1973ء کے دستور سے بدترین کھلواڑ‘ شہری آزادیوں پر مسلسل بے رحمانہ انداز کے غیر آئینی حملوں‘ دستور میں موجود پولیٹکل جسٹس کے مسلسل قتلِ عام کے بارے میں دو روز پہلے ایک بین الاقوامی رپورٹ سامنے آئی۔ اس رپورٹ کو بیورو کریسی کے ایک شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار نے خوب دبا کر رکھا۔ یہ حرکت سراسر غیر قانونی ہے کیونکہ یہ رپورٹ پاکستان کے بارے میں وہ پبلک ریکارڈ تھا جس کے ذریعے سے ایک غیر جانبدار بین الاقوامی ادارے نے 2024ء کے الیکشن کو الیکٹورل تھیفٹ کے ذریعے ہڑپ کرنا ثابت کیا۔ اس حوالے سے کامن ویلتھ سیکرٹریٹ اور یورپی یونین کمیشن نے خود اپنے تیار کردہ سٹینڈرڈز آف ٹرانسپیرنسی اور Laws of Impartiality کا سوا ستیاناس ہونے دیا۔ مسٹر رائن گرم نے دو عدد دیگر پیشہ ور صحافیوں کی معاونت سے خوب اچھا کام کر دکھایا۔ اس طرف بعد میں آتے ہیں‘ کیونکہ اس رپورٹ کی اشاعت کے بعد باہر سے ایک بار پھر بہت سے سوالات منظر عام پر آ رہے ہیں‘ جن کو ایک ہی جملے میں بیان کیا جا سکتا ہے اور وہ یہ کہ پاکستان کیوں نہیں...؟ بہت بہتر ہو گا ایک ایک کر کے ان سوالوں کے جوابات کو قارئینِ وکالت نامہ کے سامنے کھول دیا جائے ۔ یہاں یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ ان سوالوں کی بنیاد ایشیا کی علاقائی صورتحال کے تناظر اور پاکستان میں رُول آف لاء کو بلڈوز کرنے کے مسلسل ساڑھے تین سال کو بھی سامنے رکھنا ہوگا۔ چلئے اس تجزیاتی مضمون کو آگے بڑھاتے ہیں۔
عمران خان موومنٹ کے حوالے سے پہلا سوال: یہ سوال اسی ہفتے ایک عدالتی فیصلے کے ذریعے بھی سامنے آیا ہے جس کی تین کالمی سرخی روزنامہ دنیا (اسلام آباد) میں اتوار‘ 14 ستمبر کی اشاعت میں پہلے صفحے پہ ان الفاظ میں شائع ہوئی ''کوئی شک نہیں عمران خان کی ہدایت کو کارکن مقدس سمجھتے ہیں‘‘۔ لاہور سے دنیا اخبار کے کورٹ رپورٹر نے 10 سالہ قید سیریز پر ATC عدالت کے جج کے جاری ہونے والے تازہ فیصلے کو اُردو ترجمہ کے ساتھ رپورٹ کیا۔ اس فیصلے کو قانونی اعتبار سے الہامی ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس لیے کہ میں نے فیصلے کو پڑھا ہے‘ ATC جج لاہور کی عدالت میں متعلقہ ٹرائل کے دوران استغاثہ کی طرف سے کوئی ایسا گواہ نہیں گزارا گیا جس نے عمران خان کے حوالے سے وہ الفاظ استعمال کیے ہوں جن کا استعمال ATC جج نے کرنا مناسب سمجھا۔ یہاں یہ واضح کرنا بہت ضروری ہے کہ صرف پاکستان کا نہیں بلکہ دنیا بھر کے جسٹس سسٹم کو چلانے والے خواہ وہ لیگل سٹاف ہو‘ پیرا لیگل جوڈیشل آفیسر ہو یا پیرا لیگل سٹاف‘ اُنہیں یہ اجازت ہرگز نہیں کہ وہ دو چیزوں میں وہ کچھ پڑھنے کی کوشش کریں جو لکھا ہوا نہیں ہے۔ اگر کسی جج نے ٹرائل کا مذاق بنانا ہو یا مولوی مشتاق کے راستے پرچلنا ہو تو بات دوسری ہے۔ ورنہ جب تک شہادت؍ گواہی؍ حقیقت؍ الزام حلف پر بیان ریکارڈ کرانے کے بعد گواہ کے ذریعے جوڈیشل مثل پر نہ آئے‘ وہ کسی الزام علیہ کے خلاف استعمال نہیں کی جا سکتی۔ دوسری پابندی کے مطابق‘ جو قانون میں نہیں لکھا اُس کو بنیاد بنا کر کسی عدالت کا کوئی جج کسی بڑے سے بڑے الزام میں ملزم کے خلاف استعمال نہیں کر سکتا۔ اس لیے عمران خان کی پبلک موومنٹ کے اثرات کوئی دیکھنا چاہے تو اُس کے لیے اوپر درج کیا گیا عدالتی فیصلہ سب سے بڑا ثبوت ہے۔ کیسے اور کس حد تک مختلف اداروں کو عمران خان کے میڈیا ٹرائل کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں اگر کوئی پبلک موومنٹ عمران خان کے حق میں نہیں چلی ہے‘ نہ چل رہی ہے یا نہ چل سکے گی تو پھر کپتان کے حوالے سے اتنی فکرمندی کس بات پر؟
عمران خان موومنٹ کے حوالے سے دوسرا سوال: اس میں اب کیا کوئی شک باقی ہے کہ موجودہ صدی کا موجودہ عشرہ پبلک موومنٹس کا عشرہ اور زمانہ ہے۔ شرق وغرب‘ امریکہ‘ لاطینی امریکہ‘ فرانس‘ مشرقی اور مغربی یورپ کے دیگر ملکوں سمیت برطانیہ میں ہزاروں افراد پبلک موومنٹس کا حصہ بن کر باہر نکل رہے ہیں۔ اگر ہم جنوبی ایشیا کی مثال لینا چاہیں تو خاص طور سے سری لنکا‘ بنگلہ دیش اور نیپال کے حالات ہمارے سامنے ہیں۔ بنگلہ دیش کی ڈکٹیٹر حسینہ واجد کے حق میں فراڈ الیکشن کرانے والا چیف الیکشن کمشنر عدالتی تحویل میں بھی عوام کے غیظ وغضب کا نشانہ بن رہا ہے۔ سری لنکا کا راجہ پاکسے خاندان ہر پبلک آفس میں بیٹھا ہوا تھا۔ پاکستان میں بھی ایسے ہی ڈھائی خاندان ہر پبلک آفس پر قابض ہیں۔ ووٹ کسی کے حق میں پڑتا ہے لیکن آکشن ان ڈھائی خاندانوں کے حق میں ہو جاتا ہے ۔ سری لنکا کا حکمران راجہ پاکسے خاندان‘ اُس کی باقیات اور وزیر‘ مشیر بلکہ کفگیر عوامی مزاحمت کے سامنے پسپا ہی نہیں ہوئے بلکہ سب چھوڑ چھاڑ کر ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں مہنگائی‘ بدانتظامی اور کرپشن کے خلاف شروع ہونے والی مہم نے کئی بھگوڑوں کی یاد تازہ کرنے والا نتیجہ نکالا۔ جیسے ویتنام سے امریکہ کا بھاگنے والا آخری فوجی دستہ ہیلی کاپٹر پہ لپک رہا تھا یا جس طرح بھارتی اور امریکی سہولت یافتہ افغانی صدر اشرف غنی ایسے بھاگا جیسے جلے ہوئے گائوں سے جوگی۔ کٹھمنڈو میں مفرور وزیراعظم کے ریسکیو ہیلی کاپٹر سے لٹک کر ملک سے بھاگتے ہوئے وزیر وائرل ہوئے۔
اب آئیے اُن سوالات کی طرف جو 2024ء کے جنرل الیکشن کے حوالے سے کامن ویلتھ اور یورپی یونین کمیشن کے کردار پر نئی رپورٹ سے سامنے آئے۔ سوال سادہ ہے‘ اگر دھاندلی ہوئی تھی اُس پہ مغربی اداروں نے جو حقائق جمع کیے اُنہیں کس نے چھپایا؟ ایک بیورو کریٹ کا نام سامنے ہے لیکن اتنا بڑا کام کرنے کے لیے اکیلا آدمی نہیں پورا گینگ چاہیے۔ ایک اور سوال عمران خان کے ساتھ بدترین بدسلوکی کے حوالے سے اقوامِ متحدہ کے سامنے آیا ۔ جو اب اس عالمی فورم کی کیس پراپرٹی بن گیا۔ اس کا پہلا حوالہ ایک باقاعدہ پیٹرن کے ذریعے عمران خان کی قیدِ تنہائی میں انسانی حقوق کی شدید ترین Abuses کرنے کا اُٹھایا گیا۔ دوسرا سوال‘ پاکستان کی سیاسی تاریخ کی طویل ترین سولٹری کنفائنمنٹ کا‘ تیسرا میڈیکل کیئر سے انکار کا۔ چوتھا سوال Contaminated فوڈ کا اور پانچواں سوال بار بار وکلا کی لیگل کونسلنگ منقطع کرنے کا اور چھٹا سوال فیملی سے ظالمانہ سلوک کا۔ ساتواں سوال دونوں بیٹوں قاسم اور سلیمان کو والد تک رسائی نہ دینے کے غیر انسانی فعل کا۔ آٹھواں سوال سیاسی الزامات پر ڈی گریڈنگ ٹریٹمنٹ کا۔ اس حوالے سے پاکستان کے دستخط شدہ کنونشن اگینسٹ ٹارچر (CAT) اور بین الاقوامی معاہدہ برائے سول اینڈ پولیٹکل رائٹس (ICCPR) کی مسلسل خلاف ورزیوں کا اُٹھایا گیا۔
جوش ملیح آبادی قانونِ درماں میں لکھتے ہیں:
حُکم دوراں ہے جب بڑھے ظلمت
مہرِ تاباں طلوع ہو جائے
درد بڑھتے ہی جانبِ درماں
زندگانی رجوع ہو جائے
تیغ جیسے ہی ڈوب کر اُبھرے
زخم بھرنا شروع ہو جائے