ایف بی آر:ایک ناکام ادارہ

پچھلے چند سال فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) کی بدترین کارکردگی کے گواہ ہیں۔چاہے ٹیکس اکٹھا کرنا ہو ،ٹیکس کا دائرہ کار پھیلانا ہو یا ٹیکس گزاروں کی تعداد بڑھانا ہو ،ہر شعبے میں اس کی ناکامی اور زبوں حالی نمایاں نظر آتی ہے ۔
اس پر افسوس کا مقام یہ کہ ہمارے وزیر خزانہ نے اس صورت حال کو تسلّی بخش قرار دیا ہے ...کیا صرف اس لیے کہ آئی ایم ایف سے مزید قرضہ لیا جا سکے ؟ عوام سے دروغ گوئی اور قوم کو زیربار کرنے کے لیے ایسے جھوٹ اور حربے حفیظ شیخ اور شوکت عزیز بھی یہ کہہ کر استعمال کر چکے ہیں کہ پاکستان کی معیشت اپنے پورے آب و تاب کے ساتھ ترقی کی راہ پر گامزن ہے جب کہ درحقیقت کسی نے بھی اس ملک کی 8 کھرب روپے کی ٹیکس صلاحیت پر توجہ ہی نہیں دی۔ وجہ یہ ہے کہ اگر ایسا کیا تو اس کی زد میں وہ ارب پتی آجائیں گے جو تاحال اپنے ٹیکسز کا بوجھ غریب عوام کے کندھوں پر لادے ہوئے ہیں لیکن ایک ایسی حکومت ،جو تاجروں ، سول اور افسر شاہی اور بد عنوان سیاست دانوں پر مشتمل ہے ،ایسا کبھی بھی نہیں چاہے گی کہ ان کے حامی طبقات اور مفاد پرست معاونین ان سے ناراض ہو جائیں ۔
2013ء میں ایف بی آر کو انکم ٹیکس کے فقط 8 لاکھ 40ہزار گوشوارے وصول ہوئے جب کہ 32لاکھ افراد کے پاس نیشنل ٹیکس نمبر (NTN)ہیں۔نادرا کے مطابق ایسے افراد جو بڑے شہروں کے متمول رہائشی علاقوں میں قیام پذیر ہیں،جن کے بینکوں میں درجنوں کھاتے ہیں اور جو اکثر بیرون ملکوں کے دورے کرتے ہیں لیکن پھر بھی ان کے پاس این ٹی این نہیں ،ان کی تعداد 30 لاکھ کے قریب ہے ۔
ایسے نادہندگان جنہوں نے آمدن ٹیکس کے گوشوارے جمع نہیں کروائے ،ان میں ایف بی آر کے 1050ملازمین کے علاوہ بڑی تعداد قومی و صوبائی سرکاری ملازمین ، ججز، منتخب نمائندگان اور سکیورٹی افسران وغیرہ کی ہے۔قابل غور بات یہ ہے کہ 2009ء میں حاصل کردہ گوشواروں کی تعداد تقریباً 13لاکھ تھی گویا گوشواروں کی تعداد میں اوسطا ًسالانہ 7فیصدکمی واقع ہوئی ۔
ایف بی آر حاصل شدہ ٹیکس اور ٹیکس گزاروں کی بابت غلط اعدادوشمار پیش کرتا رہتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ یہ ادارہ تمام قابل ٹیکس افراد سے گوشوارے لینے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔اخباری خبروں کے مطابق ایف بی آر نے 25جولائی 2014ء تک انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کی دفعہ 114 (آمدن کے گوشواروں کی طلبی) کے تحت ایک لاکھ 20ہزار نوٹس جاری کئے جب کہ صرف 17ہزار نادہندگان نے اس کے جواب میں گوشوارے جمع کر ائے۔باقی نادہندگان میں صرف 38ہزارکو دفعہ122 سی کے تحت نوٹس جاری کئے گئے اور تا حال صرف 28ہزار کیسز میں عارضی طور پر 11 ارب کا ٹیکس عائد کیا گیا ہے جس میں سے صرف 306 ملین روپے اکٹھے ہوئے۔ کیا اب بھی کسی کو مزید کسی ثبوت کی ضرورت ہے کہ ایف بی آر کس قدر نا اہل اور ناکام ادارہ بن چکا ہے ؟
ایف بی آر کی افسوسناک کارکردگی کا اندازہ ٹیکس اور قومی پیداوار (GDP) کی شرح سے بھی لگایا جا سکتا ہے جو پچھلے دس برسوں میں 13فیصد سے گر کر 8.2فیصد تک آ گئی ہے ۔1991-92ء سے ایف بی آر کا بیشتر دارومدار ود ہولڈنگ ٹیکس پر ہے جو 2013-14ء کے تمام حاصل شدہ ٹیکس کا 54فیصد ہے۔اس کے علاوہ لوگوں نے ایڈوانس ٹیکس کے ضمن میں36فیصد ادا کیااس کا مطلب یہ ہوا کہ اپنی کوششوں سے افسران نے صرف 10فیصد ٹیکس اکٹھا کیا ۔صرف یہی ایک حقیقت ایف بی آر کی غیر تسلّی بخش کارکردگی پر سے پردہ اٹھانے کے لیے کافی ہے اور یہ کہنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ یہ ادارہ مکمّل طور پر ناکارہ ہو گیا ہے۔کیوں کہ اس کا تمام تر زور موجودہ ٹیکس گزاروں ،جو باقا عدگی سے گوشوارے جمع کرواتے ہیں، پر ہی چلتا ہے اور انہی کو زیرعتاب کیا جاتا ہے ۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ ایف بی آر کی جگہ نیشنل ٹیکس اتھارٹی کی تشکیل کی جائے۔جس کی تفصیل 22جون 2014ء کو معاصر اخبار میں بیان کی گئی ہے ۔
وزارت خزانہ کے ماہرین اور ایف بی آر کے عالی افسران اس بات پر مصر ہیں کہ پاکستان میں ٹیکس کا دائرہ کار انتہائی تنگ ہے جس کی وجہ سے ٹیکس کا متعین شدہ ہدف حاصل کرنے میں دقّت ہوتی ہے جب کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے ۔
براعظم ایشیا میں پاکستانی قوم پر سب سے زیادہ ٹیکس مسلّط کیا گیا ہے۔ ٹیکس گزاروں کی بنیاد ان لوگوں پر بھی مشتمل ہے جن کی آمدن پر ٹیکس قانونی طور پر لگنا ہی نہیں چاہیے اور ان میں وہ افراد بھی شامل ہیں جن کا ٹیکس پہلے ہی کٹ جانے کی وجہ سے مزید ٹیکس نہیں لگتا ۔یہ عموما ًگوشوارے داخل نہیں کرتے ۔
قومی اور بین الاقوامی میڈیا پاکستانی قوم کو ٹیکس چور قرار دینے میں پیش پیش ہیں۔ بیشک 2013ء میں 840,000گوشوارے وصول ہوئے مگر حقیقتاً ٹیکس دینے والوں کی تعداد کم از کم 50 ملین ہے جن میں مندرجہ ذیل بھی ہیں: 
1۔موبائل فون استعمال کرنے والے جن کا ٹیکس پہلے ہی کاٹ لیا جاتا ہے ۔
2۔بجلی کا تجارتی میٹر استعمال کرنے والے۔
3۔بینک اکاؤنٹس پر حاصل شدہ نفع پر 10فیصد ٹیکس دینے والے ،چاہے ان کی سالانہ آمدن ٹیکس کے قابل ہو یا نہ ہو ۔
پاکستان کی آبادی کا تجزیہ بتاتا ہے کہ 43فیصد افراد 15سال سے کم عمر کے ہیں جن میں بیشتر کی قابل ٹیکس آمدن نہیں اور تقریباً40 ملین افراد کا تعلق دیہی علاقوں سے ہے جن کی آمدن بہت کم ہے لہٰذا ایک اندازے کے مطابق 20 ملین افراد ایسے ہوں گے جو سالانہ کم از کم قابل ٹیکس (چار لاکھ روپے )آمدنی کماتے ہیں۔ چبھتی حقیقت یہی ہے کہ پاکستان کے غربا نہ صرف بلاواسطہ ٹیکس ادا کرتے ہیں بلکہ بالواسطہ ٹیکس بھی (جو انکم ٹیکس کے قانون کے تحت دفعہ 148 سے 156اور دفعہ 234سے 236دیتے ہیں)۔ اس کا مطلب ہے کہ ماسوائے حکمران اشرافیہ کے،پاکستان کے عوام اپنی حیثیت سے بڑھ چڑھ کر ٹیکس ادا کرتے ہیںجب کہ آنے والی متواتر حکومتوں نے بدلے میں عوام کو بنیادی سہولتوں سے محروم رکھا ہے اور ان کی جان و مال کی حفاظت کرنے سے قاصر رہی ہیں۔
وقت آ چکا ہے کہ ایف بی آر کا مکمل طور پر خاتمہ کر کے بلواسطہ اور بلاواسطہ ٹیکس کے زمرے میں طے شدہ ٹیکس متعارف کروایا جائے، اس سے نہ صرف ٹیکس کے حصول میں خاطرخواہ اضافہ ہوگا بلکہ پاکستانی عوام کو ایک بوسیدہ، نااہل اور جابرانہ ٹیکس وصولی کے ادارے سے نجات مل جائے گی ۔
ہمارا اصل ہدف تیز معاشی ترقی اور نوجوانوں کے لیے ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنا ہونا چاہیے ۔محاصل میں اضافہ اس کا فطری ردعمل ہو گا جو ریاست اور عوام دونوں کو خوشحالی کے راستے پر گامزن کر دے گا۔ظالمانہ اور غیرمنصفانہ ٹیکس کا نظام کسی طور پر بھی ہمارے مسائل کا حل نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں