پٹرول کا بحران‘ بدعنوانی‘ بے حسی اور عوام

معاشرے پر چھائی قنوطیت کا انتہائی اظہار اُس اجتماعی رویے سے ہوتا ہے جب اُس معاشرے میں نااہلی، بدعنوانی ، نالائقی اور اقرباپروری کومعمول سمجھ کر گوارا کرلیا جائے۔ ہمارے معاشرے میں ایسا ہی ہے۔ حالیہ دنوں جب پنجاب میں پٹرول کا شدید بحران شروع ہوا تو اس کے پیچھے یہ تمام خرابیاں سراٹھاتی دکھائی دیں۔ بدقسمتی سے تقریباً سات دہائیوں سے پاکستانی ووٹروں کی اکثریت نے انہی لوگوں کو، جو ملک کی موجودہ صورت ِحال کے ذمے دار ہیں، سیاسی حمایت سے نوازا ۔ 
وزیرِ پٹرولیم، شاہد خاقان عباسی، نے گرچہ اس بحران کی ذمہ داری قبول کرلی لیکن اُنھوں نے اس کے پیچھے اصل کرداروں کو بے نقاب نہیں کیا۔ وزیر ِ خزانہ، اسحاق ڈار، نے پٹرول کے بحران کو'' حکومت کے خلاف سازش‘‘ قرار دیا ، لیکن بوجوہ ایسے سازشی عناصر کا نام لینے سے گریز کی پالیسی ہاتھ سے نہ جانے دی۔ وزیر ِ داخلہ، چوہدری نثار علی خان، نے بھی ایسی ہی تشویش کا اظہار کیا۔ دیگر وزراء کی طرف سے بھی بیانات سامنے آئے لیکن ان میں سے کسی نے بھی کھل کر کوتاہی، نااہلی اور بدعنوانی کی نشاندہی نہیں کی۔ ملک کے چیف ایگزیکٹو اور کابینہ کے سربراہ، وزیر ِ اعظم، نے عوام کی ابتلا پر دکھ اور نارضی کا اظہار تو کیا لیکن اُنھوں نے بھی نظامِ حکومت میں موجودہ خرابیوں کو دور کرنے کی زحمت نہیں کی۔۔۔ دور کرنا تو کجا، نشاندہی تک کی توفیق نہیں ہوئی۔ سازش کے ذکر، جس کی سدابہار قربان گاہ پر ہر خامی کو چڑھا دیا جاتا ہے، کے بعد کیسی تحقیق، کون سا استعفیٰ، کیسی ذمہ داری کا بوجھ؟یہ زندہ اور مہذب اقوام کا رویہ ہے، ہمیں اس سے کیا سروکار؟اگر ایسابحران کسی حقیقی جمہوری ملک میں سراٹھاتا، تو حکومت کوتاہی کو تسلیم کرتی اور عوام سے معافی مانگ کر گھر چلی جاتی۔ ملک میں عام انتخابات کا اعلان کردیا جاتا؛ تاہم پاکستانی حکمرانوں سے ایسی ذمہ داری کی توقع کرنا عبث ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ وہ ایسے افسوس ناک واقعات کے بعد بھی نہایت طمانیت سے حکومت کرسکتے ہیں۔ عوام کو پہنچنے والے ایسے ، یا اس سے بھی سنگین صدمات، اُن کے ضمیر کو جگانے میں بری طرح ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ 
ایسے بحرانوںکے باوجود حکمرانوں کا پریشان نہ ہونے اور نہ ہی ان کی وجہ بننے والی کوتاہیوں، جو یقینی طور پر نااہل افراد کو اعلیٰ عہدوں سے نوازنے کی پالیسی، اقربا پروری، خوشامد پسندی، بدعنوانی اور سب سے بڑھ کر ، بے حسی ، کو دور کرنے کی کوشش نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ اُنہیں ہر حال میں ووٹ مل جائیںگے۔ چنانچہ اُنہیں خود کو اور اپنی روش ، بلکہ کج روی، کو بدلنے کی کیا ضرورت ؟ 
سنگدل اشرافیہ کی گرفت میں جکڑے ہوئے پاکستان میں چندہاتھوں میں دولت اور اختیار کا ارتکاز بڑھتا جارہا ہے۔دفاعی اداروں، سول سروس، عدلیہ، بدعنوان سیاست دانوں ، طاقتور مذہبی رہنمائوں،بے رحم جاگیرداروں ، لوٹ مار میں مصروف سرمایہ داروں، قبضہ مافیا اور ریاست کے وسائل کو نقصان پہنچا کر بھاری نفع کمانے والوں کے گٹھ جوڑ سے قائم ہونے والی حکومتیں عوام کی کیا اور کیوں داد رسی چاہیں گی؟ ہاتھ آئے شکار پر کس کا دل نہیں پسیجتا؟ چنانچہ اس ٹولے کی وجہ سے ملک کو یکے بعددیگرے مختلف بحرانوں میںسے گزرنا پڑتا ہے۔ ایک ختم ہوتا ہے تو دوسرا آن موجود ہوتا ہے، تاہم حیرت اُس وقت ہوتی ہے جب عوام پھر انہی کو ہی ووٹ دے دیتے ہیں۔ ٹھیک ہے کہ ہر ظلم سہنے والا بغاوت کا علم بلند نہیں کرسکتا لیکن وہ ووٹ کا درست استعما ل کیوں نہیں کرتا۔ 
اس قنوطیت کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ہر طرف خرابیاں ہی خرابیاں ہیں۔ جب کوئی بچہ نوجوانی کی سرحد پر قدم رکھتا ہے تو اُسے علم ہوتا ہے کہ یہاں امتحانی پرچے لیک ہوجاتے ہیں، سنٹرز بک جاتے ہیں، وسیع پیمانے پر بوٹی مافیا سرگر مِ عمل رہتا ہے۔ اس سے پہلے اساتذہ بھاری فیس کے عوض ٹیوشن پڑھاتے ہیں۔ وہ طلبہ کو مجبور کرتے ہیں کہ اچھے نمبر لینے اور ''امتحان کے مطابق تیاری‘‘ کرنے کے لیے ان کی اکیڈمی میں لازمی داخلہ لیں ۔ اس کے بعد جب ایک عام شہری انکم ٹیکس ریفنڈ حاصل کرنا چاہے تو اُسے انکم ٹیکس افسر کو ٹپ دینا پڑتی ہے۔ پراپرٹی کی ٹرانسفرکے وقت علم ہوتا ہے کہ دنیا کے اس حصے میں پٹواری کا کیارتبہ ہے۔ ریاستی اداروں میں کچھ بھی درست نہیں، قصہ مختصر یہ کہ۔۔۔''سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے۔‘‘اس کی وجہ وہی بے حسی۔ 
ہماری روز مرہ کی زندگی میں بدعنوانی کی بہت سی مثالیں ہیں۔ انہیں لوگ ان اداروں کا معمول سمجھ کر قبول کرچکے ہیں۔ یعنی بعض محکموں کے بارے میں کام ہو تو یقین ہوتا ہے کہ رشوت دیے بغیر گزارہ نہیں۔ مثال کے طور پر کاروں کے کاروبار کی بات کرلیں۔۔۔۔ مقامی طور پر اسمبل کی گئی کاریں پریمیم قیمت پر کیوں فروخت کی جاتی ہیں؟ اس تمام کھیل میں کون اپنی جیبیں بھر رہا ہے؟ مقامی صنعت کو سہارا دینے کے نام پر پاکستانیوں کو کیوں مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ عشروں پرانے ماڈل کی کھٹارا کاریں بھاری قیمت پر خریدیں؟کیاکاریں فروخت کرنے والے رقوم اپنے اپنے ملک میں منتقل میں نہیں کرتے ؟
ہمارا معاشرے ہر صورت پر دولت مند ہونا چاہتا ہے، چاہے اس کا ذریعہ جائزہویا ناجائز۔ زیادہ ترافراد کوئی ہنر سیکھنے یا کسی میدان میں قابلیت حاصل کرنے کی بجائے ہرممکن طریقے سے دولت کمانا چاہتے ہیں۔ یہاں دولت کی بہت سی اقسام ہیں۔۔۔ آسان دولت، تیز رفتاردولت، غیر ملکی دولت، امریکی دولت(یہ دہشت کی درآمد برآمد سے حاصل ہوتی ہے)وغیرہ۔ اسلحہ، منشیات، بلیک مارکیٹنگ، رشوت، کک بیکس، ہنڈی، حوالہ کا ذکر ہی کیا، اب تو بہت سے نیک نام بھتہ خوری کا پیشہ اپنارہے ہیں۔ آپ کسی بھی طریقے سے رقم کمائیں اور پھر اسے بنک کے ذریعے وطن بھیج دیں۔ آپ کسی بھی منی ایکس چینج کمپنی کے ذریعے رقم بھجوائیں تو آپ کو انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے 111(4) سیکشن کا تحفظ حاصل ہوگا۔ اس رقم کا بے دریغ استعمال ہمارے معاشرے کے ہر 
شعبے میں دکھائی دیتا ہے۔ عام گلیوں میں مہنگی ترین گاڑیاں دکھائی دیتی ہیں جبکہ ہماری مارکیٹیں سمگل شدہ مال سے بھری ہوئی ہیں۔ 
پاکستانیوں کا سب سے بڑا خبط راتوں رات دولت مند ہونا ہے۔ دولت کی اس دوڑکی وجہ سے معاشرہ‘ حکومتی شخصیات کی بدعنوانیوں کا عادی ہوچکا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے میں نے کراچی کے ایک نوجوان صنعت کار سے پوچھا ،''تم دولت کیسے کماتے ہو؟‘‘ تو اُس نے نہایت مختصرلیکن بلیغ جواب دیا۔۔۔''بہت آسانی سے‘‘۔ پھر اُس نے اپنی آسانی کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا۔۔۔''ہم ہر وہ چیز درآمد کرتے ہیں جس کی حکومت کو ضرورت ہوتی ہے۔ ان سودوں میں اتنا منافع ہوتا ہے کہ اگر آپ چند ایک ڈیلز کرلیں تو زندگی بھر کچھ کرنے کی حاجت نہیں رہتی۔ آپ آرام سے بیٹھ کر کھاسکتے ہیں۔ ہم ایمانداری سے کام کرتے ہیں اور ضرورت مندوں کو ''حصہ ‘‘ دینا نہیں بھولتے۔۔۔۔ اسے عرفِ عام میں کک بیک کہتے ہیں۔‘‘دولت کمانے کا یہ وہ خطرناک رجحان ہے جس کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے نہ تو کوئی قانون ہے اور نہ ہی معاشرے کا اخلاقی دبائو۔ 
اس حقیقت کا افسوس ناک ترین پہلو یہ ہے کہ جو افراد، سیاستدان اور سرکاری افسران، جو ان خرابیوں کو روکنے کے ذمہ دار ہیں، اپنا حصہ وصول کرکے بیٹھ جاتے ہیں۔ یقینا جن افراد نے انتخابات میں سرمایہ کاری کی ہوتی ہے، وہ پیسہ کمائے بغیر اگلے انتخابات میں کیسے حصہ لے سکتے ہیں؟ چنانچہ معاشرے کی رگ وپے میں دوڑنے والے بدعنوانی کے زہر کے لیے کوئی تریاق دکھائی نہیں دیتا۔ پٹرول اور اسی طرح کے کچھ اور بحران اس زہرناک صورت ِحال کا وقتی اظہار ہیں۔ اصل گھائو بہت سنگین ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں