میں زمینی حقائق کا یوں پوسٹ مارٹم کیا تھا:
جب اہلِ خرد کی باتوں پر کچھ جاہل شور مچاتے ہوں ؍ جب بلبل ہو تصویرِ چمن اور کوّے گیت سناتے ہوں
جب چڑیوں کے ان گھونسلوں میں کچھ سانپ اُتارے جاتے ہوں
جب مالی اپنے گلشن میں خود ہاتھ سے آگ لگاتے ہوں
اس حال میں ہم دیوانوں سے‘ تم کہتے ہو خاموش رہو
پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں جج‘ جرنیل کے لیے احتساب کا کوئی نظام موجود نہیں۔ نہ کسی کی نوکری کے دوران‘ نہ کسی کی ریٹائرمنٹ کے بعد۔ ماسوائے ایک سابق نیول ایڈمرل اور ایک تازہ سابق ہونے والے سپریم کورٹ کے گجرانوالیے جج کے۔ جن دونوں کا گناہ علیحدہ علیحدہ ہے۔ مگر دونوں کا جرم ایک جیسا تھا کہ انہوں نے چہچہانے کی کوشش کی تھی۔ اس لیے اگر آپ پورے احتسابی نظام کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو آپ کو تین رُخی طبقاتی تقسیم کا احتساب نظر آتا ہے۔
احتسابی سیلاب کا پہلا طبقہ: یہ ہیں چھوٹے ملازمین جیسے کانسٹیبل‘ حوالدار‘ پٹواری‘ گرداور‘ کلرک اور ہیڈ کلرک۔ بڑے افسران میں جو جتنا بڑا کرپٹ‘ اُس پہ اتنی ہی بڑی نوازشات کی بارش برستی ہے۔ نوکری کے دوران وہ اپنے باس کے لیے کرپشن کرتے ہیں۔ تھوڑے دن کے لیے نمائشی طور پر پکڑے جاتے ہیں۔ پھر حکمران کو جب اگلا اقتدار ملتا ہے تو وہ وزیر‘ مشیر‘ سینیٹر بن کر کابینہ میں آ جاتا ہے۔ سروس آف پاکستان کے یہ ''رول ماڈل‘‘ لیاقت علی خان کے قتل کے فوراً بعد اقتدار میں آ گئے تھے۔ ابھی تک اقتدار پر ان کا قبضہ مسلسل چل رہا ہے۔ یہ ملک کو روندنے والے وائٹ کالر ہاتھی ہیں۔ ایسے سفید ہاتھی جن کے لیے کالے داغ بہت اچھے ہوتے ہیں۔ کہنے کا مطلب ہے بہت منافع بخش اور سدا بہار۔
احتسابی سیلاب کا دوسرا طبقہ: یہ ریٹائرڈ ججز کا طبقہ ہے۔ جو نوکری سے فارغ ہو کر پنشن‘ مراعات‘ گاڑیاں اور سٹاف لے کر‘ بلکہ مفت ٹیلی فون‘ پٹرول اور بجلی بھی لے کر جاتے ہیں۔ یہ سارے بخت خان اس قدر بخت آور ہیں کہ ملک کی صدارت‘ صوبے کی وزارت اعلیٰ‘ کیئر ٹیکر پرائم منسٹر شپ‘ گورنریاں‘ مختلف اداروں کی سربراہی‘ ہر طرح کے کمیشن کی سربراہی‘ الیکشن کمیشن میں دوسری تنخواہ‘ دوسری پنشن‘ بڑے بڑے اداروں کی آربیٹیشن وغیرہ وغیرہ کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ قسمت کے یہ ایسے دھنی ہیں کہ ان کی ریٹائرمنٹ کے انتظار میں عہدے اور مراعات داسیاں بن کر ایسے کھڑی ہوتی ہیں‘ جیسے زبانِ حال سے کہہ رہی ہوں: گھر آیا میرا پردیسی پیاس بجھی میری اَکھین کی۔
احتسابی سیلاب کا تیسرا طبقہ: یہ سہولت کار سیاستدان ہیں۔ اگر کبھی کوئی تفتیش ہو‘ جو کبھی نہ کبھی تو ان شاء اللہ ہونی ہی ہے۔ ان کی ایک خوبی جو ابھی تک سربستہ راز ہے وہ ہم سب کو حیران کر دے گی۔ ان کی اصل ڈیوٹی ہر طرح کی منی لانڈرنگ کے لیے سرکاری ذریعے‘ وسائل اور راستے کھولنا ہے۔ آپ دنیا کے جس بڑے دارالحکومت میں جائیں آپ کو ان سہولت کار سیاست کاروں اور ان کے سہولت کاروں کے بچے‘ سالے سالیاں‘ داماد‘ سمدھی کی تین چار نسلیں مہنگی گاڑیوں میں مہنگے شاپنگ مالز کے دروازوں پر ملیں گے۔
ابھی ایک روز پہلے احتسابی سیلاب کے دوسرے طبقے کا تازہ سیزن سامنے آیا۔ جب اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ فاضل جج صاحبان‘ جو پہلے اچھے پروفیشنل وکیل تھے‘ کا تہلکہ خیز خط پبلک ہوا۔ اس خط کے حوالے سے ملک کی تمام بار ایسوسی ایشنز اور بعض سیاسی جماعتوں نے جوڈیشل معتبر تحقیقات کا مطالبہ کیا‘ جس کے جواب میں 17 سیٹوں کے ساتھ 336 کی اسمبلی میں حکمرانی کرنے والوں نے ریٹائرڈ چیف جسٹس آف پاکستان تصدق حسین جیلانی کے ماتحت تحقیقاتی کمیشن قائم کر ڈالا۔ اس کمیشن کے سربراہ میرے بہت اچھے ملنے والے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اُن کی سیاسی وابستگی اور سیاسی ہم آہنگی کے ثبوت کے طور پر ناقابلِ تردید حقائق یوں ہیں۔ جسٹس تصدق جیلانی صاحب ملتان کے گیلانی خاندان میں فرسٹ بلڈ رشتہ داریاں رکھتے ہیں اور اُن کے انتہائی قریبی عزیز PDM کے تسلسل والی شہبازی اور اعزازی‘ دونوں حکومتوں میں سرکردہ عہدے پر رہے۔ دوسری بات کم کم لوگوں کے علم میں ہے۔ جیلانی صاحب جب 2009ء میں سپریم کورٹ میں تھے تو اُنہوں نے نواز شریف کی نااہلی ختم کرنے والے بینچ کی سرابراہی کی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ طیارہ سازش کیس میں بھی نواز شریف نے سزا ختم کروانے کے لیے آٹھ سال کے عرصے کے بعد جو اپیل دائر کی تھی‘ اُس بینچ کی سربراہی‘ جس نے یہ سزا ختم کر ڈالی‘ تصدق جیلانی ہی کر رہے تھے۔ اسی کیس میں نواز شریف کی نااہلی ختم ہوئی۔
ذرا آگے چلتے ہیں‘ سال 2011ء میں نواز شریف کے خلاف کرپشن کے ذریعے پلاٹوں کی بندر بانٹ کے کیس میں بڑی عدالت سے ریلیف نواز شریف کے حصے میں آیا۔ جسٹس تصدق جیلانی اُس بینچ کا بھی حصہ تھے۔ تیسرا ثبوت یہ کہ سال 2014ء آلِ شریف کو اقتدار ملا تو بعد از ریٹائرمنٹ بھی نوازشات کا سلسلہ چلتا رہا جس کی انتہا اکتوبر 2017ء میں تب ہوئی جب (ن) لیگی حکومت نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کیس میں تصدق جیلانی کو عالمی عدالتِ انصاف میں ایڈہاک جج مقرر کیا تھا۔
ایک وکیل کی حیثیت سے میرے لیے یہ بات ہضم کرنا مشکل ہے کہ وفاق کی ہائیکورٹ کے چھ جج صاحبان ایک ریٹائرڈ سابق جج کے سامنے کٹہرے میں کھڑے ہو جائیں۔ سلیوٹ مار کا کہنا ہے کہ ججز خط کمیشن کا سربراہ انتہائی غیر جانبدار اور سب کے لیے قابلِ قبول ہے۔ چند سفید ہاتھی جو بھی چاہیں مگر 25 کروڑ چڑیاں آزادی سے یوں چہچہاتی رہیں گی۔
ہے کام جس کا وہی کرے گا‘ یہ طے ہوا تھا
کہو گے جو تم وہ ہم کریں گے‘ یہ طے نہیں تھا
جہاں پہ تم ہو مکیں وہیں پر سب سہولتیں ہیں
سدا ہی محروم ہم رہیں گے‘ یہ طے نہیں تھا
گو چور ڈاکو سدا معزز رہے ہیں‘ لیکن
وطن میں حاکم بھی یہ بنیں گے‘ یہ طے نہیں تھا