انصاف اور جمہوریت

ایک حقیقی جمہوری نظام میں انتخابی عمل عوام کو سیاسی عہدے رکھنے والوں پر فوقیت دلاتا ہے، لیکن اگر انتخابات کے نتیجے میں حکمرانوں کی آمریت ملک پر مسلط ہوجائے (جیسا کہ پاکستان میں ہوتا ہے)تو یہ جمہوریت کی نفی ہوگی۔ حکمرانوں کی طرف سے کچھ افراد یا دھڑوں کی بے جا حمایت، اقرباپروری، جبر، آمریت، ہٹ دھرمی، ریاستی قوت کا بے پناہ استعمال، انسانی حقوق کی پامالی، اقلیتوں پر جبراور میڈیا پرسنسر شپ کے پہرے کسی جمہوری نظام کا حصہ نہیں ہوسکتے اور نہ ہی ان کے ہوتے ہوئے جمہوریت کی آبیاری ممکن ہے۔ اصل چیز جمہوریت کی روح ہے نہ کہ محض ڈھانچہ ۔ انتخابات صرف جمہوریت کے فریم ورک کا کام کرتے ہیں لیکن یہ اصل جمہوریت ، جس کی بنیاد آئین اور قانون کی بالا دستی پر ہو، کی ضمانت نہیں دیتے۔ آمریت پسندحکمرانوں کوصرف مضبوط، فعال اور بے خوف عدلیہ کے ذریعے ہی قانون کے تابع لایا جاسکتا ہے، اس لیے جمہوری نظام کی صحت کے لیے قانون کی سربلندی ضروری ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں عدل و انصاف کی روایت زیادہ توانا نہیں۔ کسی بھی اور چیز سے زیادہ اس نے جمہوریت کو نقصان پہنچایا ہے۔ 
اس بات پر اتفاق ِ رائے پایا جاتا ہے کہہ ہمارے نظامِ انصاف کو بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں ہمارے ہاں یہ سوالات سراٹھاتے دکھائی دیتے ہیں:
1۔ نظامِ انصاف کا تحفظ کون کرے گا؟ 2۔ عدلیہ میں اصلاحات کے لیے کس چیز ضرورت ہے ؟ 3۔ ٹیکس کے نظام میں بہتری کیسے لائی جائے گی؟ 4۔ ہم اپنے لیگل اور جوڈیشل سسٹم کو جدید خطوط پر کیسے استوار کرسکتے ہیں؟ 5۔ بے لاگ اور غیر جانبدار احتساب کیسے ہوگا؟ اگر ہم پہلے سوال پر غور کریں تو دکھائی دے گا کہ بعض اداروں اور طبقوں کو موجود نظام فائدہ پہنچاتا ہے ، اس لیے وہ اس میں کسی بھی تبدیلی کے راستے میں مزاحم ہوں گے۔ چونکہ ہمارے ہاں سیاست دان اہم اداروں کے سربراہوں کے طور پر اپنی مرضی کے افراد لگاتے ہیں، اس لیے وہ بھی اس گلے سڑے بوسیدہ نظام میں کسی مثبت تبدیلی کے روادار نہیں ہوںگے۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ ہمارا لیگل سسٹم صرف دولت مند اور طاقتور افراد کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ سابق دور (2008-13ء) میںپارٹی کے وفاداروں کو اعلیٰ عہدوں پر فائز کیاگیا ۔ ان میں سے بہت سے غیر فعال وکلا تھے جو کئی برسوں سے پریکٹس چھوڑچکے تھے۔ اس کے بعد نواز شریف حکومت نے بھی یہی رویہ اپنایا۔ اٹھارویں ترمیم کے تحت لائی گئی اصلاحات ، جو من پسند ججوں کی تعیناتی کا سد ِ باب کرتی تھی، نے عدلیہ کو برہم کردیا، چنانچہ پارلیمنٹ کو اسے واپس لینا پڑا۔ 
ہزاروں کیسز التوا کا شکار ہیںکیونکہ عدل و انصاف فراہم کرنے والا شعبہ اپنی مطلوبہ فعالیت سے کم کام کررہاہے۔ معاشرے میں مقدمات کی بھرمار اس کی خرابیوں کی عکاسی کرتی ہے۔ کیسز کی وجوہ کے خاتمے کی بجائے صرف علامات پر ہی توجہ دی جارہی ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ عدالتوں میں جج حضرات کی تعداد میں جتنا مرضی اضافہ کرلیں، معاشرے کی اصل بیماری دو ر نہیںہوگی ، جو کہ سماجی اور معاشی انصاف کی کمی ہے۔ انصاف کی کمی جمہوری عمل کے لیے زہر قاتل ہے۔ اب ستم ظریفی یہ ہے کہ حکومتی نظم و نسق کے بغیر یہ مسائل ٹھیک نہیں ہو سکتے۔ اس طرح دیکھا جاسکتا ہے کہ جمہوریت کی کامیابی کے لیے ایک طاقتور عدلیہ کی ضرورت ہے۔ 
9مارچ2007ء کو امید کی ایک کرن ابھری جب چیف جسٹس پاکستان نے طاقتور فوجی آمر کے سامنے حرف ِ انکار ادا کیا۔۔۔ باقی تاریخ ہے۔ ملک کے دوربام پر عدلیہ کی آزادی اور آئین اور قانون کی حکمرانی رقم تھی۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنھوں نے وہ تحریک دیکھی، لیکن افسوس، آنے والوں دنوں میں وہ جوش و جذبہ سرد پڑتاگیا ، عوام کی امیدیں چکنا چور ہوگئیں۔شعبہ عدل و انصاف سے وابستہ توقعات ماند پڑنا شروع ہوگئیں ۔ اس مایوسی کی اصل وجہ یہ تھی کہ ایک شخص، چاہے وہ کتناہی طاقتور کیوں نہ ہو،اُس کے پاس جادوکی چھڑی نہیںہوتی کہ وہ تمام سیاسی اور معاشی مسائل کو بیک جنبشِ قلم حل کرسکے،بلکہ عوام کی مایوسی کی وجہ اس حقیقت کا ادراک تھا کہ بعض بدعنوان سیاست دان اور سول اور ملٹری افسران کے درمیان گٹھ جوڑاُن کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتا ہے۔9مارچ 2009ء کے بعد عوام نے دیکھا کہ صدر زرداری اور نوازشریف، ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کررہے ہیں اوراُنہیں اہم اداروں کا بھرپور تحفظ حاصل ہے۔عوام کی بے چینی کے باوجود اُنہیں ایماندار اور انتخابات میں حصہ لینے کے اہل قرار دیاگیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان کو دو مرتبہ بحال کرانے کے لیے پاکستانی عوام نے زبردست ، لیکن پرامن، احتجاجی تحریک چلائی تھی، تاہم چالاک اور گھاگ سیاست دانوں نے اُس تحریک کو یرغمال بنالیا۔شریف برداران کے خلاف جلدی سے تمام مقدمات ختم کردیے گئے۔ یہ سیاست نہیں، ہماری تاریخ ہے۔ جب 5جون 2009ء کو سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے رچرڈ ہالبروک سے ملاقات کی تو دیکھنے والوں کو بہت کچھ نظر آیا۔ اس ملاقات نے قانون کی حکمرانی پر بہت سے سوالات اٹھا دیے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہالبروک ہمارے داخلی معاملات میںبے دھڑک مداخلت کرتے تھے ، تاہم اُنہیں کسی بھی قیمت پر ہمارے چیف جسٹس سے ملنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے تھی کیونکہ چیف جسٹس کے سامنے بہت سے ایسے مقدمات تھے جن کا تعلق امریکہ کی اس خطے میں مداخلت سے تھا۔۔۔ ڈرون حملے، گم شدہ افراد، انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی، وغیرہ۔ 
یہ ایک جانا پہچانا محاورہ ہے کہ انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے۔ نائن الیون کے بعد سی آئی اے کی طرف سے لوگوں کے اغوا اور ماورائے عدالت تشدداور قید کے واقعات عام تھے۔ پاکستان میں یہ بات عام تھی کہ یہاں ''ڈک چینی اسکواڈ‘‘ فعال ہے۔ تاہم سوچنے کی بات یہ تھی کہ جب غیر ملکی ایجنٹ ملکی قوانین کو پامال کررہے تھے‘ عدل فراہم کرنے والے کہاں تھے ؟اگرکوئی ملکی یا عالمی قانون کی خلاف ورزی کا ارتکاب کرتاہے تو اُسے آئین کے آرٹیکل 10-A کے تحت سزا ملنی چاہیے ۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ شخص امریکی ہو یا کسی اور ملک کا؟ کیا ہمارے ملکی قانون کی کوئی حیثیت نہیں؟ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں کیا امریکہ کو آزادی دی جاسکتی تھی کہ وہ ہمارے ملکی قانون کی جیسے چاہے پامالی کرے؟ اس کی بجائے امریکہ کو اُن تمام گرفتارشدہ پاکستانیوں کو ہمارے حوالے کرنا چاہیے تھا جو اُس کی تحویل تھے۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ وہ ہمیں ان کے خلاف ثبوت فراہم کرتا تاکہ ہم ان کو سزاسناسکتے۔ تاہم اس کی بجائے اس سرزمین کو ''فری فار آل‘‘ بنا دیا گیا۔
یہ دوٹوک حقیقت ہے کہ عدلیہ کسی بھی ملک کے آئین اور قانون کی محافظ ہوتی ہے۔ اسی سے جمہوری روایات مضبوط ہوتی ہیں، لیکن ہمارے ہاں صورتحال مجموعی طور پر مایوس کن محسوس ہوتی ہے۔ وہ معاشرے جو قواعد وضوابط کے بغیر کام جزوقتی پالیسیوں کے مطابق کام چلاتے ہیں، جمہوریت کا حق ادا نہیں کرسکتے۔ آئین کی بالادستی کے لیے ضروری ہے کہ سرکاری افسران اور عوامی نمائندے قانون کی پاسداری کریں۔ اپنے اختیارات سے ناجائز فائدہ اٹھانا جمہوریت کی نفی ہے۔ اس کے علاوہ ریاست اور شہریوں کے درمیان تعلق بھی آئین کی بالا دستی کو یقینی بناتا ہے۔ ہمیں عدلیہ میں سیاسی مداخلت کا راستہ بند کرنا ہوگا تاکہ ملک حقیقی جمہوریت کی طرف بڑھ سکے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں