درجن بھر کمیٹیاں بن چکی ہیں‘ آپ ہزار بنا لیں۔ ایک عدد ذلت رنگ الزامِ عدت کے دو عدد کیس بنا ڈالے گئے۔ گھڑ‘ گھڑ کر 200 سے زیادہ FIR's اور ریفرنس درج کرا لیے۔ قیدی نمبر804 کو سرکاری ٹی وی زبردستی دکھانے کے ساتھ ساتھ ڈیتھ سیل میں تنہا رکھنے کی سزائیں چل رہی ہیں۔ اُن کی بیگم کو جیل میں مردانگی دکھانے والوں نے دھکے بھی مار ڈالے۔ انتہائی درجے کی قیدِ تنہائی وہ بھی جھلسا اور جلا دینے والی گرمی میں۔ 24/7 کی مسلسل الیکٹرانک‘ پَرسانل‘ وڈیو کے ذریعے مانیٹرنگ اور نگرانی۔ اس نیت سے کہ شاید اُس کا کوئی کمزور لمحہ کیمرے کی آنکھ کو مل جائے‘ میڈیا ٹرائل کے لیے۔ کیسی اذیت پسند ذہنیت ہے۔
ایک سال سے نہ ختم ہونے والی ایک کے بعد دوسری پھر تیسری‘ پانچویں‘ بیسویں تفتیش مسلسل۔ صبح ومساء کبھی نہ رُکنے والی عدالتی کارروائی۔ جھوٹے مقدمے‘ فرضی گواہیاں‘ بے بنیاد تہمتیں اور اُن کو بنیاد بنا کر کئی بار سنائی گئی قیدِ مسلسل کی سزائیں۔ قیدی نمبر 804 کی ذات‘ والدین‘ خاندان پر گھٹیا اور بیہودہ ذاتی حملے‘ کردار کشی کی پیڈ کانٹینٹ والی ایک کے بعد دوسری مہنگی مہم۔ ان حالات میں میرے اور آپ جیسا گوشت پوست کا ایک انسان سُپر سٹیل ارادے اور پورے عزم کے ساتھ مسلسل کھڑا ہے۔ نہ جھک رہا ہے‘ نہ ملک سے بھاگ رہا ہے‘ نہ بیماری کا بہانہ بنا رہا ہے۔ نہ بِک سکتا ہے‘ نہ خوفزدہ ہوتا ہے۔ نہ ڈیل کرتا ہے نہ ڈھیل مانگتا ہے۔ اسے کہتے ہیں تاریخ تبدیل کر دینا یا تاریخ کا دھارا پلٹ کر دکھا دینا۔ اس تاریخ ساز فیکٹر کو رائے عامہ بدلنا یا بیانیے کی کامیابی کہیں گے تو ایسے میں عمران خان کے عزمِ مسلسل کا صحیح اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ یہ اندازہ میں نے قیدی عمران خان سے مسلسل ملاقاتوں میں خوب لگایا۔
پچھلے ہفتے کی ملاقات کے دوران میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرنے کے لیے عمران خان کھڑے ہوئے‘ مجھے بھی کہا: بابر! میرے ساتھ آ جائیں۔
عمران خان جس کٹہرے میں عدالتی کارروائی کے دوران موجود ہوتے ہیں‘ میڈیا کے نمائندوں اور اُن کے درمیان تقریباً 18 سے 20 فٹ کا فاصلہ بنایا گیا ہے۔ عمران خان 14X12 انچ کے خانے سے منہ نکال کر اگلے خانے اور اُس سے اگلے خانے کے بعد رپورٹرز کھڑے ہوتے ہیں۔ جن میں کارِ خاص والے مشقتی ہرکارے بھی کاغذ پنسل پکڑ ے پائے جاتے ہیں۔
عمران خان کے ساتھ جُڑ کر دوسرے خانے سے میں بھی جا کھڑا ہوا۔ عمران خان نے اپنے مقدمات کے بارے میں بات کرتے ہوئے انتہائی اہم خبر یہ سنائی‘ چونکہ سارا نظام اُن کے خلاف کرپشن یا بدانتظامی کا کوئی بھی ثبوت نہیں ڈھونڈھ سکا اس لیے اب اُنہیں لاہور شفٹ کرکے اُن کا ملٹری عدالت میں ٹرائل کیا جائے گا۔ یہ سُن کر رپورٹرز ہکّاا بکّا رہ گئے۔ اُنہوں نے ثبوت کے طور پر کہا: میں اڈیالہ جیل کی کال کوٹھڑی میں بند تھا‘ لاہور ATC کے ایک نئے لگائے گئے جج نے میری غیر حاضری لگا کر چار مقدمات میں میری ضمانتیں منسوخ کر دیں۔ ٹاسک ملا ہے کہ وہ کوئی کینگرو کورٹ والا فیصلہ جاری کرے تاکہ اس فیصلے کو بنیاد بنا کر PDM کابینہ PTI کے خلاف کارروائی کر سکے۔ یہ سُن کر اس پر رپورٹرز کے قلم لکھتے لکھتے دوڑنے لگے۔
عمران خان نے پرانا مؤقف دہراتے ہوئے 9 مئی کے مقدمات کی جوڈیشل انکوائری کے لیے سپریم کورٹ کا کمیشن بنانے والا مطالبہ بھی دہرایا۔ ساتھ دلیل دی کہ جب مجھ پر وزیر آباد میں قاتلانہ حملہ ہوا تو اُس کے بعد بھی میں نے زخمی حالت میں ہسپتال سے عوام کو مخاطب کیا اور پُرامن انداز میں احتجاج کرنے کی ہدایت دی حالانکہ میں نے جو ملزم نامزد کیے تھے اُن کے خلاف FIR تک نہ ہوئی۔ اس پر ایک رپورٹر نے پوچھا: کیا آپ 9 مئی کے روز احتجاج کی ہدایت کرنے کا اعتراف کرتے ہیں؟ جو آزاد رپورٹر حضرات وہاں موجود تھے اُن میں سے کسی ایک نے بھی اس سوال کی تصدیق میں نہ کوئی لفظ کہا اور نہ ہی اس سوال کو دُہرایا۔ عمران خان نے مجھے کہا: آپ اس کو 9 مئی والی وضاحت کر دیں۔ جس پہ میں نے کہا: عمران خان 9 مئی کے روزصبح سویرے اسلام آباد ہائیکورٹ کے بائیو میٹرک روم میں پہنچے۔ اُنہیں پتا نہیں تھا کہ اُن کے اغواکار گھات لگا کر کہیں پاس ہی بیٹھے ہیں۔ پھر کیمروں کے سامنے اُنہیں نقاب پوش افراد گلے سے پکڑ کر اُٹھا لے گئے۔ آپ کہہ رہے ہیں گرفتاری کے بعد گرفتار کرنے والوں نے عمران خان کو ٹیلی فون اور ٹیلی ویژن دیے ہوئے تھے اور وہ اپنی گرفتاری کے مناظر دیکھ دیکھ کر لوگوں کو کہہ رہے تھے باہر نکلو۔
ساتھ میں نے یاد دلایا کہ 9 مئی کی گرفتاری کے بعد 10 مئی کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے عمران خان کو عدالت میں ذاتی طور پر پیش کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔10مئی کے بنچ کے پاس سماعت شروع ہوئی تو عدالت نے عمران خان سے پوچھا: آپ 9 مئی کے واقعات کے بار ے میں کیا کہنا چاہتے ہیں۔ اس موقع پرعمران خان نے جو جواب دیا‘ وہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے فیصلے کا حصہ ہے۔
10 مئی کو عمران خان کا سپریم کورٹ کے بنچ نمبر وَن میں بیان یہ تھا ''کل کیا ہوا‘ مجھے کچھ پتا نہیں۔ گرفتار کرنے کے بعد مجھے نہ میڈیا کی سہولت حاصل تھی‘ نہ کسی کو مجھے ملنے دیا گیا۔ میں تو کسٹڈی میں تھا مجھے بتایا جائے میرے اغوا کے علاوہ 9 مئی کو اور کیا ہوا ہے‘‘۔ یاد رہے عمران خان کو بھاری پہرے میں عام راستے کے بجائے دوسرے دروازے سے سپریم کورٹ میں لایا گیا تھا۔ یہ ہے عمران خان کے اعتراف کی چشم دید رپورٹ۔ بندگانِ شکم نے وہ وہ کہانیاں گھڑ لیں کہ خدا کی پناہ۔
اور کچھ دیر بھٹک لے مرے‘ درماندہ ندیم
اور کچھ دن ابھی زہر آب کے ساغر بھی لے
نُور افشاں چلی آتی ہے عروسِ فردا
حال تاریک و سم افشاں سہی‘ لیکن جی لے
اعتراف ہوتا کیا ہے‘ آئیے ذرا امریکہ چل کر دیکھیں۔ جہاں US سیکرٹ سروس کی چیف Kimberly Cheatle کو کانگریس کمیٹی نے دو الزامات کا دفاع کرنے کے لیے بلایا۔
پہلا الزام: سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملہ کیوں ہوا؟ اور دوسرا تھا: سکیورٹی فیل ہونے کی ذمہ داری کا الزام۔ سکیورٹی چیف نے کچھ سوال گول مول کیے؛ چنانچہ کانگریس کمیٹی نے متفقہ طور پر سکیورٹی چیف سے اپنی ناکامی کا اعتراف کر کے فوری مستعفی ہونے پر دبائو ڈالا۔ اس چیف کے پاس سوائے استعفیٰ کے کوئی آپشن نہ رہا۔ (جاری)