آج کل پاکستان میں ہر طرف قرضوں کے ڈیفالٹ کے خطرے پر گفتگو ہو رہی ہے۔ جس ڈیفالٹ کی بات ہو رہی ہے‘ وہ کوئی عام ڈیفالٹ نہیں۔ قانونی زبان میں اسے ''ساورن ڈیفالٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ساورن یعنی خود مختار ڈیفالٹ کیا ہے؟ سادہ الفاظ میں ایک خود مختار ملک کی جانب سے واجب الادا قرض کی ادائیگی میں ناکامی یا اس ادائیگی سے انکار کو ساورن ڈیفالٹ کہا جاتا ہے۔ اس ادائیگی میں ناکامی کی دو شکلیں ہیں۔ ایک اعلانیہ شکل ہوتی ہیں۔ اس شکل میں حکومت واجب الادا قرضوں کی ادائیگی میں ناکامی کا باقاعدہ حکومت کی طرف سے رسمی اعلان کر سکتی ہے کہ وہ اپنے سارے قرضوں یا کچھ واجب الادا قرضوں کی ادائیگی نہیں کرے گی۔ ڈیفالٹ کی دوسری شکل غیر اعلانیہ ہوتی ہے‘ جس میں حکومت عدم ادائیگی کا با قاعدہ اعلان تو نہیں کرتی مگر عملی طور پر وہ واجب الادا قرض یا قرضے ادا کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ ڈیفالٹ کی ایک تیسری شکل بھی ہوتی ہے جس میں قرض کی ادائیگی سے رسمی انکار نہیں کیا جاتا‘ نہ ادائیگی میں ناکامی کا اعتراف کیا جاتا ہے لیکن کچھ ایسے طریقے اختیار کیے جاتے ہیں جن کی وجہ سے وہ ممالک بعض اوقات اپنے قرضوں کے حقیقی بوجھ سے بچ جاتے ہیں۔ یہ عام معنوں میں ڈیفالٹ نہیں ہے کیونکہ قرض کا احترام کیا جاتا ہے مگر کم حقیقی قدر کی کرنسی کے ساتھ ادائیگی کی جاتی ہے۔ اس مقصد کے لیے حکومتیں بعض اوقات اپنی کرنسی کی قدر میں کمی کرتی ہیں۔ یا پھر وہ مزید رقم چھاپ کر یا اپنی کرنسیوں کی قیمتی دھاتوں یا مقررہ شرحوں پر غیر ملکی کرنسی میں تبدیلی کو ختم یا تبدیل کر کے ایسا کر سکتی ہیں۔ ڈیفالٹ کی ان سب شکلوں کو بین الاقو امی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیاں اپنے ریکارڈ میں دکھاتی ہیں جس سے کسی ملک کے اچھے یا خراب کریڈٹ کا تعین ہوتا ہے۔ ان ایجنسیوں کی ان رپورٹس سے اس ملک کی مستقبل میں مزید قرض لینے کی صلاحیت کا اظہار ہوتا ہے۔
جن ملکوں یا اداروں نے قرض دیا ہوتا ہے یا بانڈز خریدے ہوتے ہیں‘ اگر ان کو یہ شک ہو کہ حکومت اپنا قرض واپس کرنے میں ناکام ہو سکتی ہے تو وہ ڈیفالٹ کے خطرے کے پیش نظر بلند شرح سود کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ یہ ایک قرض دار ملک کے لیے خطرناک صورت حال ہوتی ہے۔ سود کی شرح میں ڈرامائی اضافہ جس کا سامنا کسی حکومت کو اس خوف سے کرنا پڑتا ہے کہ وہ اپنے قرض کو ادا کرنے میں ناکام ہو جائے گی‘ اسے خود مختار قرضوں کا بحران کہا جاتا ہے۔
چونکہ ایک خود مختار حکومت اپنے معاملات کو خود کنٹرول کرتی ہے‘ اس لیے بظاہر اسے قرض دینے والا ملک اپنے قرض کی ادائیگی پر مجبور نہیں کر سکتا۔ مگر ماضی میں ایسا کیا جاتا رہا ہے۔ قرض کی واپسی میں ناکامی پر ایک بڑی قرض دہندہ قوم‘ اپنے قرض کی وصولی کے لیے کسی حد تک بھی جا سکتی تھی۔ مقروض ملک کے اثاثوں کو ضبط کرنے کے لیے مقروض قوم کے خلاف جنگ چھیڑ سکتی تھی۔ مثال کے طور پر 1882ء میں برطانیہ نے قرض ادا کرنے میں ناکامی پر مصر پر حملہ کر دیا تھا۔ دوسری مثالیں 1890ء کی دہائی کے وسط میں وینزویلا میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ''گن بوٹ ڈپلومیسی‘‘ اور 1915ء میں ہیٹی پر امریکہ کا قبضہ ہے۔ لیکن آج کل صورت حال مختلف ہے‘ کیوں کہ اقوام متحدہ نے اپنے چارٹر کے آرٹیکل 2 (4) کے تحت ریاستوں کی طرف سے اپنے قرضوں کی وصولی کے لیے طاقت کے استعمال پر پابندی لگا دی تھی۔ اس لیے آج کل قرض کی وصولی کے لیے طاقت کے استعمال کے بجائے دیگر پُرامن مگر انتہائی سخت ذرائع استعمال کیے جاتے ہیں۔
آج‘ ایک ایسی حکومت جو ڈیفالٹ کرتی ہے‘ اس کو مزید عالمی کریڈٹ کے لیے نا اہل قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کے کچھ بیرونِ ملک اثاثے ضبط کیے جا سکتے ہیں؛ اور اسے اپنے ہی گھریلو بانڈ ہولڈرز کی طرف سے اپنے قرض کی ادائیگی کے لیے سیاسی دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ حکومت اس بحران کا شکار ہو کر ختم ہو سکتی ہے۔ لہٰذا‘ حکومتیں شاذ و نادر ہی اپنے قرض کی پوری قیمت پر ڈیفالٹ کرتی ہیں۔ اس کے بجائے‘ وہ اکثر اپنے بانڈ ہولڈرز کے ساتھ بات چیت کے ذریعے ادائیگی میں مہلت‘ تاخیر‘ قرض کی تنظیم نو یا اپنے قرض میں جزوی کمی پر اتفاق کرتے ہیں۔ آج کل ایک جدید رجحان یہ بھی ہے کہ بحران کی صورت میں ریگولیٹرز اور غیر ملکی قرض دہندگان کسی ملک کے قرض کی وقت سے پہلے تنظیم نو کر سکتے ہیں‘ جسے ''آرڈرلی ڈیفالٹ‘‘ یا ''کنٹرولڈ ڈیفالٹ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
یہ وہ مقام ہوتا ہے جہاں آئی ایم ایف سامنے آتا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اکثر قرضوں کی تنظیم نو کے لیے قرض دیتا ہے۔ قرض کے بقیہ حصے کی ادائیگی کے لیے فنڈز کی دستیابی کے کچھ اقدامات تجویز کرتا ہے۔ ان میں قرضوں کے اندر بدعنوانی میں کمی‘ کفایت شعاری‘ غیر منافع بخش پبلک سیکٹر سروسز کو کم کرنا‘ ٹیکس میں اضافے جیسے اقدامات شامل ہیں۔ یا پھر آمدنی میں اضافے کی دوسری شکلیں تجویز کرتا ہے‘ جیسے نااہل یا بدعنوان لیکن منافع بخش معاشی شعبوں کو نجی ملکیت میں فروخت کرنے کی تجویز وغیرہ شامل ہیں۔
پاکستان میں اس وقت جو صورت حال ہے‘ یہ ہر اعتبار سے ساورن قرضوں کے بحران کی تعریف پر پورا اترتی ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان تو تسلسل سے یہ بات دہراتے رہے ہیں کہ پاکستان ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار ہے۔ سابق وزیر خزانہ مفتاع اسماعیل نے بھی مختلف الفاظ میں ہی سہی‘ اس خطرے کا اظہار کیا ہے۔ موجودہ وزیراعظم نے بار ہا ڈیفالٹ کی بات کی ہے۔ ان کے تازہ ترین بیان کے مطابق ''پاکستان کے پاس دیوالیہ پن سے پیچھے ہٹنے کے لیے بہت کم وقت رہ گیا ہے‘‘۔ لیکن دوسری طرف خود ان کی اپنی وزیر مملکت برائے فنانس اور ریونیو نے پارلیمنٹ میں کہا ہے کہ ملک کو ڈیفالٹ ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ ماضی میں حکومت کو آئی ایم ایف کے پروگرام میں تعطل کی وجہ سے ملٹی لیٹرل اور بائی لیٹرل ایجنسیوں اور یہاں تک کہ کمرشل مارکیٹ سے قرضے نہیں مل سکتے تھے۔ لیکن آئی ایم ایف کے ساتویں اور آٹھویں جائزے میں کامیابی کے بعد پاکستان کو ڈیفالٹ کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ یہ صورت حال حکمران اشرافیہ کے اندر اس مسئلے پر پائے جانے والی کنفیوژن اور تضاد ات کا اظہار ہے۔ دوسری طرف قرض کے بحران سے نکلنے کے لیے حکومت آئی ایم ایف کی شرائط پر پورا اترنے کے لیے ایسے اقدامات پر غور کر ہی ہے جن کو عوامی مفادات کے مطابق نہیں سمجھا جا سکتا۔ ان میں بہت سارے قومی اثاثوں کی نجکاری شامل ہے‘ جن میں پاکستان سٹیل ملز‘ ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن‘ ہیوی الیکٹریکل کمپلیس ٹیکسلا‘ وومین بینک‘ انشورنس کمپنیاں اور دیگر کئی ادارے شامل ہیں۔ ڈیفالٹ کے خطرے کی بات کو ایک طرف رکھتے ہوئے اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ قرضوں کی بروقت ادائیگی سے معذوری‘ قرضوں کی تنظیم نو اور ادائیگی میں تاخیر کو اگرچہ تکنیکی اعتبار سے ڈیفالٹ نہ بھی سمجھا جائے تو اس کو قرضوں کا سنگین بحران ماننے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اصل سوال یہ ہے کہ حکومت کے پاس اس بحران سے نکلنے کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق قومی اثاثوں کی فروخت‘ عوام پر بے تحاشا ٹیکس اور غریب عوام کو حاصل سبسڈی ختم کرنے کے علاوہ کیا پروگرام ہے؟ اور قرضوں کے اس ''شیطانی چکر‘‘ سے باہر نکلنے کے لیے کیا روڑ میپ ہے؟