ٹیکس ، جمہوریت اور حکومت

21جون کو فنانس بل 2014ء کو اکثریتی بل بوتے پر منظور کرنے سے ایک مرتبہ پھر حکمران جماعت نے جمہوری رویوں کا خون کیا ، کیونکہ ایسا کرتے ہوئے انہوں نے معاشی ترقی اور غریبوںکی حالت بہتر بنانے کے معاملے کو یکسر نظر انداز کردیا ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے کسی معنی خیز بحث کے بغیر ہی فنانس بل 2014 ء کو منظور کرلیا ۔ اس نے نہ صرف اپوزیشن کی تمام تجاویز کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا بلکہ سینٹ کی تجویز کردہ ٹیکس اصلاحات کو بھی خاطر میں نہیںلائی۔ 
حکمران جماعت کے ارکان ِ پارلیمنٹ نے حسب ِ معمول ربڑ کی مہر کا کردار ادا کیااور ایف بی آر کے افسران کابنایا گیا فنانس بل منظور کرلیا۔ کسی نے بھی ایف بی آر کے نااہل افسران سے باز پرس کرنے کی بات نہیں کی ۔ ان کی وجہ سے ملک 2200 بلین روپے ٹیکس بھی اکٹھا نہیںکرسکا ، حالانکہ یہاںسے 8500 بلین روپے ٹیکس حاصل کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے ارکان نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایاکہ اس نے ایف بی آر کو ''جی آئی ڈی سی‘‘( گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس)بڑھانے کا بھی اختیار دے دیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا کرنا صرف اور صرف پارلیمنٹ کا استحقاق ہے۔ تاہم اسحاق ڈار کا اصرار تھاکہ جی آئی ڈی سی ایک وفاقی ٹیکس ہے اور اسے جاری رہنا چاہیے۔ چونکہ پی ایم ایل (ن) کی پارلیمنٹ میں اکثریت ہے، اس لیے فنانس منسٹر نے آئین کونظر انداز کرتے ہوئے فنانس بل کے ذریعے جی آئی ڈی سی میں تبدیلی کر لی۔ اسے اس بل کا حصہ نہیںہونا چاہیے تھا۔ اس کی بجائے اسے سینٹ کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے تھا۔ تاہم قواعد وضوابط سے انحراف اور اپنی من مانی کرنا پی ایم ایل (ن) قیادت کی پرانی عادت ہے۔ 
اسحاق ڈار نے بجٹ کی تقریر کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ وہ بہت سی ''معقول ‘‘تجاویز کو تسلیم کرتے ہیں۔ تاہم یہ معقول تجاویز دراصل وہ تھیں جن میں بعض شعبوں میں ٹیکس وصولی کو نرم کرتے ہوئے طاقتور طبقے کو فائدہ پہنچایا گیا تھا۔ انہوں نے بونس شیئر پر ٹیکس اور کارپوریٹ انکم ٹیکس نافذ کیا حالانکہ دونوں اقدامات کاروباری اداروںکے لیے نقصان دہ ہیں۔ دوسری طرف پی ایم ایل (ن) کی حکومت نے تاجروں کو فری ہینڈ دے کر اُنہیں ٹیکس کے دائرے میں آنے سے بچنے کا موقع دے دیا۔ اس کی بجائے کارپوریٹ سیکٹر ،جو کہ پہلے ہی بھاری ٹیکسز اداکررہا ہے، پر مزید بوجھ ڈال دیا۔ 
فنانس بل 2014ء میں کوئی قابلِ ذکر اقدامات نہیں ملتے جو دولت مند طبقے کو انکم ٹیکس ادا کرنے پر مجبور کرسکیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جو واجب الادا انکم ٹیکس دینے کی زحمت نہ کرے، اس کے اثاثے ضبط کرلیے جائیں، لیکن یہ طبقہ ابھی بھی انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 ء کے سیکشن 111(4) کے تحت ٹیکس سے چھوٹ سے فائدہ اٹھارہا ہے۔ حکومت سے اور کچھ نہ ہوسکا تو موبائل فون سم پر فالتو دوسو پچاس روپے ٹیکس لگادیا۔ اس سے دولت مندوں کی جیب سے کتنے پیسے نکلیں گے؟ اس سے صرف عام آدمی ہی متاثر ہوگا۔میں نے اپنے گزشتہ کالم میں بھی کہا تھا کہ مسٹر ڈار نے ٹیکس میں اضافے کے لیے درکار اہم اصلاحات کو نظر انداز کردیا ۔
اس وقت سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ایف بی آر کی جگہ ایک موثر نیشنل ٹیکس اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا جائے کیونکہ ایف بی آر کی اہمیت ختم ہوچکی ہے۔ یہ ادارہ مطلوبہ ٹیکس اکٹھا کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔اس کی ناکامی کے اظہار کے لیے یہ اعدادوشمار ہی کافی ہیں کہ جن 7,27,076 افراد نے ٹیکس فائل جمع کرائیں، ان میں سے 3,04,359 نے کوئی ٹیکس ادا نہیںکیا جبکہ 32,663 افراد نے کل انکم ٹیکس کا 78.43 فیصدادا کیا۔ جنوری 2014 ء میں صرف 19,850 افراد نے ریٹرن کے ساتھ سیلز ٹیکس ادا کیا تھا۔ ان اعداد وشمار کو سامنے رکھیں تو سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہمیں ایف بی آر کی ضرورت ہے؟ہم جانتے ہیں کہ اس ادارے کی طرف سے دکھائے جانے والے اعدادوشماراس رقم کو ظاہر کرتے ہیں جو یا تو بعد میں ری فنڈ کردی جاتی ہے یا پھر جابرانہ طریقوںسے عوام سے نکلوائی جاتی ہے۔ 
ماضی میں بیوروکریسی، جواس ملک کی طویل عرصے تک حکمران رہی ہے، عوام کی جیب سے من مانی رقم نکلوالیتی تھی۔ حاصل ہونے والی رقم کو صدر، وزیر ِ اعظم، وزراء، ارکان ِ پارلیمنٹ، مشیر، جنرل، جج اور اعلیٰ سرکاری عہدیداروںکی ''فلاح‘‘ پر خرچ کرلیا جاتا ۔ اسی ''نیک ‘‘ مقصد کے لیے بھاری بھرکم قرضے بھی لیے جاتے۔ بالواسطہ ٹیکسز کے ذریعے غریب ووٹرز کا جینا دوبھر کر دیا جاتا۔ یہ ماضی ہے ، لیکن اب تو آمریت نہیں، اب جمہوری دور ہے توپھر کیے گئے فیصلوں سے بھی اس کا اظہار ہونا چاہیے۔ عوام کو عملی طور پر پتہ چلے کہ یہ جمہوریت ہے ، اس لیے ان پر بوجھ کم ہوگیا کیونکہ ان کی حکومت دولت مند طبقے کی جیب سے رقم نکلوالنے کی سکت رکھتی ہے۔ اس سے بڑا جمہوری انقلاب کوئی اور ہوہی نہیں سکتا۔ لیکن افسوس، ایسا نہیںہے۔
میںنے ان صفحات میں یہ متعدد مرتبہ کہا ہے کہ جمہوریت صرف الیکشن کرانے اور انتقال ِ اقتدار کا ہی نام نہیںہے۔ ایک جمہوری حکومت نے عام آدمی کی ضروریات کا خیال رکھنا ہوتا ہے تاکہ اُسے احساس ہو کہ وہ ایک جمہوری ملک کا باعزت شہری ہے۔ لیکن یہ صرف اُسی صورت ممکن ہے کہ جب پارلیمنٹ عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ اور احتساب کا شفاف نظام وضع کرے۔ آئین کی رو سے کابینہ پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ ہے لیکن عملی طور پرہوتا یہ ہے کہ ارکان ِ پارلیمنٹ اپنے ذاتی مقاصد کے لیے وزراء کے پیچھے بھاگ رہے ہوتے ہیں۔ اس طرح پارلیمنٹ کچھ سو افراد کی ذاتی خواہشات کے ہاتھوں یرغمال بن جاتی ہے۔ اسی طرح جب جمہوریت کے نام پر طاقت کچھ افراد یا خاندانوں کے پاس چلی جاتی ہے تو یہ بھی جمہوری اقدار کی نفی ہے۔ اب موجودہ حکومت میں حکمران پارٹی کاسربراہ ملک کا وزیر ِ اعظم ہے اور وہ فنانس منسٹر کا بھی قریبی عزیز ہے۔ یہ فہرست طویل ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ تمام معاملات میں صرف فرد ِ واحد کی مرضی چلے گی۔ اگر ہمارے ہاں ادارے مضبو ط نہیں یا وہ کوئی نظام نہیں چلاپارہے ہیں توا س کی اصل وجہ یہی ہے ۔ یہاں ادارے نہیں، کچھ شخصیات کام کررہی ہیں۔ اس طرح کی جمہوریت میں جتنی مرضی انتخابات ہوجائیں، کچھ نہیںہوگا۔ 
ملک میں عام آدمی کا حال یہ ہے کہ وہ تیار شدہ مصنوعات کی خریداری پر35 سے 45 فیصد تک ٹیکس ادا کرتا ہے کیونکہ بدقسمتی سے اس ملک کا صارف وہی ہے۔ دوسری طرف سیاست دان، بزنس مین، جاگیردار، صنعت کار اور سرکاری افسرانکم ٹیکس ادا کیے بغیر دونوں ہاتھوںسے اس ملک کی دولت کو سمیٹ رہے ہیں۔ حکومت غیر دستاویزی معیشت پر ٹیکس لگانے کے موڈ میں بھی نہیں۔ دراصل آج ہمارے معاشرے کو جن مسائل نے گھیرا ہوا ہے، ان کی بڑی حد تک وجہ معاشی ناہموار ی ہے۔ اس کی ذمہ داری قسمت یا فطرت پر نہیں بلکہ حکومت ِو قت پر عائد ہوتی ہے۔ ریاستی پالیسیاںاس طرح کی ہیں کہ ٹیکس چرانا بہت آسان ہے۔ ایف بی آرآٹھ ہزا ر بلین روپوں کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام ہے حالانکہ میں نے اپنے گزشتہ کالموں میں اعدادوشمار کے ساتھ یہ بات واضح کی تھی کہ پاکستان میں اتنا ٹیکس اکٹھا کیا جاسکتا ہے۔ آج کل حکومت اور وہ سیاست دان بھی جو حکومت سے باہر ہیں، خوشحال پاکستان کا خواب دیکھ (دکھا) رہے ہیں۔ تاہم ان میںسے کوئی بھی ٹیکس کے نظام کو درست کرنے کی بات نہیںکرتا ، حالانکہ اس کے بغیر کچھ بھی نہیںہوسکے گا۔ موجودہ نظام میں غریب مزید غریب ہوتے جائیں گے جبکہ دولت مند افراد کے بینک بیلنس میں اضافے کا سلسلہ جاری رہے گا یہاں تک کہ لوگ جمہوریت سے اکتا جائیںگے۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے، ابھی بھی وقت ہے کہ درست فیصلے کیے جائیں اور ان فیصلوں پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو حکومت کو کسی لانگ یا شارٹ مارچ کا خطرہ نہیں رہے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں