بھاری ٹیکسز۔۔۔۔ حکومت کی معاشی ترجیحات

2014-15ء کے بجٹ میں ایف بی آر نے 2810 ارب روپے کا ہدف طے کیا ، لیکن بعد میں تخفیف کرکے اسے 2691 ارب روپے کردیا گیا۔ یہ تخفیف حیران کن ہے کیونکہ یکم جنوری 2015ء کو پٹرولیم کی مصنوعات پر بائیس فیصد سیلز ٹیکس عائد کیا گیا۔اس کے بعد اس میں مزید اضافہ کرتے ہوئے اسے ستائیس فیصد تک کردیا گیا۔ اس اضافے کا اطلاق یکم فروری سے ہوا۔ وفاقی حکومت نے پٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس سترہ فیصد سے بڑھا کر بائیس فیصد اور پھر ستائیس فیصد کرنے سے پہلے موجودہ مالی سال کے پہلے نصف کے دوران فیول پر ٹیکسز کی مد میں 144.5 بلین روپے اکٹھے کرلیے تھے۔ گزشتہ سال اسی مدت کے دوران فیول پر ٹیکسز کی مد میں 139 بلین روپے حاصل کیے گئے۔ سولہ فروری 2015ء کو فنانس منسٹری نے موجودہ مالی سال کے پہلے نصف کی آپریشنل سٹیٹ منٹ جاری کی۔ اس کے مطابق تیل اور گیس سے متعلق چھ ٹیکسز میں 3.96 فیصد اضافہ ہوا ۔ اس دوران حکومت نے پٹرولیم لیوی کی مد میں 59.9 بلین روپے حاصل کیے۔ گزشتہ مالی سال کے نصف کے دوران 51.6 بلین روپے حاصل کیے گئے۔ اس طرح پٹرولیم لیوی میں اضافے کی شرح 16 فیصد رہی۔ سپریم کورٹ نے گیس پر اضافی ترقیاتی سرچارج (جی آئی ڈی سی) غیر قانونی قرار دیا تھا، اس میں159.6 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ یہ گزشتہ سال وصول کیے جانے والے چھ بلین روپوں سے بڑھ کر 15.6 بلین روپے ہوگیا۔ خام تیل پر مفت میں ہاتھ آنے والی لیوی 8.7 بلین روپے اس کے علاوہ تھی۔
تمام تر بلند و بانگ دعوے اپنی جگہ پر لیکن غیرملکی بنکوں میں چھپائی گئی دولت میں سے ایک پائی بھی وصول نہ کرسکنے پر ہمارے فنانس منسٹر نے نو فروری 2015ء کو منی بجٹ پیش کیا۔ یہ جون 2014ء کے بعد، آئی ایم ایف کی ہدایت پر، پیش کیا گیا تیسرا منی بجٹ ہے۔ اس میں دوسو پچاسی سے زائد درآمدی اشیا پر پانچ فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کردی گئی۔ ان اشیا میں فرنس آئل بھی شامل ہے جس سے ملک میں بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ بہت سی اشیا پر ودہولڈنگ ٹیکس کے نرخوں میں بھی اضافہ کیا گیا۔جب فنانس منسٹر یہ بھاری ٹیکس نافذ کر رہے تھے تو پتہ یہ چلا کہ سوئس ایچ ایس بی سی کے تین سو اڑتیس کے قریب کلائنٹس کا تعلق پاکستان سے ہے۔ ان میں سے چونتیس فیصد کے پاس پاکستانی پاسپورٹ اور نیشنیلٹی ہے۔ان میں سے ایک کلائنٹ کی رقم کی حد 133.5 ملین ڈالر تک ہے۔ (انٹر نیشنل کنسورشیم آف انوسٹی گیٹیو جرنلزم) کا دعویٰ ہے۔۔۔ ''2006-07ء تک پاکستانیوں کے 859.7 ملین ڈالر یہاں موجود ہیں۔ پاکستان کا نمبر اُن ممالک کی فہرست میں اڑتالیسواں ہے جس کے شہریوں کے ڈالر سوئس اکائونٹس میں موجود ہیں۔ ‘‘مئی 2014ء کو پی ٹی آئی کے ڈاکٹر عارف علوی کے ایک سوال کا تحریری جواب دیتے ہوئے مسٹر اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی کوآگاہ کیا ۔۔۔''سوئس اکائونٹس میں پاکستانیوں کے دو سو بلین ڈالر موجود ہیں۔‘‘ مسٹر ڈار نے اس کا کوئی ثبوت فراہم نہ کیا اور نہ ہی اتنی بھاری رقم واپس لانے کی کوشش کی۔ اب یہ ڈارصاحب کی ذمہ داری ہے کہ وہ وضاحت کریں کہ اُنھوں نے اس رقم کے اعداد وشمار کیوں بیان کیے اور یہ کہ اس کی واپسی کے لیے اب تک کیا اقدامات کیے ہیں؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان سے ہر روز بھاری تعداد میں غیر ملکی زرِ مبادلہ پرواز کرجاتا ہے۔ یکم اکتو بر 2013ء کو گورنر اسٹیٹ بنک نے پارلیمانی کمیٹی کے سامنے ایک چونکا دینے والا انکشاف کیا کہ پاکستانی ائیرپورٹس سے ہرروز پچیس ملین ڈالر یومیہ بیرونی ممالک کی طرف پرواز کرجاتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ سالانہ نوبلین ڈالر پاکستا ن سے بیرونی ممالک کی طرف غیر قانونی طور پر بھیج دیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد 2014ء میں پاکستانیوں کی طرف سے دبئی کی پراپرٹی مارکیٹ میں 2.06 بلین ڈالر سرمایہ کاری کی گئی۔ سترہ فروری کو شائع ہونے والی ایک نیوز رپورٹ کے مطابق 2013ء اور 2014ء کے درمیان پاکستانیوں نے سولہ بلین یواے ای درہم کی جائیداد خریدی۔ دبئی لینڈ ڈپارٹمنٹ کے اعداد وشمار کے مطابق 2013ء اور2014ء میں پاکستانیوں نے 16.1 بلین درہم کی جائیداد خریدی۔ اس رپورٹ کے مطابق دو برسوں کے دوران پاکستانیوں کی طرف سے 430 بلین روپوں کی سرمایہ کاری کی گئی۔
ملک میں حال یہ ہے کہ یکے بعددیگرے مختلف حکومتیں ٹیکس چوروں پر ہاتھ ڈالنے میں ناکام رہی ہیں جبکہ سیلز ٹیکسز کی صورت میں عام افراد کی زندگی اجیرن بنائی جارہی ہے۔ اُنہیں منی بجٹ کی صورت میں نازل ہونے والی مہنگائی کا عذاب سہنا پڑتا ہے ، جبکہ ٹیکس چور دولت مند افراد بیرونی ممالک میں مہنگی جائیدادیں خرید رہے ہیں۔ ایک طرف پٹرولیم کی مصنوعات پر ستائیس فیصد تک ٹیکس لیا جاتا ہے تو دوسری طرف دولت مند تاجروں کو ٹیکس میں بہت سی مراعات سے نوازا جاتا ہے۔ درحقیقت موجودہ حکومت کی طرف سے تاجروں کو نوازنے کی پالیسی کوئی نئی پیش رفت نہیں ، اس کا ٹریک ریکارڈ ایسی نوازشات سے عبارت ہے۔ بڑے بڑے ٹیکس چور دبئی میں سرمایہ کاری کرتے ہیں جبکہ چیئرمین ایف بی آر بے بسی سے اُنہیں دیکھتے رہتے ہیں۔ اُنھوں نے نو جنوری 2015ء کو سینٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کو بتایا ۔۔۔''حکومت بیرونی ممالک ، خاص طور پر سوئٹزرلینڈ اور یواے ای، کے ساتھ ایک معاہدہ کرنے کی کوشش میں ہے تاکہ وہ اپنے بنکوں میں دولت مند پاکستانیوں کے بنک اکائونٹس، خریدی گئی جائیداد اور دیگر اثاثہ جات کے بارے میں پاکستان کو آگاہ کردیں، لیکن اس ضمن میں ہمیں مشکلات کا سامنا ہے۔‘‘ کمیٹی کے ممبران نے چیئرمین سے دریافت کیا کہ بڑے بڑے بزنس مین اور سیاست دانوں کو خطوط کیوں نہیں لکھے گئے کہ وہ اپنی ٹیکس ریٹرنز میں غیر ملکی جائیدادوں کا بھی ذکر کریں تو مسٹر چیئرمین نے بے بسی سے کہا کہ ٹیکس افسران کے سامنے مشکل یہ ہے کہ پاکستانیوں کی طرف سے بیرونی ممالک میں خریدی گئی جائیداد کسی اور نام سے ہوتی ہے۔
اس طرح ٹیکس وصول کرنے کے ہر محاذ پر ایف بی آر بری طرح ناکام ہورہا ہے۔ نہ ہی سوئس اکائونٹس تک رسائی حاصل کرسکا اور نہ ہی دوبئی میں خریدی گئی جائیداد اس کی پہنچ میں ہے۔ بڑے بڑے ٹیکس چوروں کی طاقتور گردن تک اس کا ہاتھ نہیں پہنچتا ، چنانچہ یہ پہلے سے مہنگائی کی چکی میں پسے ہوئے عوام پر ہی بھاری بھرکم ٹیکس عائد کرکے ان کی رگوں سے بچا کھچا خون نچوڑنے کی کوشش کو اپنی کارگزاری دکھاکر داد پاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت کی موجودہ ٹیکس پالیسیاں معیشت کے لیے سخت خطرے کا باعث ہیں۔ یہ سماجی انصاف اور شہری حقوق کی بھی خلاف ورزی کرتی ہیں۔ یہ بات میں ان کالموں میں بارہا کہہ چکا ہوں کہ موجودہ ٹیکس کا نظام دولت مندوں کو فائدہ اور غریب عوام پر بوجھ ڈالتا ہے۔ستم یہ ہے کہ حکومت اشرافیہ سے ٹیکس وصول کرنے اور طاقتور حلقوں کو ناراض کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں