پنجابی زبان کا محاورہ ہے کہ ''دُدھ پِین نُوں بھاگ بھری تے تہونڑ پنان نُوں جمعہ خان‘‘۔ بھارت کے خلاف جو چار روزہ جنگ مئی 2025ء میں ہم نے جیتی‘ اس عرصے میں چین کی بے لاگ امداد‘ چینی ٹیکنالوجی اور کھلی حمایت ہمارے حق میں شامل رہی۔ جنگ ملکوں اور قوموں کے لیے بلا شک و شبہ گردن تڑوانے یا توڑنے والا وقت ہوتا ہے‘ جس کے لیے محاورے کے مطابق جمعہ خان کی امداد کی ضرورت ضرور پڑتی ہے۔ چین نے ثابت کیا کہ وہ سٹرٹیجک لحاظ سے پاکستان کا انتہائی قابلِ بھروسہ دوست ہے۔ جس غلطی کی نشاندہی کرنی ہے اس سے پہلے معاملے کے ایک اور اہم ترین پہلو کی طرف توجہ دلانا اشد ضروری ہے۔ وہ یہ کہ اقتدار پر قابض اشرافیہ نے پاک بھارت جنگ کے بعد امریکہ کے آگے جس طرح سے بلا سبب ہر معاملے میں ''یس سر‘‘ والی پالیسی اپنائی ہے‘ کیا اس سے چین جیسی عالمی باخبر طاقت بے خبر ہے؟ ایک طرف پاکستان ایئر فورس کے شہبازوں نے چینی ٹیکنالوجی کی مدد سے انڈین ایئر فورس کو دھول چٹائی۔ دوسری جانب ہماری حکومت نے راتوں رات ڈونلڈ ٹرمپ صاحب بہادر کو امن کے نوبیل پرائز کے لیے نامزد کر ڈالا۔ میں اس حوالے سے اپنی پوزیشن ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں۔ جب تک صدر ٹرمپ غزہ کے محصور اور مظلوم شہریوں پر اسرائیل کی ننگی جارحیت کے حامی ہیں‘ انہیں اقوامِ متحدہ کی طرف سے ڈی مارش ملنا چاہیے۔ وہ کسی امن کے پیامبر ہر گز‘ ہرگز نہیں کہلا سکتے۔ ریاست کی حیثیت سے ہماری تاریخ دو لغزشوں کی گواہ ہے۔
پہلی لغزش‘ ہم تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتے: پچھلے 78برسوں میں جس طور سے پاکستان کے نظام‘ اہم ترین شعبوں اور عوامی مفادات کو تاراج کیا گیا‘ اس کی وجہ سے تاریخ ہمارے لیے جگت بازی سے آگے کچھ نہیں۔ تاریخ کا یہ بھی ناقابلِ تردید سبق ہے کہ وہ سبق نہ سیکھنے والوں کو کبھی معاف نہیں کرتی۔ ہم نے ہمیشہ عالمی اہمیت رکھنے والی علاقائی طاقتوں کو نظر انداز کرکے سات سمندر پار گوروں کی غلامی کا طوق پہننے کو بڑا اعزاز سمجھا۔ اس آپشنل غلامی کی کہانی لیاقت علی خان کی سوچی سمجھی شہادت کے بعد پشاور کی بڈھ بیر ایئر بیس سے شروع ہوتی ہے۔ اس زمانے میں چین کے اندر امریکہ کے جاسوسی طیاروں کی پروازوں کا بڑا چرچا ہوا۔ تب درۂ واخان کے ذریعے روس افغانستان‘ چین‘ ایران اور بھارت کے بعد ہمارا پانچواں ہمسایہ ہوا کرتا تھا۔ ہم نے پڑوسی ملک روس سے باعزت تعلقات بنانے کے بجائے دس ہزار 836کلومیٹر دور جا کر امریکہ کی مونگ پھلی کھا لی۔ انسانی تاریخ کا تجربہ یہ بھی بتاتا ہے کہ آملہ کھانے کا مزہ آملہ کھانے کے بعد آتا ہے۔ عین اسی طرح سے امریکی مونگ پھلی کا مزہ ہمارے منہ کو ایسے لگا کہ ہم نے مہربان چین کی حمایت کا صلہ زبانِ حال سے ڈونلڈ ٹرمپ کے چرنوں میں یوں دان کر دیا جیسے شاعر کا خواب ''قدموں میں تیرے جینا مرنا‘ اب دور یہاں سے جانا کیا‘‘۔ دُور سے یاد آیا کہ امریکہ کا ساتواں بحری بیڑا سقوطِ ڈھاکہ کو روکنے کے لیے نجانے خلیج بنگال کے کس کونے میں لنگر انداز ہو گا۔ اگر کسی کو امریکہ کے اس سچے وعدے کی خبر ملے تو وہ اس سطر کے قلم بند کرنے والے تک ضرور پہنچا دے۔ از راہِ کرم!
ایک خاص احتیاط جس کی ضرورت ہے وہ صدر ٹرمپ کا مزاجِ تاجرانہ ہے‘ جس میں گھاٹے کے سودے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔ مگر ایک سوال ضرورپیدا ہوا جسے پوری قوم جاننا چاہتی ہے کہ امریکہ پاکستان پہ اتنا مہربان ہونے کا دکھاوا کیوں کر رہا ہے؟
دوسری لغزش‘ ہم سرے سے کسی غلطی کو مانتے ہی نہیں: پڑوسی ملک بھارت اور خاص طور پر ششی تھرور نے انڈیا کے وسائل لوٹنے‘ ریاستِ میسور پر ظالمانہ قبضے‘ کوہِ نور ہیرا چوری کر کے ملکہ برطانیہ کے تاج میں سجانے تک‘ اور افریقی لیڈروں نے غلامی کو تجارت بنانے پر کئی مغربی ملکوں سے معافیاں منگوائی ہیں۔ زندہ قومیں غلطی مانتی ہیں۔ غلطی کی وجوہات دریافت کرنا اپنا قومی فریضہ سمجھتی ہیں۔ پھر اصلاحِ احوال کے لیے آئندہ غلطی کی گنجائش نہ چھوڑنے کی باقاعدہ منصوبہ بندی ہو سکتی ہے۔ ایک ہم ہیں کہ جن میں معاشی میدان کی عالمی فہرست میں روانڈا کے قریب پہنچ جانے کے بعد بھی یہ کہنے کی ہمت ہے کہ اگلے چھ مہینے میں پنجاب جاپان کے برابر ہو جائے گا۔ بار‘ بار امریکہ سے جو وفد آتے ہیں ان کا ایک ہی مقصد رپورٹ کیا جا رہا ہے کہ امریکہ اور پاکستان دہشت گردی کے خلاف دیرینہ پارٹنر شپ کو مزید مضبوط بنائیں گے۔ ویسے کوئی بتلائے! دنیا کی دوسری کون سی ریاست ہے جو عالمی سطح پر معیشت‘ تجارت‘ افرادی قوت‘ برآمدات اور برابری کے تعلقات کو چھوڑ کر اس طرح کی لایعنی پارٹنر شپ پر زور دے رہی ہے۔ ایک ایسی پارٹنر شپ جس کا واحد اور اکلوتا نتیجہ پچھلے چار عشروں میں اُڑتے ہوئے پراکسی تصادم کو خواہ مخواہ پکڑنے کے علاوہ اور کچھ نہیں نکل سکا۔
میری دعا ہے کہ یہ خدشات غلط ثابت ہوں۔ لیکن جو دیوار پر لکھا ہے اسے پڑھنا تو پڑے گا کیونکہ اسی ہفتے عوامی جمہوریہ چین کے وزیر خارجہ جناب وانگ ژی نے بھارت کا بظاہر ورکنگ کے بعد دورہ کیا۔ وہی چین جس پر بھارت نے حالیہ پاک بھارت لڑائی کے بعد کھلے الزامات عائد کیے‘ انہیں اچانک پس پشت ڈال کر چین نے اتنا اہم علاقائی سٹرٹیجک قدم کیسے اٹھایا؟ اس دورے کے نتائج اور تفصیلات عالمی نیوز ایجنسی رائٹر‘ انڈیا ٹو ڈے اور دی اکنامک ٹائمز نے پاک چائنہ بارڈر کا فوکس بیان کیا۔ ساتھ بتایا کہ دونوں ملکوں نے فوجی ڈِس انگیجمنٹ اور امن کی طرف بڑھنے کے اقدامات پر بھی بات کی۔ چینی وزیر خارجہ کے دورۂ بھارت پر انڈین ڈیفنس نیوز اور بزنس ٹوڈے نے ایک دوسرے سے معاشی تعاون کے نئے پہلوؤں پر گفتگو کی۔ ایسوسی ایٹڈ پریس آف امریکہ‘ دی ٹائمزآف انڈیا‘ وال سٹریٹ جرنل اور اکنامک ٹائمز نے بھی رپورٹیں شائع کیں۔ ان رپورٹوں میں دورے کا بڑا فوکس بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے باہمی اعتماد سازی‘ چین انڈیا تعلقات کو سٹیبلائز کرنا‘ آنے والے شنگھائی تعاون تنظیم سمٹ میں بھارت کی شمولیت کے موضوعات موضوعِ گفتگو رہے۔ ایک اہم ترین پیش رفت یہ بھی سامنے آئی کہ جب اجیت دوول اور چینی وزیر خارجہ نے کہا:
Both sides "celebrated" the calm along the border
محسوس ہوتا ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی بے سمت دوڑے چلی جا رہی ہے۔
کس طرف سجدہ کروں‘ کس سے دعائیں مانگوں!
اے میرے شش جہت قبلہ وکعبہ مددے
اک اک چہرۂ گُل رنگ بجھا جاتا ہے
صحتِ جلوۂ آئینہ فردا مددے