سرحدی جھڑپیں تو معمول کی بات رہی ہیں۔ آزادیٔ کشمیر کی پہلی جنگ 1947ء سے شروع کر کے رَن آف کَچھ‘ 1965ء کا معرکہ‘ 1971ء‘ پھر کارگل اور سیاچن گلیشیر کی جھڑپیں بھی شامل کریں تو انڈیا اور پاکستان کے مابین ہونے والی چھوٹی بڑی جنگیں آدھ درجن سے بھی زیادہ بنتی ہیں۔ یہ طے ہے کہ جنگ برتری کے ثبوت کی خاطر لڑی جاتی ہے۔ یا پھر دشمن کی سرزمین کے کسی حصے کی جبری علیحدگی اور غاصبانہ قبضے کے لیے بھی۔ بھارت مشرقی پاکستان علیحدہ کرانے میں کامیاب ہوا‘ جس کے بعد سے اس کا لب و لہجہ علاقائی عالمی طاقت (Regional Superpower) والا بنتا چلا گیا۔ وطنِ عزیز میں المیے یوں ہوئے کہ ہمارے مقتدر لوگوں نے تاریخ سے سبق حاصل نہ کرنے کا پکا فیصلہ کر لیا۔ اسی کے نتیجے میں بھارت سے 92 ہزار جنگی قیدی چھڑانے والا ذوالفقار علی بھٹو تختۂ دار پر کھینچا گیا۔ پھر طاقتور بالادست ہوتے چلے گئے اور پاکستان کے عوام ریاستی جبروت کے نیچے زیر دست ہو کر رہ گئے۔ ایسے میں ہر ریاست کے اندر آئین جو بیلنس آف پاور پیدا کرتا ہے‘ ہم نے اس کا حلیہ بگاڑ دیا۔ رہی سہی کسر جو کسی ملک کو بھیڑ بکریوں اور قوم میں امتیاز سکھاتی ہے‘ اس کا پورے اہتمام سے خاتمہ ہو گیا۔
ظاہر ہے قدرت کے قانون کسی قوم کو معاف نہیں کرتے‘ جیسا کرو گے ویسا بھرنا پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بڑا المیہ دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم اور طبقاتی تفریق کی انتہا نے برپا کیا۔ چنانچہ اس تقسیم و تفریق نے ہمارے سوشل فیبرک کی دھجیاں بکھیر کر حشر نشر کر دیا۔ طاقتوروں کی سوچ ہمیشہ فاتح اور مفتوح کے رشتے تک محدود ہوتی چلی گئی۔ ہم یہ بھول ہی گئے کہ کبھی کوئی مفتوح کسی فاتح سے محبت نہیں کرتا۔ جبر سے جھکائے ہوئے آدمی کو اطاعت کرنے والا نہیں سمجھا جا سکتا۔ اسے جب بھی سر اٹھانے کی طاقت ملی تو جابروں کے سامنے سر اٹھانے والی قوم تاریخ میں سرخرو رہی۔ پچھے تین سالوں میں پاکستان کو نئے تجربات کی جدید لیبارٹری بنایا گیا۔ اختلافی آوازیں بند کروانے کا تجربہ‘ زبردستی پریس کانفرنسیں کروانے کا تجربہ‘ بندے غائب کرنے کا تجربہ‘ لوگوں کے گھروں پر چھاپے مارنے کا تجربہ‘ انٹرنیٹ بند کرنے کا تجربہ‘ سنسر شپ کا تجربہ‘ نظامِ عدل کے ساتھ کھلواڑ کا تجربہ‘ ہارے ہوئے لشکر کو فاتحِ عالم اور ظلِ الٰہی ثابت کرنے کا تجربہ‘ اپنے کسانوں سے صحت مند گندم سستی خرید کر مہنگی ایکسپورٹ کرنے کا تجربہ۔ چند مہینے بعد گندی گندم مہنگی امپورٹ کرکے قوم کو اناج کے بجائے کیڑوں سے بھرپور احتیاج کا تجربہ۔ ان تجربات نے گاؤں کے چوپال سے کالج یونیورسٹی کے ہال تک مایوسی کی نت نئی لہریں پیدا کیں۔ ہمارے مقابلے میں بھارت کو صرف ایک کام میں برتری حاصل رہی۔ وہ ہے 1952ء کے آئین کے تحت ہونے والے ریگولر انتخابات۔
شاید کچھ قارئینِ وکالت نامہ کے لیے یہ بات نئی ہو کہ فیلڈ مارشل بھارت میں بھی ہو گزرے ہیں۔ مانک شا نے ایک انٹرویو میں مارشل لاء سے متعلق دلچسپ اور زبردست تاریخی واقعہ بیان کیا جو میں آپ سے شیئر کرتا ہوں۔ بھارت کے کچھ فوجیوں نے مشرقی پاکستان میں سرنڈر کے بعد فیلڈ مارشل بنائے جانے والے مانک شا کے خلاف لابنگ کی۔ اس لابی نے اُس وقت کی بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کوکچھ وزرا کے ذریعے سے کہلوایا کہ فیلڈ مارشل مانک شا بھارت میں مارشل لاء لگانے کے ارادے رکھتا ہے‘ آپ اس کے خلاف فوراً کچھ کریں۔ ظاہر ہے کہ اندرا گاندھی پریشان بھی ہوئیں اور گھبرائی بھی۔ چنانچہ اندرا گاندھی نے فیلڈ مارشل مانک شا کو راج بھون میں چائے پر مدعو کر لیا۔ فیلڈ مارشل مانک شا اور وزیراعظم اندرا گاندھی کی ملاقات خاصی ٹینشن کے ماحول میں شروع ہوئی۔ اندرا گاندھی نے مانک شا سے پوچھا: فیلڈ مارشل صاحب آپ کے کیا ارادے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد میں آپ کو لندن یا امریکہ میں بھارت کا سفیر مقررکرنا چاہتی ہوں‘ اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ مانک شا نے جواب دیا: میں ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے چھوٹے سے گھر کے لان میں پھول اُگانا چاہتا ہوں جن کے درمیان میں بیٹھ کر ریٹائرمنٹ انجوائے کیا کروں گا۔ مانک شا کے ٹھنڈے جواب سن کر آخر کار اندرا گاندھی کو اصل موضوع پر بولنا پڑ گیا۔ دونوں کے درمیان اگلا ڈائیلاگ انتہائی زور دار تھا۔ اندرا گاندھی نے پوچھا: فیلڈ مارشل صاحب سنا ہے کہ آپ میری حکومت ڈِس مس کر کے بھارت میں مارشل لاء لگانا چاہ رہے ہیں؟ اس زور دار حملے کے جواب میں مانک شا نے ملاقات میں پہلی بار چائے کی پیالی اُٹھائی‘ لمبا گھونٹ بھرا اور کہا: پرائم منسٹر گاندھی! میں نے سنا ہے کہ آپ مجھے وقت سے پہلے مداخلت کر کے فوج سے ریٹائر کرنا چاہتی ہیں۔ یہ تگڑاجواب سن کر بھارت کی وزیراعظم حیران رہ گئیں لیکن فیلڈ مارشل رکا نہیں۔ کہنے لگا: آپ تسلی رکھیں‘ میں آپ کی حکومت کے معاملات میں کبھی دخل نہیں دوں گا۔ بس آپ میری فوج کے معاملات میں دخل دینا چھوڑ دیں۔
بھارت اس وقت جس یُدھ یاترا کے رَتھ پر سوار ہے‘ اس کی وجوہات پہ ہمیں ضرور غور کرنا چاہیے۔ جہاں وطنِ عزیز کے دفاع کی بات آتی ہے وہاں خاص لوگوں سے زیادہ عام لوگ ہمیشہ جذبۂ قربانی سے سرشاری کے ثبوت دیتے آئے ہیں۔ دیوار پر لکھے شواہد اور معروضی اور زمینی حالات سے لگتا ہے کہ بھارت کے حربی منصوبے جُزوقتی نہیں ہیں۔ پہلگام کے فالس فلیگ کے بعد بھارت نے پوری پلاننگ سے اندرونِ ملک سیاسی قیادت کو آگے رکھا اور انڈین آرمی کو بڑھاوا دیا۔ آج کا پاکستان ڈھاکہ جیسا کیک پیس نہیں ہے نہ ہی حالات ویسے ہیں لیکن اس منظر نامے میں دو چیزوں کی کمی ظاہر و باہر ہے۔ پہلے ایک ایسی سیاسی لیڈر شپ کی کمی ہے جو قوم کو یکجا کر سکے۔ آج ہمارے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ملٹری کورٹ ٹرائل کا فیصلہ بھارت سے جنگ کے آغاز والے دن کرنا کیوں ضروری سمجھا گیا؟ دوسرا یہ کہ جس وقت بھارت‘ پنجاب‘ سندھ اور شہرِ اقتدار کے گرد و نواح میں ڈرون کی برسات برسا رہا تھا‘ ایسے میں خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کو اڈیالا پہنچنے سے روکنے کے لیے پنجاب پولیس اور سفید پوش راستہ روک کر کیوں کھڑے ہوئے؟ حکمرانو! ہوش کے ناخن لو۔ آئین کا آرٹیکل 184(1)پڑھ لو۔ قوم کے ایک پیج پر لانے کے لیے حکمرانوں میں کوئی شرم ہوتی ہے‘ تھوڑی سی حیا بھی۔ غور کرنے والی بات ہے بھارت کی شروع کردہ یہ جنگ جائے گی کہاں؟ اس پر قوم کو اعتماد میں لیا جائے۔ 25کروڑ سارے کے سارے محبِ وطن ہیں۔ اس نازک وقت میں پنجاب میں بار بار مسندِ اقتدار پر بٹھایا گیا خاندان خاموش ہے۔ عوامی تاثر یہ ہے کہ اس خاموشی کی اوٹ سے مودی دوستی جھلک رہی ہے۔
کونپلیں ریت سے پھوٹیں گی سرِ دشتِ وفا
آبیاری کے لیے خونِ جگر تو لاؤ
شہر کے کوچہ و بازار میں سناٹا ہے
آج کیا سانحہ گزرا ہے خبر تو لاؤ