"SBA" (space) message & send to 7575

خسارہ راج کے مہاراجے

آج کے پاکستان میں سات بنیادی چیزیں عوام کیلئے انتہائی مہنگی ہیں۔ یہ مہنگائی اب جان لیوا ہو چکی ہے۔ بچے پالنے کی سکت نہ رکھنے والے اَن گنت باپ اور مائیں خود کو مار چکے ہیں۔ مہنگائی کے مارے ہوئے لوگوں کی دوسری کیٹیگری وہ ہے جو اپنے ہاتھوں سے پالے ہوئے جگر گوشوں کو موت کی وادی میں بھیج کر خودکشی کر چکے ہیں۔ لیکن مہنگائی میں اضافہ 24/7 جاری ہے۔ اس مہنگائی کے پسِ پشت فضول خرچی اور بربادی کی وجوہات میرے ایک سابق کیبنٹ کولیگ ممتاز ماہرِ معاشیات ڈاکٹر فرخ سلیم نے بھی بیان کی ہیں۔ جن سات مہنگی ترین اشیا نے غربت کی لکیر سے نیچے بسنے والے پاکستانیوں‘ لوئر مڈل کلاس‘ مڈل کلاس‘ اَپر مڈل کلاس بلکہ کھاتے پیتے گھرانوں کو بھی نہ صرف ہلکان کیا بلکہ ان کے بجٹ کا سوا ستیاناس پھیر دیا ہے‘ اُن میں پہلے نمبر پر کھانے پینے کی اشیا آتی ہیں۔ سبزیاں‘ دالیں‘ گوشت‘ چکن‘ اناج‘ دودھ‘ جن کی قیمتیں روزانہ کی بنیاد پر بڑھ رہی ہیں۔ گورننس یعنی حکمرانی گدھے کے سر سے سینگوں کی طرح غائب ہے جس کے نتیجے میں ہر مارکیٹ‘ ہر چوک اور ہر محلے کے ریٹیلرز کا اپنا اپنا ریٹ ہے۔ دوسرا نمبر بجلی کا ہے‘ تیسرا علاج‘ چوتھا سفر‘ پانچواں گیس‘ چھٹا رہائش اور ساتواں پٹرول؍ ڈیزل۔ اگر آپ کرائے کے ارسطوؤں کو سنیں تو وہ بتاتے ہیں کہ پاکستان اُڑان بھر چکا ہے۔ ترقی کا سفر مکمل ہونے والا ہے اور ترقی کے دشمن اونچی آواز میں بات کرنا چھوڑ دیں‘ ورنہ ریاست ان سے آہنی ہاتھوں سے نپٹے گی۔ آہنی ہاتھوں والی اقتداریہ پنیری بلیک ستمبر سے فلسطین میں شہرت پانے والے ضیا الحق کے گملے میں تیار ہوئی تھی‘ جو آج بھی اسی گملے میں پھل پھول رہی ہے۔ آہنی ہاتھوں سے ایک اور بلیک ستمبر 1977ء یاد آ گیا‘ جب ذوالفقار علی بھٹوکو گرفتار کیا گیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے وکلا نے لاہور ہائیکورٹ میں بھٹو صاحب کی درخواست ضمانت جمع کروائی‘ مگر اس وقت کے ہائیکورٹ کا کوئی بھی جج جنرل ضیا کی ناراضی مول لینے کیلئے تیار نہ تھا۔ اس لیے اس درخواست کو ہر کسی نے سننے سے انکار کیا۔ تب ایک مردِ آزاد جناب جسٹس کے ایم اے صمدانی نے یہ کیس سماعت کیلئے قبول کیا بلکہ 302کے جھوٹے چارج میں ذوالفقار علی بھٹو کی ضمانت منظور کر لی۔ جسٹس صمدانی کی آزاد عدالت جنرل ضیا الحق کو بہت بری لگی کیونکہ انہوں نے آہنی ہاتھوں کا دباؤ قبول کرنے سے انکار کیا اور سابق وزیراعظم کو آزاد کر دیا تھا۔ اس رہائی کے صرف تین دن بعد بھٹو صاحب کو لاڑکانہ سے پھر گرفتار کر لیا گیا تھا۔
قارئینِ وکالت نامہ! عدلیہ کی آزادی کا بین الااقوامی معیار اور معروف پیمانہ ساری دنیا میں ایک ہی ہے۔ وہ یہ کہ جج صاحبان عدلیہ کی آزادی کی تقریریں کرنے کے بجائے آہنی ہاتھوں کا دباؤ مسترد کریں اور اپنے قلم سے آزادانہ انصاف کا بول بالا کریں۔ ذوالفقار علی بھٹو کو ضمانت دیتے وقت جسٹس صمدانی صاحب لاہور ہائیکورٹ کے سینئر ترین جج تھے۔ وہ جلد ہی چیف جسٹس بننے والے تھے۔ بھٹو صاحب کی رہائی کا بدلہ لینے کیلئے ضیا الحق نے ایک بدنامِ زمانہ مارشل لاء آرڈر کے ذریعے جسٹس صمدانی صاحب کو لاہور ہائیکورٹ سے نکال کر وفاقی لاء سیکرٹری بنا دیا۔ ان کی جگہ عدل و انصاف کے نام پر سب سے بڑا کالا داغ لگانے والے مولوی مشتاق کو لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کا قلمدان سونپا گیا۔ جسٹس صمدانی سے انتقام کی آگ میں جلنے والے ڈکٹیٹر نے ان کے لاء سیکرٹری کاچارج سنبھالتے ہی وفاقی سیکرٹریوںکا اجلاس طلب کر لیا۔ جسٹس صمدانی بھی اس اجلاس میں مدعو تھے۔ وقت کے ڈکٹیٹر نے سیکرٹریز کو باری باری دھمکیاں دینا شروع کردیں‘ جو پریشان ہو کر ایک دوسرے کے چہرے دیکھنا شروع ہو گئے۔ اس دوران ضیاء الحق شدید غصے میں لفظ پینٹ اُتارنے تک جا پہنچے۔ باقی سیکرٹری تو چُپ رہے لیکن صمدانی جیسے مردِ مجاہد جسٹس نے ضیا الحق کو براہِ راست مخاطب کرتے ہوئے کہا: آپ نے کتنوں کی اُتاری ہیں۔ اُن کے نام بتائیں‘ ہم خود بخود اپنی اُتار دیں گے۔ پھر شدید ہذیان کی حالت میں جنرل ضیا نے غیظ و غضب میں اجلاس ملتوی کر دیا۔ وفاقی سیکرٹری کیبنٹ روم سے اُٹھ کر جانے لگے مگر اسی دوران ڈکٹیٹر کے پرسنل سٹاف آفیسر میجر جنرل کے ایم آر نے جسٹس صاحب سے معافی مانگنے کا مطالبہ کر دیا۔ جسٹس صاحب نے دانستہ طور پر جواب دیا کہ آپ دوبارہ اجلاس بلائیں میں اپنے لفظوں پر معذرت کر لوں گا۔ پھر سلام دعا کیے بغیر جسٹس صمدانی واپس چل دیے۔ کچھ عرصے بعد جسٹس صمدانی کو اس شرط پر عدلیہ میں واپس بھیجا گیا کہ تم نے پی سی اوکے تحت حلف لینا ہے۔ صمدانی صاحب کو آج بھی عدل و انصاف کی دنیا میں سنہرے لفظوں میں یاد کیا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے مارشلائی پی سی او کے تحت حلف لینے سے دلیرانہ انکار کیا اور نوکری کو لات مارکر گھر واپس آنے کو ترجیح دی۔
اب آئیے آج کے سماج کی طرف! ہمارے موجودہ سروس سٹرکچر میں کوئی ایک بھی صمدانی باقی نہیں رہا۔ جس کے نتیجے میں گورننس ''ہوا‘‘ ہو چکی ہے۔ موجودہ نظام صرف دو ذرائع پر چل رہا ہے۔
حکومتی آمدنی کا پہلا ذریعہ: وہ چند لاکھ شہری ہیں جو ٹیکس نیٹ میں پائے جاتے ہیں۔ ان پر ٹیکسوں کی بھر مار کرکے ریاست کمائی کر رہی ہے۔ معیشت کا پہیہ نہیں چل سکا‘ مگر صرف بے رحمانہ ٹیکس جمع کرنے کا کاروبار چلایا جا رہا ہے۔ سورج اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے‘ اس سے بجلی لوگ مارکیٹ سے پینل خرید کر پیدا کرتے ہیں‘ اس پر بھی تین ٹیکس لگ چکے ہیں۔ ٹیکسوں کی اس بارش نے اچھے خاصے اسلامی جمہوریہ کو ٹیکسوں کے سیلاب کا ٹیکساس بنا چھوڑا ہے۔
حکومتی آمدنی کا دوسرا ذریعہ: وہ لوگ جنہوں نے نجی بجلی گھر لگائے ہیں‘ وہی حکومت میں بیٹھ کر بجلی کی خرید و فروخت کرتے ہیں۔ اس کاروبار میں ملک کو 2.4کھرب روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔ ہماری حکومت گندم کی خرید و فروخت کا کاروبار پاسکو کے ذریعے کرتی ہے جہاں اب تک 900 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ ہمارے حکمران ایئر ٹکٹ بیچنے کا کاروبار بھی کرتے ہیں۔ گزشتہ 25 برسوں میں پی آئی اے کا خسارہ 830 ارب روپے ہے۔ ہماری ریاست لوہے کا کاروبار بھی کرتی ہے۔ پاکستان سٹیل ملز کو اب تک 600 ارب روپے کا نقصان ہوا جبکہ سٹیل مل 2015ء سے بند ہے۔ حکومت قدرتی گیس کا بزنس چلاتی ہے‘ پچھلے دس برسوں میں سوئی نادرن اور سوائی سدرن کو 500 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ حکومت شِپنگ بزنس میں شریک ہے۔ پاکستان نیشنل شِپنگ کارپوریشن کو 25 سال میں 150 ارب کا نقصان ہوا۔ کھاد کے بزنس میں نیشنل فرٹیلائزز کارپوریشن کو 150 ارب روپے کا نقصان پہنچا۔ قرضہ‘ خسارہ اور ہر شعبے میں مندا نوشتۂ دیوار ہے۔ مگر ہمارے مہاراجوں کی کروفر امارات کے امیر اور سعودی شہزادوں سے بڑھ کر ہے۔ یہ 16ویں صدی والے مہاراجے ہیں۔ ان کے خسارہ راج میں سوال اٹھانا قابلِ تعزیر جرم ٹھہرا۔ لیکن سوال تو اُٹھے گا۔ حکمران کے سامنے سوال اُٹھانا خلیفۂ دوئم سیدنا عمرؓ کے زریں دورِ خلافت کی روایت ہے۔ مگر آج کے فیصلہ ساز جوزف گوئبلز کے بھی استاد نکلے۔ باقی چھوڑ کر آپ صرف 1990ء کی قیمتیں واپس لانے کا قصہ ہی یاد کر لیں۔ بے بس آدمی ان کے عروج و زوال کے قصے سننے کے لیے رہ گیا ہے۔
سنا کے اپنے عروج و زوال کے قصے
سبھی نے مجھ سے مرا رنگِ داستاں پوچھا
دکھا کے برف کے موسم مرے بزرگوں نے
مزاج شعلگیِ عصر نوجواں پوچھا

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں