ناقابلِ اصلاح اشرافیہ طبقہ

غریب اور بے یارو مدد گار ووٹروں ، جن میں سے اکثر کو حالیہ سیلاب سے آنے والی تباہی کا بھی سامنا ہے، کئی دن تک پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ہونے والے سیاسی نمائندوں کی دھواں دھار تقریریں سن کر اس نتیجے پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتے کہ موجودہ نظام صرف استحقاق یافتہ طبقے کے مفاد کا ہی تحفظ کرتا ہے۔ اسے عام شہریوں سے کوئی سروکار نہیں ۔ کسی کے ذہن میں اگر اب تک کوئی شبہ تھا تو رفع ہوچکا ہو گا کہ اس ملک کے وسائل ان کے لیے نہیں ہیں۔ ریاستیں امیر بھی ہوتی ہیں اور غریب بھی، لیکن جو چیز پاکستانی عوام کو سب سے زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے وہ اراکین ِ پارلیمنٹ کی ان کی مشکلات، مصائب اور تکالیف سے بے حسی اور ان کو ان کے حال پر چھوڑ کر موج مستیاں کرنے کی پالیسی ہے۔عوام سے غلطیاں بھی ہوجاتی ہیں اور قانون شکنی کا ارتکاب بھی انسانوں سے ہی ہوتا ہے لیکن اس سے زیادہ کسی قوم کی توہین اور کیا ہوگی کہ اُسے اپنے ہی وطن میں ''گھس بیٹھیے‘‘ اور ''خانہ بدوش‘‘ قرار دیا جائے؟
جمہوریت اور آئین کے نام پر حکمران طبقہ عوام کے نہ صرف حقوق غصب کرتا ہے بلکہ ٹیکس دہندگان کی رقم پر عیش و عشرت کی زندگی بھی بسر کرتا ہے۔ان کے ہاتھوں میں دولت اور طاقت کے ارتکاز اور مزیدوسائل کو کنٹرول کرنے کی ہوس کی وجہ سے اداروں میں تصادم ہوتا ہے۔ اس سے ریاست کی جڑیں کمزور ہوتی ہیں۔ یہ چیز کچھ اہم عمارتوں کے سامنے عوامی احتجاج سے کہیں زیادہ سنگین ہوتی ہے۔ نواز شریف کی عمران خان اور طاہرالقادری کے ساتھ محاذآرائی کو اسی پسِ منظر میں دیکھنا چاہیے۔ یہ درست ہے کہ تاحال مطلوبہ استعفیٰ نہیں ملا لیکن دھرنوں کی احتجاجی سیاست کم از کم کچھ اہم معاملات، جیسا کہ اشرافیہ طبقے کی طرف سے ٹیکسز کی عدم ادائیگی، بددیانتی، اقرباپروری اور دھاندلی، کو منظر ِ عام پر لے آئی ہے۔ یہ طبقہ ٹیکس کی چھوٹ سے فائد ہ اٹھاتا ہے جبکہ غریب افراد، جن کو ایک ایک چیز خریدتے ہوئے ٹیکس اداکرنا پڑتا ہے، بھوک، بیماری ، سیلاب اور دیگر قدرتی آفات سے مرجاتے ہیں۔ عمران اور ڈاکٹر قادری ان معاملات کو اپنی روزانہ کی جانے والی تقریروں میں اجاگر کررہے ہیں جبکہ اراکین ِ پارلیمنٹ وہی جمہوریت اور آئین کے تحفظ کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں۔ 
یہ ایک حقیقت ہے کہ زیادہ تر حاصل شدہ ٹیکسز اشراف کی عیش و عشرت، جیسا کہ پر تعیش بنگلے، مہنگی گاڑیاں، باوردی ملازموں کی فوج، غیر ملکی دورے وغیرہ پر صرف ہوجاتے ہیں۔ بعض اہم شخصیات کے غیر ملکی دوروں میں اہل ِ خانہ بھی بڑی تعداد میں ساتھ ہوتے ہیں۔ ان کی قانون شکنی کے خلاف نہ کوئی ایجنسی کارروائی کرتی ہے اور نہ ہی انہیں کسی عدالت کا خوف ہے۔ اشراف کے اس رویے کی وجہ سے تمام نظام اپنی ساکھ کھو چکا ہے او ر لوگوں کا حکومتی نظم و نسق اور انصاف کے اداروںپر سے اعتماد جاتا رہا ہے۔ لاکھوں افراد، جن کی آمدنی اتنی کم ہے کہ ان پر انکم ٹیکس کا اطلاق نہیںہوتا لیکن وہ عام چیزیں، جیسا کہ موبائل فون کارڈز، خریدتے ہوئے 14 فیصد انکم ٹیکس ادا کررہے ہیں۔ ان کی محنت سے کمائی ہوئی رقم سے حاصل کردہ فنڈز سے اراکین ِ پارلیمنٹ کو اربوں کے ڈیلی الائونسز اور فنڈز دیے جاتے ہیں اور اس کے باوجود عوام کو ہی ''گھس بیٹھیے ‘‘ کہا جاتا ہے۔ افسرشاہی، وزراء، مشیر اور سینٹر اور قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے دیگر ممبران کو اربوں روپے کی سہولیات حاصل ہوتی ہیں، لیکن یہ استحقاق یافتہ طبقہ ان وسائل اور حاصل کردہ پلاٹوں پر ایک دمڑی انکم ٹیکس ادا کرنے کا بھی روادار نہیں۔ ایسا کرتے ہوئے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کی شق 13(11) کی کھلی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ 
یہ بات قابل ِ ذکر ہے کہ پی پی پی کی سابق حکومت کے دوران بورڈ آف ریونیو کے ایک رکن نے اُس وقت کے فنانس منسٹر کو لکھا کہ حاصل کردہ سہولیات پر کچھ طاقت ور اور بااثر اراکین کی طرف سے ٹیکس ادا نہ کرنے کے رجحان کی وجہ سے ریونیو کو بھاری خسارے کا سامنا ہے ۔ ان سہولیات پر ٹیکس ادا نہ کرنا قانون کی صریحاً خلاف ورزی تھی ، لیکن، جیسا کہ توقع تھی، وزیر ِ موصوف کی طرف سے کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ آج بھی صورت ِحال جوں کی توں ہے۔ افسوس ناک با ت یہ ہے کہ اشرافیہ طبقہ نہ صرف عوام کی رقوم پر پلتا ہے بلکہ خود کوئی بھی ٹیکس ادا کرنے کی زحمت نہیںکرتا ۔ اس ضمن میں مختلف ادوار میں قائم ہونے والی حکومتوں کا رویہ ایک سا ہی ہوتا ہے۔ 
اس مسئلے کا ایک حل تو یہ ہے کہ تنخواہ کے پیکج اور سہولیات پر ٹیکس کو منہا کرلیا جائے۔ اس سے بھی قومی خزانے میں ایک بھاری رقم جمع ہوسکے گی۔استحقاق یافتہ طبقے کا باہم گٹھ جوڑ ان تمام مسائل کی وجہ ہے۔ بدترین بات یہ ہے کہ ان کا کوئی احتساب نہیںہوسکتا ۔ وہ ریاستی ادارے، جن کے بارے میں فرض کیا جاتا ہے کہ وہ ان معاملات پر نظر رکھتے ہوئے قانون شکن عناصرکو سزا دیںگے چاہے ان کی حیثیت کتنی ہی بلند کیوں نہ ہو، خود اس کھیل میں شریک ہیں۔ نیب اور ایف بی آر کو ان طاقتور طبقوںسے واجبات وصول کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ شاید وہ ایسا کرنے کے لیے تیار بھی نہیں۔ 
سنگدلی کی انتہاہے کہ حکمران طبقہ ہر آن عوام کو مزید بھاری ٹیکسز کے بوجھ تلے دبانے کے لیے قانون سازی کرتا رہتا ہے لیکن وہ خود اپنے لیے ٹیکس کی چھوٹ کے دروازے کھلے رکھتے ہیں۔ جمہوری دنیا میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔تمام مہذب دنیا میں اپنے ریاستی واجبات ادا نہ کرنا سنگین ترین جرم شمار کیا جاتا ہے ، لیکن ہمارے اشراف ماتھے پر مکھی بھی نہیں بیٹھنے دیتے۔ 2013ء میں چارج سنبھالنے کے بعد اپنے پیش رووں کی طرح، موجودہ چیئرمین ایف بی آر نے بھی وعدہ کیا تھا کہ تین ملین دولت مند افراد کو ٹیکس کے دائرے میں لایا جائے گا۔ تاہم نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات، ان بااثر لوگوںکو ٹیکس ریٹر ن فائلیں جمع کرانے پر مجبور نہیں کیا جاسکا۔ چونکہ امیر اور طاقتو ر افراد ٹیکس ادا نہیں کرتے اس لیے عام لوگ بھی سوچتے ہیں کہ وہ جبری سیلز ٹیکس ادا کیوں کریں۔
ملک میں امن و امان کی خراب صورت ِحال میں حکومت عوام کو جان و مال کا تحفظ دینے میں ناکام ہو چکی ہے۔ اگر عام لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں توا س کے عوض حفاظت اُنہیں ملتی ہے جو ٹیکس ادا ہی نہیں کرتے۔ عوام کو صحت ، تعلیم اور آمدو رفت کی بنیادی سہولیات حاصل نہیں لیکن ان سے حاصل کردہ رقم پر اشرافیہ بیرونی ممالک سے علاج کراتے ہیں،ا ن کے بچے مہنگی ترین درس گاہوں میں پڑھتے ہیں اور غیر ملکی سفر ان کا معمول ہے۔ یہ صورت ِحال کب تک چلے گی؟اگر جمہوریت ٹیکسز کے نظام کی اصلاح نہیںکرسکتی تو لوگ کسی انقلاب کا راستہ دیکھنے میں حق بجانب ہیں۔ ممکن ہے موجودہ دھرنوںسے انقلاب نہ آئے لیکن ایک کسک باقی رہ جائے گی جو آنے والے دور میں زخم کی خوفناک شکل اختیار کرجائے گی۔ ابھی بھی وقت ہے، ان معاملات کو فتح سمجھنے کی بجائے مسائل کا حل تلاش کیا جائے ورنہ بہت دیر ہوجائے گی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں