ترقیاتی کاموں میں منصوبہ بندی کا فقدان

جانداروں، خاص طور پر انسانوں اور جانوروں میں فطری طور پر زندگی کے لیے پلاننگ کرنے کی جبلت موجود ہوتی ہے۔ وہ مخصوص مقاصد حاصل کرنے کے لیے منصوبہ بندی کے تحت کام کرتے ہیں۔ بہت سے معاملات میں‘ اُن کاطریق ِ کار آسان اور سیدھا ہوتا ہے؛ چنانچہ اس کے لیے زیادہ سوچ بچار اور عرق ریزی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایسی منصوبہ بندی اور طے شدہ مقاصد کے حصول کے لیے بہت سی معلومات بھی دستیاب ہوتی ہیں۔ شہروں کی ترقی کے لیے بنائے جانے والے میگا پراجیکٹس کا شمار بھی ایسے ہی منصوبو ں میں ہوتا ہے۔ انہیں پیشہ ورانہ انداز میں بنایا جاتا ہے۔ کوئی شہر بھی ایسے منصوبوں کے بغیر تعمیر نہیں کیا جاسکتا۔
ایسے میگا پراجیکٹس کے لیے تربیت یافتہ ماہرین کی ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ چاہے یہ کوئی شارٹ ٹرم منصوبہ ہوجس کے فوری نتائج برآمد ہوسکتے ہوں ، یا برسوں بلکہ عشروں پر محیط طویل المدت پالیسی ہو جس کے نتائج دیر بعدسامنے آئیں۔ اس کے لیے عقلمند اور تربیت یافتہ افراد منصوبہ سازی کرتے ہیں۔ تاہم جہاں ایسی منصوبہ سازی نہیں کی جاتی اور اٹکل پچوانداز میں کام شروع کردیا جاتا ہے، وہاںبدانتظامی، افراتفری، بھاری اخراجات اور ان سب کی وجہ سے عوام کو پہنچنے والی تکلیف سب سے بڑھ کر ہوتی ہے۔
ایک اچھا پلانر بننے کے لیے سب سے پہلی ضرورت روایتی تعلیم ہے۔ اس کے بعد مہارت اور ہنر کا درجہ آتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پلاننگ ایک متحرک اورتخلیقی شعبہ ہے کیونکہ اس میں طے شدہ پیمانوں کے علاوہ فطری صلاحیتوں کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ یہ فطری صلاحیتیںہر شخص میں ایک جیسی نہیں ہوتیں۔ چنانچہ ہر پلانر ہر قسم کے حالات، مقاصد اور مواقع میں کام نہیں کرسکتا۔ ایک اربن پلانر بننے کے لیے کسی شخص کے لیے مندرجہ ذیل خوبیوں کاحامل ہونا ضروری ہے۔وہ شہر کے حجم، رقبے اور آبادی کے دبائو سے آگاہ ہو۔اس کے علاوہ اُسے شہر کی فطرت ، وہاں رہنے والے شہریوں ، ان کی عادات ، کام کی نوعیت، صحت اور تعلیم کے معاملات اور تفریح کی ضروریات سے واقف ہو۔وہ فیصلہ سازی کے عمل میں زیادہ سے زیادہ افراد کو شامل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ وہ جانتا ہو کہ اس نوعیت کے منصوبے ون مین شو نہیں ہوتے۔ شہری ضروریات کے علاوہ وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتوں کی نوعیت سے بھی باخبر ہو۔ اس کے علاوہ وہ زمین اور اس کی بابت قوانین کا بھی علم رکھتا ہو۔سب سے آخر میں وہ انفراسٹرکچر، معیشت، ٹرانسپورٹ اور دستیاب انسانی وسائل سے بھی آگاہ ہو۔ ان حقائق کی عملی آگہی اس کی تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ ہم آہنگ ہوکر اُسے بہترین پلانر بناتی ہے۔
پاکستان انوکھا ملک ہے یہاں چھوٹے بڑے، سبھی ترقیاتی کام بغیر کسی منصوبہ بندی کے سرانجام پاتے ہیں۔ ان میں عام طور پر کسی ایک شخصیت کی مرضی اور مشورہ کارفرما ہوتا ہے ۔۔۔یہ مرضی روزانہ کی بنیاد پر تبدیل بھی ہوسکتی ہے۔ اس ضمن میں پہلی بات یہ ہے کہ پہلے سے ہی ترقیاتی یافتہ علاقے کو مزید ترقی دینے کی کوئی منطق نہیں۔ ہاں، بہتری کی گنجائش ہمیشہ موجودرہتی ہے لیکن مکمل توڑ پھوڑ اور ادھیڑ بن کا نام ترقی نہیں ہوتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایک شہر ، جو کہ آباد ہوچکا ہوتا ہے، اُسے ارد گرد آبادیوں، کالونیوں اور مضافاتی علاقوں میں ہونے والی تعمیرات کے بوجھ تلے دباد ینا دانشمندی نہیں۔ اس طرح شہروں کے پھیلائو اور آبادی کے ارتکاز کا مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ جب اس کے اردگرد آبادیاں قائم کرنے کی صورت نکل آئے تو پھر دیہات اورچھوٹے قصبات سے لوگ بڑی تعداد میں آباد ہونے کے لیے آجاتے ہیں۔ یہ آبادیاں بغیر کسی پلاننگ کے قائم ہوجاتی ہیں، چنانچہ ان میں شہری سہولیات کا فقدان رہتا ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ شہر کو ترقی کے نام پر وسعت نہ دی جائے بلکہ اس میں موجود رہائشی کالونیوں کی حالت بہتر کی جائے۔درحقیقت ٹائون پلاننگ کے لیے دور رس سوچ بچار درکا ر ہوتی ہے۔ یہ کوئی بچوں کا کھیل نہیں کہ زمین پر اندھا دھند آبادیاں قائم کردیں اور پھر شہری جانیں اور شہر کے حاکم جانیں۔
اگر اپنے شہروں کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ کسی شہر کو ترقی دینے سے پہلے ہوم ورک نہیں کیا گیا۔ ہماری تعمیراتی افراتفری اور ناقص منصوبہ بندی کا اظہار ہمارے ہر شہر میں دکھائی دیتا ہے۔ قارئین جانتے ہیں کہ جیسے ہی کوئی سڑک تعمیر ہوتی ہے، بہت سے محکمے یکا یک خوابِ غفلت سے جاگ اٹھتے ہیں۔ ٹیلی فون، واسا، سوئی گیس، وغیرہ اسے ادھیڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے اپنے کاموں کے لیے صرف اس بات کا انتظار کررہے تھے کہ ایک مرتبہ یہ سڑک تعمیر کے مرحلے سے گزرجائے ، تو پھر وہ اس پر اپنے دست و بازو آزمائیں گے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ سڑک مہینوں اور برسوں تک کھدی حالت میں رہتی ہے لیکن اُس وقت یہ محکمے کچھ نہیں کرتے۔ بس ایک مرتبہ یہ مکمل ہوجائے تو پھر وہ اس پر پل پڑتے ہیں۔ اس سے وسائل بھی ضائع ہوتے ہیں اور عوام کو کوفت بھی ہوتی ہے۔ آج ہمارے شہروں کی سڑکیں ٹریفک سے کھچا کھچ بھری ہوئی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکمرانوں نے بوجوہ پبلک ٹرانسپوٹ کو نظر انداز کرکے اندھادھند سڑکیں فلائی اوور، انڈرپاس اور پل بناڈالے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے عوام نجی
گاڑیاں رکھنے پر مجبور ہیں۔ا س سے سڑکوں پر رش ہے۔ اب حکمران جوکچھ بھی کرلیں، سڑکوںسے رش ختم نہیںہوگا۔ جتنی بھی سڑکیں اور پل بنائیں گے، اتنی ہی ٹریفک بڑھتی جائے گی۔ اس مسئلے کا حل مناسب پلاننگ سے پبلک ٹرانسپورٹ کو ترقی دینا تھا، لیکن حکمرانوں کے لیے یہ بات سمجھنا پانی پر پتھر تیرانے سے بھی مشکل ہے۔
مہذب ممالک میں انفراسٹرکچر میں کسی بھی تبدیلی سے پہلے اس میں عوامی فورمز پر بحث ہوتی ہے اور پھر ماہرین بہت غور فکر کرکے مستقبل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے منصوبے بناتے ہیں۔کسی ملک میں اندھا دھند گاڑیاں یا لیپ ٹاپ بانٹنے کا نام ترقی قرارنہیں پاتا۔ اب تو چند سال پہلے بنائی گئی سڑکوں کو بھی ادھیڑ کر دوبارہ بنانے کی بات ہورہی ہے۔ یقینا عوام شہروں کی ترقی چاہتے ہیں، لیکن یہ ترقی کسی منصوبے کے تحت کی جائے۔ عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے محکموں میں تعاون اور تال میل کا فقدان ہے۔ اس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ ہمارے پلانرزان مشکلات سے لاعلم ہیں جو ان کی وجہ سے عوام کو برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ ہماری سڑکوں پر‘ جو ہلکی ٹریفک کے لیے بنائی گئی تھیں، بھاری ٹریفک چل رہی ہے۔ جب وہ ٹوٹ جائیںگی ۔۔۔ اور ایسا ہونے میں دیر نہیں لگتی۔۔۔ تو بغیر کسی تردد کے مزید تعمیرکاکام شروع کردیا جائے گا۔ عوام کے وسائل اسی طرح ضائع ہوتے رہیں گے۔ اور پھر دعویٰ کیا جائے گا کہ یہ سب کچھ عوام کے لیے ہی کیا جارہا ہے۔ حالت یہ ہے کہ جس شہر میں بھی اب کسی میگا پراجیکٹ کا آغاز ہوتا ہے، عوام کی مشکلات سو گنا بڑھ جاتی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں