"SBA" (space) message & send to 7575

Dear Judge Frank Caprio

منصبِ منصفی پر بیٹھ کر بے لاگ‘ دلیرانہ انصاف کرنے والے صرف اپنی عاقبت نہیں سنوارتے بلکہ حیاتِ مستعار اور بعد از رحلت‘ دونوں میں لوگوں کی آنکھ کا تارا بن جاتے ہیں۔ عربی زبان میں ایسے ذیشان شخص کو کہتے ہیں ''علیٰ رأسی‘‘ آپ میرے سَر کے تاج ہیں۔ سرپرست‘ سر ڈھانپنے والے۔ اتنے قابلِ قدر کہ میں آپ کو سر پہ بٹھا لوں۔
ایسی ہی ایک شخصیت دو صدیوں میں پوری دنیا کے منظرِ قضاہ پر چھا گئی۔ جن لوگوں کو اس نابغہ روزگار جج کی عدالت میں بطور ملزم پیش کیا جاتا‘ وہ جج کے رویے اور طرزِ منصفی کے شیدا ہو جاتے۔ فیصلہ حق میں ہو یا خلاف‘ ملزم کو یوں لگتا جیسے وہ گوشت پوست کے انسان کے سامنے نہیں بلکہ اپنی صدی میں محبت کے دیوتا کے روبرو حاضری دے کر انصاف کے مندر سے نکلا ہے۔ عالمِ انسان کے لیے گداز دل‘ کھلا ذہن‘ شفقت میں ڈھلا ہوا یہ شخص 24 نومبر 1936ء کو اٹالین امریکن علاقہ فیڈرل ہِل پراویڈینس میں پیدا ہوا۔ نام Frank Caprio رکھا گیا۔ کیپریو قبائلی خاندان سے تعلق رکھتا تھا‘ جس نے اٹلی کے شہر نیپلز سے امریکہ ہجرت کی۔ کیپریو کے والد Antonio T Caprio فروٹ اور دودھ کے تاجر تھے جنہوں نے اپنے تین بچوں کی تربیت وتعلیم پر توجہ‘ حاجت مندوں اور غریبوں کے ساتھ شفقت سے پیش آنے اور سوچ میں دیانتداری کے اصول راسخ کیے۔ انٹونیو کے اس بیٹے نے بڑے ہو کر مختلف سماجی حیثیتوں میں نمایاں پوزیشن لی۔ سال 1985ء سے 2023ء تک‘ 38 سال پراویڈینس میونسپل کورٹ کے عہدۂ جج پر انصاف کی دنیا میں ڈنکا بجایا۔ اپنے تجربات پر مبنی جج فرینک کیپریو نے 4 فروری 2025ء کو ایک کتاب شائع کی‘ ٹائٹل ہے :Compassion in the Court۔
جج فرینک کیپریو صاحب کی وفات پر عالمی میڈیا میں چھپنے والی چند سرخیاں یوں ہیں: جج فرینک کیپریو دنیا سے رخصت ہو گئے۔
He was beloved around the world for his deep compassion, humility, and unwavering faith in Goodness of people and even more through his example of humanity.
سیانے سچ کہہ گئے‘ محبت واقعی فاتحِ عالم ہے۔ یہ بھی سچ ہے مالکِ ارض وسما نے انسان کو دردِ دل کے لیے پیدا کیا۔ اس سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا جو دوسروں کے لیے اچھا سوچتا ہے اور اُنہیں حفظِ مراتب میں ترجیح دیتا ہے‘ عزت کے ہمالہ اُس کے زیرِپا آ جاتے ہیں۔ قدیم چائنیز زبان کی کہاوت ہے: چاول کا ایک دانہ ترازو کا پلڑا تبدیل کر سکتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوا‘ چھوٹے چھوٹے اچھے کام بڑے بڑے نتائج مرتب کر دیتے ہیں۔
جوڈیشری کی دنیا کی بات چل نکلی ہے‘ لہٰذا ضروری ہو گا کہ ہم ایک نظر اُن پانچ جوڈیشل اُصولوں پر ڈالیں‘ جن کی بنیاد پر ساری دنیا میں جج کو عہدے سے معزول کیا جا سکتا ہے۔
جج کو عہدے سے ہٹانے کی پہلی وجہ‘ Perjury: اس آفاقی اصول کے مطابق کوئی شخص جب جوڈیشل عہدے کا ایک بار حلف اُٹھا لے تو اُس پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ ذاتی نفع‘ نقصان کی پروا کیے بغیر صرف اور صرف اپنے حلف کی پابندی سے تنازعات کے حل کے فیصلے کرے۔ سائلوں کے سامنے اُسے انصاف کی فراہمی کے جھوٹے دعوے کرنے کی اجازت ہرگز نہیں۔
جج کو عہدے سے ہٹانے کی دوسری وجہ‘ Fraud: جب جوڈیشل افسر کسی حوالے سے کسی سطح پہ بھی کسی سائل یا مقدمے کے فریق کو دھوکا دے‘ یا پھر وہ ذہنی‘ مالی یا جسمانی کرپشن میں ملوث ہو جائے تو وہ جج کی کرسی پر بیٹھنے کا اہل نہیں رہتا‘ اُسے آزاد معاشروں کی آزاد عدالتوں میں ایک دن بھی برداشت نہیں کیا جاتا۔
جج کو عہدے سے ہٹانے کی تیسری وجہ‘ Misbehaviour: جج کے عدالتی طرزِ عمل کے دو اصول اس زمرے میں آتے ہیں۔ پہلا یہ کہ جج کسی صورت بھی پاور Abuse نہیں کرے گا۔ نہ تو کسی کے حق میں ناجائز طاقت استعمال کرے گا‘ نہ ہی کسی کے خلاف ناجائز طرزِ عمل اپنائے گا۔ کیونکہ جج کی بنیادی ذمہ داری ہر کسی کے درمیان‘ ہر طرح کے حالات میں‘ ہر معاملے اور مقدمے میں انصاف کے ترازو کے دو پلڑے برابر رکھنے کے لیے دل وجان سے ڈٹے رہنا ہے۔
جج کو عہدے سے ہٹانے کی چوتھی وجہ‘ Conflict of interest: جوڈیشل آفیسر کے روبرو جو مقدمہ ہو اُس میں جج کا ذاتی مفاد یا دلچسپی اگر کسی طرح سے جوڈیشل فرائض کے راستے میں حائل ہو تو ایسی صورت کو مفادات کا ٹکرائو کہتے ہیں۔ جج کے لیے لازم ہے کہ وہ مفادات کے ٹکرائو کے زمرے میں آنے والے مقدمات کو سننے سے انکار کرے۔ اگر نہیں تو پھر اعلیٰ عدالتی معیار کے مطابق اپنی دلچسپی اور مفاد پسِ پشت ڈال کر حقائق اور سچائی کے تحت فیصلہ کر ڈالے۔
جج کو عہدے سے ہٹانے کی پانچویں وجہ‘ Partiallity: کسی عدالتی تنازعے کے دوران اگر جوڈیشل آفیسر ذاتی‘ مذہبی یا سیاسی وجوہات کی بنا پر یکساں سلوک کرنے کی قابلیت کھو بیٹھے تو اُسے Bias جج کہتے ہیں۔ فیصلہ سازی میں تعصب استعمال کرنے والے جج کو وکالت کی پریکٹس کرنے کے حق ؍ لائسنس سے محروم کرکے ڈسمس کیا جاتا ہے۔
آگے آنے والے واقعات ساری دنیا کے آزاد ممالک کی آزاد عدلیہ میں رونما ہوئے۔ ہمارے ہاں ایک سیاسی جج کو بچانے کے لیے اُس کے ساتھی ججوں نے آئین کو نظر انداز کر کے Quashment کا بینچ بنا دیا۔ ایک اور جج کو آمدن سے زیادہ اثاثے رکھنے پر سوال کیا گیا‘ اس سوال پر اعلیٰ ترین عدلیہ نے فیصلوں کے کوڑے برسا دیے۔ دنیا کے دوسرے ملکوں میں ایسا نہیں ہوتا۔ رواں سال 2025ء میں سائوتھ جکارتہ انڈونیشیا کے چیف جج محمد عارف نورینتا کو تین پام آئل کمپنیوں سے ہائی پروفائل کیس میں 3.6 ملین ڈالر وصول کر کے رشوت کا حصہ اپنی عدالت کے برادر ججز میں تقسیم کرنے کے الزام میں بھری عدالت سے گرفتار کر لیا گیا۔ دوسری مثال: سال 2025ء میں امریکہ کی بیسویں بڑی ریاست Wisconsin کے کائونٹی جج حناہ دُگن کو FBI نے امیگریشن کے مقدمے میں گرفتار کیا۔ الزام تھا‘ جج نے امیگریشن اور کسٹم انفورسمنٹ کے مقدمے میں گڑبڑ کی۔ 2011ء میں بھارت کے کولکتہ ہائیکورٹ کے جسٹس سَین کو 33 ملین روپے کی خوردبُرد کے الزام میں انصاف کی کرسی سے ہاتھ دھونا پڑے۔ سِکم ہائیکورٹ آف انڈیا کے چیف جسٹس ڈِینا کَرن کو معلوم وسائل سے زیادہ اثاثے رکھنے پر جوڈیشل مِس کنڈکٹ کا مرتکب قرار دے کر عدالت سے نکالا گیا۔ الہ آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس ایس این شُکلا کو بھارتی CBI نے وسائل سے زیادہ دو کروڑ 45 لاکھ کے اثاثے رکھنے پر گرفتار کیا۔ تفتیش میں پتا چلا جسٹس شُکلا نے پرائیویٹ میڈیکل کالجز کے معاملے میں یہ رشوت کمائی۔
جج فرینک کیپریو کوقانون وانصاف کی دنیا ہمیشہ یاد رکھے گی۔ وہ 88 سال کی عمر میں اسی20 اگست کو فوت ہوئے۔ اُن کا آخری تحفہ اپنی عدالت کے کینسر زدہ ملزم مسٹر وِکٹر کولیلا کی 100ویں سالگرہ پر اُن کے گھر لے جایا جانے والا برتھ ڈے کیک ہے۔
میں تری راہ کس طرح روشن کروں
میری ویران آنکھوں میں آنسو نہیں
رات سنسان ہے راہ ویران ہے
کوئی نغمہ نہیں کوئی خوشبو نہیں

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں