"SBA" (space) message & send to 7575

قیدی نمبر 804 کی دوسری سالگرہ

سائفر والی سازش کے فوراً بعد ہی عمران کو یقین ہو گیا تھا‘ ملک میں رجیم چینج لائی جا رہی ہے۔ رجیم چینج کی وجوہات کا انہیں کسی دوسرے شخص سے زیادہ پتا تھا۔ اس لیے کہ افغانستان کے خلاف استعمال کرنے کے لیے راہداری والا امریکی دبائو‘ UK کے اندر کچھ حلقوں کی سرگرمیاں‘ باجوہ کی مشکوک ملاقاتیں اور حرکات‘ ان سب کی اطلاعات باخبر پاکستانی ملک کے باہر سے اور اندر سے عمران خان کو پہنچا رہے تھے۔ اس لیے عمران خان کو یقین ہو گیا تھا کہ لندن پلان پر جلد عملدرآمد ہو گا۔ انہی دنوں پارلیمنٹ کا اجلاس بھی چل رہا تھا‘ جہاں (ن) لیگ کے تین چار لیڈرز جو وقتاً فوقتاً گپ شپ کے لیے پارلیمنٹ میں میری نشست پر آیا کرتے تھے‘ جہاں میرے ساتھ IB کے سابق سربراہ‘ اس وقت کے وزیر داخلہ بریگیڈیئر (ر) اعجازشاہ بھی بیٹھتے اور فائر برانڈ عمرایوب خان بھی۔ ان (ن) لیگی لیڈروں کی ذہنی کیفیت ''ہوا میں اُڑتا جائے میرا لال ...‘‘ جیسی ہو چکی تھی۔ پھر آپ جانتے ہی ہیں وزارت کا امیدوار اور سابق وزیر‘ (ن) لیگی پنجابی ہو اور بڑھکیں نہ مارے۔ بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ بھی خبریں ڈسکس کرتے رہتے تھے۔
9 مئی سے دو دن پہلے عمران خان نے مجھے بلایا اور ہم نے علیحدہ بات کی۔ آج کے موضوع سے متعلق اتنا کہنا کافی ہوگا کہ عمران خان کہنے لگے: مجھ تک کسی بڑی سازش کی بُو پہنچ رہی ہے۔ اس سازش کے ذریعے سے پی ٹی آئی کو Ban کرنے کا بہانہ بنایا جائے گا۔ پھر ہمارے مابین کچھ قانونی مشورے ہوئے اور عمران خان نے کچھ چیزوں پر میری رائے لی۔ عمران خان کہتے تھے‘ میری گرفتاری کوئی عام گرفتاری نہیں ہو گی۔ نہ ہی میرے ساتھ سیاسی قیدیوں والا سلوک ہو گا بلکہ یہ سلوک جنگی قیدیوں والا ہو گا۔ اس کے تقریباً48 گھنٹے بعد 9 مئی 2023ء آ گیا۔ اس روز بھی اسلام آباد میں سورج معمول کے مطابق طلوع ہوا۔ افسر‘ اہلکار‘ وکیل اور جج‘ مزدور اور دکاندار اپنے اپنے کام کی طرف جا رہے تھے۔ اسی دوران عمران خان کو ایک جیسی موٹر بائیکس‘ ایک جیسی بلا نشان سیاہ پوش وردیاں‘ ایک جیسے رنگ کے ماسک اور ایک جیسے کالے ہیلمٹ پہنے 100 سے زائد نامعلوم لوگوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے آئی ٹی روم کے اندر سے اغوا کر لیا۔ دن دہاڑے اغوا کی اس واردات کی پکچرز ٹی وی سکرینوں پر ٹیلی کاسٹ ہونا شروع ہو گئیں۔ میں نے کچھ وکیل ساتھ لیے اور عمران خان کا اتا پتا لینے دوڑ پڑا کہ گرفتار کس نے کیا ہے اور اُنہیں رکھا کہاں گیا ۔ آناً فاناً عمران خان کی گرفتاری کی ہیجان آمیز اور پاکستانی عوام کے لیے حیران کن خبر بریکنگ نیوز بن کر سامنے آنے لگی۔ اسلام آباد پولیس کے دو‘ تین بڑے پولیس سٹیشنز پر گیا۔ ایک جگہ سے پولیس آفیسر نے رازداری کی یقین دہانی لے کر بتایا کہ انہیں سیکٹرH-11 میں پولیس کے ریسٹ ہائوس لے جایا گیا ہے۔ عمران خان کے اغوا کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے Habeas Corpus litigation میں حبسِ بے جا قرار دیتے ہوئے اُن کی فوری رہائی کا حکم دے دیا۔ عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے ریلیز کیے جانے کے بعد عمران خان نے پھر بلایا۔ اس گفتگومیں حالات کے تانے بانے بتا کر کہنے لگے اب مجھے لمبے عرصے کے لیے اُٹھایا جائے گاکیونکہ پاکستان کا عام آدمی جاگ پڑا ہے۔ پاکستان کی نوجوان نسل ساری دنیا کی آزادیوں کو کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے‘ اس لیے قوم اب اپنی غلامی کی زنجیریں توڑنا چاہتی ہے۔ عوام کے مقابلے میں Status Quo کی طاقتیں سخت پریشان ہیں۔ اُن کا خیال ہے اگر عمران خان درمیان میں سے ہٹ جائے تو پہلے کی طرح اب بھی من مرضی کر لیں گے۔
2023ء کے جون‘ جولائی کی شدید گرمی میں عمران خان کی ضمانتوں کی دوڑ شروع ہوئی۔ کبھی عبوری ضمانت‘ کبھی حفاظتی ضمانت‘ کبھی اومنی بس ضمانت آرڈر کے لیے ہم اُنہیں پشاور لے جاتے‘ کبھی اسلام آباد کچہری میں اور کبھی لاہور ہائیکورٹ میں۔ یہ روزانہ کا معمول بن گیا۔ اس دوران کینگرو کورٹس میں فرضی گواہ یکطرفہ طور پر ریکارڈ کیے گئے ۔ نہ عمران خان کو صحیح معنوں میں ان شہادتوں پر جرح کا موقع دیا گیا نہ ہی اُس لسٹ کے مطابق‘ جس میں صفائی کے گواہوں کے نام لکھ کر عمران خان نے اپنے 342 کے بیان میں کہا تھا میں شہادت صفائی دوں گا‘ اُن گواہوں میں سے کسی ایک گواہ کا بیان قلم بند کرانے کی صفائی کا موقع دیا گیا۔ یہ حالات کا ایک منظر نامہ تھا جس کے نتیجے میں پاکستان کے باشعور لوگوں سے عمران خان کو چھیننے کے لیے دھوکا دہی کر کے توشہ خانہ کیس میں تین سال قید سناتے ہوئے گرفتار کر لیا گیا۔ اس روز 5 اگست 2023ء کی تاریخ تھی۔ یہ سطور لکھتے ہوئے 5 اکتوبر کا دن ہے اور قیدی نمبر 804 کو قیدِ تنہائی میں 791 دن گزر چکے ہیں۔
یہ کالم جیل میں عمران خان کی دوسری سالگرہ والے دن لکھا گیا۔ پاکستان کے آزاد منش لوگوں کو عمران خان کی سالگرہ مبارک! عمران خان کی سالگرہ کا کیک کاٹنا تو دور کی بات ہے‘ ہمیں ان دو سالوں میں کبھی اُن تک کوئی بسکٹ پہنچانے کی بھی اجازت نہ ملی۔ عمران خان کی لازوال جدوجہد‘ صبر آزما مزاحمت‘ سالہا سال کی قیدِ تنہائی اور 300 جھوٹے مقدمات کا احرامِ مصر‘ یہ سب مل کر عمران خان کی عوام کے ساتھ کمٹمنٹ کو ذرہ برابر متاثر نہ کر سکے۔ ہماری تاریخ کے انقلابی قیدیوں میں سے 1960ء کے عشرے کا ایک اور انقلابی قیدی یاد آ رہا ہے۔ شاعرِ عوام حبیب جالب نے اپنی شریکِ حیات سے جیل میں ہونے والی ملاقات کو جن لفظوں میں بیان کیا تھا وہ آج عمران خان کی بشریٰ عمران سے بندی خانے کی عدالت میں ملاقات پر بھی صادق آتے ہیں:
یکساں ہیں مری جان قفس اور نشیمن
انسان کی توقیر یہاں ہے نہ وہاں تھی
شاہوں سے جو کچھ ربط نہ قائم ہوا اپنا
عادت کا بھی کچھ جبر تھا کچھ اپنی زباں تھی
صیاد نے یونہی تو قفس میں نہیں ڈالا
مشہور گلستاں میں بہت میری فغاں تھی
عمران خان کو قید کرنے والوں سے قوم نے پوچھنا یہ تھا!! عمران خان کو قید کر کے آپ نے انڈسٹری چلا لی یا انٹرنیشنل بزنس پلیئرز اورگلوبل برینڈ پاکستان چھوڑنے پہ مجبور ہو گئے؟ کیا عمران خان کے دور کی طرح بارڈرز خاموش ہو گئے‘ امن وامان بحال ہو گیا؟ کیا 26ویں ترمیم سے عدلیہ آزاد ہوئی؟ میرے پاس خبر یہ ہے‘ مردِ انکار نے انکار در انکار‘ انکار پر اصرار اور انکار کی تکرار کے ذریعے نظامِ جبروت کے گلے میں ہار کا طوق ڈال دیا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں