بدھ کا دن‘ ہزارہ میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے آگو جرنیل‘ ہری سنگھ نلوہ کی یادگاری بستی ہری پور میں گزرا۔ جہاں عمر ایوب خان کے ڈیرے پہ بلا کسی سرچ وارنٹ کے پولیس کریک ڈائون‘ توڑ پھوڑ اور ڈاکا زنی کی FIR کٹانے کے مقدمہ میں پیش ہونا تھا۔ کیس کی حتمی سماعت جسٹس آف پیس سیشن جج ہری پور کی عدالت میں ہوئی۔ ہری پور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کے آفس میں اپنے دوست جاوید تنولی‘ جو تیسری مرتبہ پشاور ہائیکورٹ ایبٹ بنچ بار ایسوسی ایشن کے صدر ہیں‘ سے تفصیلی گپ شپ ہوئی۔ چار عشرے پہلے میں نے جاوید تنولی کی معاونت سے ہری پور میں اپنا پہلا کیس لڑا تھا۔ گردشِ ایام کو پیچھے کی طرف دوڑانے والی گفتگو ختم ہوئی تو پتا چلا لاہور میں ایک انتخابی عذر داری کا مقدمہ ہائیکورٹ کے ٹریبونل میں جمعرات کے لیے فکس ہوا ہے۔ آج ہم سب کھلی آنکھوں سے جاری المیہ دیکھ رہے ہیں کہ پوری ریاست کی ساری طاقتیں پی ٹی آئی اور اُس کے مقیّد پابند سلاسل بانی عمران خان سے مقابلے میں مصروف ہیں۔ اس المیے کی اگلی منزل ملک کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب ہے‘ جس کی قومی اسمبلی کی نشستیں وزیراعظم کے انتخاب کے نمبرز پورے کر دیتی ہیں۔ کیونکہ قومی اسمبلی میں پنجاب کی جنرل الیکشن کے ذریعے‘ قومی اسمبلی کی سیٹس 143ہوتی ہیں اور خواتین اور اقلیتوں کی خصوصی نشستیں ملا کر پنجاب کا سکور 173 بنتا ہے۔ جبکہ قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت سے وزیراعظم کے انتخاب کے لیے 169 نشستوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وزیراعظم بنانے کے بعد بھی اکیلے پنجاب کی 4 نشستیں قومی اسمبلی میں اضافی ہوتی ہیں۔ پنجاب کے المیے کی ایک بغلی گلی میں نظر دوڑائیں تو الیکشن کمیشن کی ضد بازی اور فارم 47 والوں کے حق میں پارٹی بازی کا کھلا تضاد نظر اتا ہے ۔ جس کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کے نئے چیف جسٹس ملک شہزاد احمد خان کے احکامات الیکشن کمیشن صاحب بہادر نے ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے پنجاب بھر سے جنرل نشستوں کی الیکشن پٹیشنز کی سماعت کے لیے اپنے ہائیکورٹ سے سات نئے ججوں کے نام الیکشن کمیشن کو بھجوائے تھے۔ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے مطابق: پرنسپل سیٹ پر جسٹس شاہد کریم‘ جسٹس چودھری محمد اقبال اور جسٹس انوار حسین اپیلیں سنیں گے۔ بہاولپور بینچ میں جسٹس عاصم حفیظ‘ ملتان بینچ میں جسٹس راحیل کامران اور راولپنڈی میں جسٹس مرزا وقاص رئوف انتخابی عذرداریوں کی سماعت کریں گے۔ اس سے پہلے الیکشن کمیشن نے پنجاب کی ایک سو سے زائد الیکشن پٹیشنز سننے کے لیے صرف دو ہائیکورٹ ججز‘ جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس سلطان تنویر کا نوٹیفکیشن کیا تھا۔ اس بے رحمانہ ناانصافی اور آزاد عدلیہ کی تذلیل کرنے پر 8 فروری کا الیکشن جیتنے والے امیدوار خاصے مشتعل ہیں۔
اِس پس منظر میں ہری پور ہی سے تختِ لاہور کا رختِ سفر باندھنے کے سوا چارہ نہ تھا۔ لاہور روانگی کے ساتھ ہی میں نے سپریم کورٹ آف پاکستان کی فاضل لیڈی جج‘ جسٹس عائشہ ملک اور مسٹر جسٹس شاہد وحید صاحب کے اختلافی نوٹ پڑھنا شروع کیے‘ جو سپریم کورٹ کے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس میں لکھے گئے۔ آئیے اِس اہم قانون سازی پر سپریم کورٹ سے تازہ ترین نکلنے والے اہم اختلافی نوٹ کی جھلکیاں دیکھیں۔
جسٹس عائشہ ملک کا اختلافی نوٹ: جسٹس عائشہ ملک نے 98 سال پہلے کے ایک شاندار جملے سے اختلافی نوٹ کا آغاز کیا۔ جسٹس عائشہ ملک لکھتی ہیں کہ Roscoe Pound نے کہا تھا: اگر ہم چاہتے ہیں عدلیہ کچھ کرے‘ تو اِسے کرنے کی آزادی بھی دینا ہو گی۔ یہ بات یاد رہے کہ Roscoe Pound کے مطابق عدلیہ کے کام میں قانون سازی کر کے بھی رکاوٹ پید ا نہیں کی جا سکتی۔ یہ ایک مدّلل اختلافی نوٹ ہے‘ جس میں ناتھن روسکوئے پائونڈ (27 اکتوبر 1870ء تا 28 جون 1964ء) کا حوالہ دیا گیا جو امریکہ کے لیگل سکالر اور ایجوکیٹر کی گہری گفتگوئوں میں سے ایک کا حوالہ ہے۔ ناتھن روسکوئے قانون کے پروفیسر بھی رہے۔ یونیورسٹی آف نیبراسکا‘ کالج آف لاء کے ڈین کے صدرِ شعبہ کی حیثیت سے 1903ء سے 1911ء تک خدمات سر انجام دیں۔ ہارورڈ لاء سکول میں 1916ء سے 1936ء تک‘ طویل عرصے تک ڈین کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ یونیورسٹی آف شکاگو لاء سکول اور UCLA سکول آف لاء کی فیکلٹی سے وابستگی 1949ء سے 1952ء تک رہی۔ جرنل آف لیگل سٹڈی کی تحقیق کے مطابق: مسٹر ناتھن دنیا بھر میں بیسوی صدی کے سب سے بڑے ایسے لیگل سکالر ہیں جن کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے لفظوں کا قیمہ کیے بغیر کہا: پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون سپریم کورٹ کے آئینی اختیار کو ختم نہیں کر سکتا۔
جناب جسٹس شاہد وحید کا اختلافی نوٹ: جناب جسٹس شاہد وحید نے لاہور ہائیکورٹ میں صدیق بلوچ بنام عمران خان نیازی کے کیس میں ٹیرین کے حوالے سے بڑی لینڈ مارک ججمنٹ دی۔ تازہ اختلافی نوٹ میں جسٹس شاہد وحید صاحب کے دلائل بھرپور اور ناقابلِ تردید ہیں۔ مثلاً سادہ قانون سازی سے عدالت کو کوئی ''نیا دائرہ کار‘‘ تفویض نہیں کیا جا سکتا۔ عدالتی دائرہ اختیار میں تبدیلی صرف آئینی ترمیم ہی سے ممکن ہے۔ بڑی باریک بینی سے جسٹس شاہد وحید صاحب نے پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون میں موجود خامیوں کو آڑے ہاتھوں لیا اور تین رُکنی ججز کمیٹی کے ذریعے بنائے گئے رولز کو تسلیم کرنے سے انکارکیا۔ جسٹس شاہد وحید صاحب کے اُٹھائے ہوئے سوال لاجواب ہیں۔
پہلا: اگر ججز کمیٹی کا کوئی رُکن غیر حاضر ہو تب اُس کی جگہ کون لے گا؟
دوسرا: اگر کمیٹی کے دو اراکین چیف جسٹس کو صوبائی رجسٹری بھیجنے کا فیصلہ کریں تو نتیجہ کیا ہو گا؟
تیسرا: اس قانون کا سیکشن 3 سماعت اور آئینی تشریح کی اجازت دیتا ہے‘ جبکہ سیکشن 4 اِس پہ پابندی لگاتا ہے۔
چوتھا: جسٹس شاہد وحید صاحب کا چوتھا سوال سب سے بڑا ہے۔ اگر ہر کیس پر پانچ رُکنی بینچ بننے لگ گئے تو سالوں سے زیر التوا پچاس ہزار مقدمات کے فیصلے کیسے ہوں گے؟ ساتھ کہا: اِس نکتے سے واضح ہوا پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون‘ انصاف کی فراہمی میں کتنی بڑی رکاوٹ بنے گا۔
اس قانون اور پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متصادم رولز‘ دونوں ہی آئین اور عدلیہ کی خودمختاری سے بھی متصادم ہیں۔ جسٹس عائشہ ملک صاحبہ نے ناتھن روسکوئے پائونڈ کا حوالہ دیا تو دو لائنیں لاہور پہنچتے پہنچتے موزوں ہو گئیں‘ جو بطور اینٹرو اور Extro پیشِ خدمت ہیں۔
اگرمرضی تمہاری ہے ہمیں آزاد رکھنے کی‘ ہمیں آزاد رہنے دو!
رعایا ہے بڑی ناشاد اُس کو شاد رہنے دو‘ ہمیں آزاد رہنے دو!