قانون ساز ادارے او ر ٹیکس ڈائریکٹری

حالیہ ٹیکس ڈائریکٹری(2014ء) میں یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ پاکستان کے انتہائی دولت مند افراد ٹیکس ادا کرنے سے گریزاں ہیں اور ایف بی آر اُن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرنا چاہتا۔ اس ڈائریکٹری کے مندرجات انسان کو ورطۂ حیرت میں مبتلا کردیتے ہیں کہ صرف 32,031 پاکستانی ہی انتہائی امیر ہیں کیونکہ صرف اتنی تعداد نے ہی ایک ملین یا ا س سے زائد ٹیکس ادا کیا ہے۔ ان میں سے صرف بیس ہزار تین سو اٹھارہ افرا د نے صرف ایک لاکھ سے لے کر پانچ لاکھ ٹیکس ادا کیا۔ یہ انتہائی چونکا دینے والی صورت ِحال ہے کہ کل آبادی میں سے صرف 0.47 فیصد افراد، جن کی تعداد 855,429 بنتی ہے، نے ٹیکس فائلز جمع کرائیں۔ ان میں سے بھی اڑتیس فیصد انکم ٹیکس ادانہیں کرتے۔ اس بات کی بھی تصدیق ہوچکی ہے کہ ٹیکس قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں میں صرف اراکین پارلیمنٹ ہی شامل نہیں بلکہ دولت مند تاجر، زمیندار، اعلیٰ افسران اورصنعت کار بہت ڈھٹائی سے، دن دیہاڑے، ان قوانین کی پامالی کرتے ہیں اور ان سے پوچھنے والا کوئی نہیں۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ پاکستان کے قانون ساز ادارے اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین کو ہوا میں اُڑا دیتے ہیں۔ اہم قومی اداروں کے افسران بہت سے مخصوص قوانین کی آڑ لے کر اپنے اثاثے چھپالیتے ہیں اور ٹیکس دینے سے بچ جاتے ہیں۔ ٹیکس دہندگان کی اتنی کم تعداد ایک طرف اور دوسری طرف ملک میں مہنگی گاڑیوں، رہائش گاہوں، موبائل فونز اور غیر ملکی دوروں کی بھرمار بہت کچھ کہتی ہے۔ اُوپر سے لے کر نیچے تک، سب ٹیکس چور ی اپنا فرض سمجھتے ہیں۔
حکومت کم از کم اس بات پر تحسین کی مستحق ہے کہ اس نے گزشتہ سال کی طرح اراکین ِ اسمبلی اوردیگر ٹیکس دہندگان کے نام شائع کردیئے ہیں۔ ایف بی آر کا کہنا ہے کہ اس نے دس اپریل 2015ء تک جمع کرائے گئے اعدادوشمار سے مواد اکٹھا کیا گیا ہے۔ ٹیکس ڈائریکٹری کے اجرا کے موقع پر فنانس منسٹر اسحاق ڈار کا کہنا تھا ۔۔۔''آج کی تاریخ تک 1,169 اراکین ِ پارلیمنٹ میں سے 1,040 نے2014ء کے لیے انکم ٹیکس ریٹرن جمع کرائی ہیں جبکہ باقی کے واجبات کے لیے کارروائی جاری ہے۔ کم از کم 90 اراکین ِ پارلیمنٹ ، جن میں 16سینیٹرز اور دس رکنِ قومی اسمبلی شامل ہیں، نے گزشتہ سال تیس جون تک کوئی ٹیکس ادا نہیں کیا تھا۔
2013ء کی ٹیکس ڈائریکٹری کی اشاعت کے بعد چیئرمین ایف بی آر یکم جنوری 2014ء کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے اور کہا۔۔۔''اراکین ِ پارلیمنٹ کی تنخواہوںسے ٹیکس کی رقم منہا کرلی گئی ہے، اس لیے اُنہیں ٹیکس نادہندہ قرار نہیں دیا جاسکتا‘‘۔ اُنھوں نے یہ بات بھی چھپائی کہ خود ایف بی آر کے ایک ہزار سے زائد افسران نے بھی ٹیکس فائلز جمع نہیں کرائیں۔ بدقسمتی سے چیئرمین ایف بی آر غلطی پر غلطی کررہے تھے۔ ایک انگریزی روزنامے نے اپنے اداریے میں لکھا۔۔۔''اراکین ِ پارلیمنٹ کا یہ کہناکہ چونکہ ان کی تنخواہوںسے ٹیکس کی رقم منہا کرلی جاتی ہے، اس لیے اُنھوں نے ٹیکس ادا کردیا ہے، بے ایمانی کے مترادف ہے کیونکہ اُن میں سے بہت کم بطور رکن ِ پارلیمنٹ ملنے والی تنخواہ پر گزارا کرتے ہیں۔ ان کی شاہانہ زندگی، وسیع جائیدادیں، منافع بخش کاروباراور دیگر ذرائع آمدن ہیں اور وہ ان پر کوئی ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ ہم اپنے سیاست دانوں سے غلط بیانی کی توقع کرتے ہیں لیکن چیئرمین ایف بی آر، جو کہ ایک ذمہ دار عہدے پرہیں، سے نہیں۔‘‘آگے چل کر اداریہ لکھتا ہے۔۔۔ ''ٹیکس چوروں کی وجہ سے لاقانونیت ہے کیونکہ جب اعلیٰ عہدوں پر ٹیکس چور ہوں تو پھر نچلے شعبوں میں بھی بدعنوانی درآتی ہے۔ اعلیٰ عہدوں پر موجود افراد ٹیکس چوری کرتے ہیں تو ہی نچلے درجے کے افسران کو رشوت لینے کی ہمت ہوتی ہے۔
اس گلے سڑے نظام کو تبدیل کرنے کے لیے ہم پارلیمنٹ پر دبائو ڈالتے ہیں تاکہ وہ اپنا ادا کردہ ٹیکس عوام کے سامنے لائے۔ تاہم یہاں ایک بار پھر وہ اور ان کے چمچے قوم کو چکما دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایف بی آر نے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے سیکشن 182(1) کے تحت ٹیکس فائل جمع نہ کرانے والے اراکین ِ پارلیمنٹ اور اعلیٰ افسران کے خلاف کبھی کارروائی نہیں کی۔لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ ہمارے عوامی نمائندے اور اعلیٰ افسران معمولی تنخواہ پر کیسے گزارا کرتے ہیں، اتنی مہنگی گاڑیاں، مسلح محافظوں کی فوج اور غیر ملکی سفر کس طرح افورڈ کرتے ہیں۔
یہ بات بارہا مرتبہ کہی جاچکی ہے کہ ٹیکس سسٹم آئینی جمہوریت کا بنیادی جزو ہے۔ یہ سوا ل کہ کس پر ٹیکس عائد کیا جائے ، اس کا حجم کتناہو اور اس رقم کو کس مقصد کے لیے خرچ کیا جائے، کا جواب عوام کے منتخب نمائندوں نے دیناہوتا ہے لیکن اگر وہ خود ہی ٹیکس نادہندہ ہوں تو پھر تمام جمہوری نظام اپنی ساکھ کھو بیٹھتا ہے۔ ٹیکس کے نفاذ اور اس کے لیے بنائے جانے والے نظام کا تعلق قانون کی حکمرانی سے ہے۔ اس میں اختیارات کی تقسیم اور عدلیہ کاکردار بھی کھل کر سامنے آجاتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ قانون سازوں نے حلف اٹھایا ہوتا ہے کہ وہ قانون کا احترام کریں گے، چنانچہ ٹیکس قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وہ اپنے حلف کی بھی خلاف ورزی کرتے ہیں۔
جمہوریت کا ایک بنیادی اصول ہے۔۔۔''نمائندگی کے بغیر ٹیکسز نہیں دیے جائیں گے‘‘۔ اس کی ہی دوسری شکل ہے کہ ٹیکسز کے بغیر نمائندگی کا حق نہیں ہوگا۔ آئین کا آرٹیکل 77 کہتا ہے کہ پارلیمنٹ کی اجازت سے ہی وفاق ٹیکس لگاسکتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ٹیکس اور پارلیمنٹ لازم و ملزوم ہیں۔ تاہم 2013ء اور2014ء کی ٹیکس ڈائریکٹریاں ظاہر کرتی ہیں کہ ہمارے ہاںاس اصول کی دھجیاں بکھیر دی جاتی ہیں ۔ چنانچہ اگر ہمار ے معاشرے میں رشوت ستانی عام ہے، بدعنوانی کا دوردورہ اور قانون کی حکمرانی برائے نام ہے تو اس کی وجہ سب کے سامنے ہے۔ اس کے علاوہ ٹیکس کے نفاذ کا فیصلہ پارلیمانی عمل ، نہ کہ انتظامیہ، نے کرنا ہوتا ہے ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پارلیمنٹ کو خود بھی ٹیکس کے فرض کا احساس ہو ورنہ عوام سے ٹیکس وصول کرنا مشکل ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں