انصاف پر مبنی نظام محصولات

محصولات کی وصولی کا موجودہ نظام ناانصافی پر مبنی ہے کیونکہ ایک طرف یہ دولت مندوں کا تحفظ کرتا ہے تو دوسری طرف غریبوں پر بھاری ٹیکس عائد کرتا ہے۔ ٹیکس کا یہ ظالمانہ نظام عام آدمی کا خون نچوڑتے ہوئے سیاست دانوں، سول اور دوسرے افسران پر مشتمل گروہ کو پُرتعیش زندگی کا موقع اور وسائل فراہم کرتا ہے۔ معاشرے کے طاقتور دھڑے نہ صرف ٹیکس ادا کرنے سے گریزاں ہیں بلکہ یہ نظام انہیں دولت میں بے پناہ اضافہ کرنے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔ یہ طبقہ ریاست کی زمین تقریباً کوڑیوں کے مول یا مفت میں ہی حاصل کر لیتا ہے۔ افسوس ناک بات یہ کہ ایک ایسے ملک میں‘ جہاں ہر روز ریئل اسٹیٹ اور شیئرز کی خرید و فروخت اربوں روپوں میں ہے‘ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح انتہائی کم، صرف 9.6 فیصد ہے‘ لیکن حکومت غیر دستاویزی معیشت اور کسی دوسرے شخص کے نام سے کیے گئے لین دین پر ٹیکس لگانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ طاقتور دھڑوں کا آلہ کار بن کر ایف بی آر بھی انہیں سہولت فراہم کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں رکھتا۔ دس اپریل 2015ء کو شائع ہونے والی ٹیکس ڈائریکٹری 2014ء سے یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ پورے پاکستان میں صرف 52,349 افراد یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اُن کی قابل ٹیکس آمدن پانچ لاکھ سے زائد ہے۔ دراصل کسی بھی منصفانہ ٹیکس سسٹم میں کسی فرد کی ٹیکس ادائیگی کا تعین کرنا اہم مسئلہ ہوتا ہے۔ یہ اصول متحرک نرخوں پر ذاتی انکم ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس اور کچھ ریاست کی طرف سے عائد کردہ ڈیوٹی کے حوالے سے دنیا بھر میں مروج ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد غیر منقولہ جائیداد پر ڈیوٹی اور ویلتھ ٹیکس وصول کرنے کا حق صوبوں کو تقویض کیا گیا، لیکن 2010ء سے لے کر اب تک کسی بھی صوبے نے ان واجبات کی وصولی کا کوئی انتظام نہیں کیا۔
آج اشد ضرورت ہے کہ ملک میں وی آئی پی کلچر، اشرافیہ اور بڑے بڑے پلاٹ اور منافع بخش کاروبار رکھنے والے افراد کی اجارہ داری کو توڑتے ہوئے گورننس، محصولات کی شرح اور پیداوار کو بڑھایا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ وسائل کا بے جا اسراف کرنے والی بدعنوان افسر شاہی سے سخت باز پرس کی جائے اور غیر پیداواری اخراجات اور عوامی نمائندوں کی طرف سے ٹیکس دہندگان کی رقم پر عیاشی کرنے کی روایت کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ دراصل ہمیں اتنی بھاری بھرکم کابینہ اور ریاستی مشینری کی ضرورت نہیں۔ اس کی بجائے ہمیں اپنے وسائل بڑھانے، صنعت کاری کو فروغ دینے، کھیتوں اور کارخانوں کی پیداوار میں اضافہ کرنے، زراعت میں سرمایہ کاری کرنے اور دولت کی از سر نو تقسیم کی پالیسی بناتے ہوئے قومی دولت کو بڑھانے کی طرف توجہ دینی چاہیے کیونکہ اسی طرح ہم خود انحصاری کی منزل حاصل کر سکتے ہیں۔ عقل حیران ہے کہ حکومت کا اس کے سوا اور کیا مقصد ہوتا ہے؟ اگر یہ سب کچھ نہیں اور محض عوام سے جیسے تیسے ووٹ لے کر پانچ سال تک ان کی رقوم پر عیاشی کرنی ہے تو اسے جمہوریت نہیں کچھ اور قرار دیا جانا چاہیے۔
یہ درست ہے کہ ہمیں بہت سے مسائل کا سامنا ہے لیکن میرے نزدیک سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ملک میں ٹیکسز کی بھرمار ہے لیکن محصولات کے فوائد غریب عوام تک نہیں پہنچ رہے۔ دنیا بھر کی ریاستی تاریخ کا مطالعہ کر لیں اور بتائیں کہ کیا کسی ریاست کے قیام کی کوئی اور بھی غرض و غایت ہوتی ہے؟ بلکہ ہمارے ہاں یہ معاملہ مہذب دنیا کے برعکس ہے۔ تمام دنیا میں دولت مند افراد سے ٹیکس وصول کرکے غریبوں کو سہولیات فراہم کی جاتی ہیں لیکن یہاں غریب عوام سے جبری ٹیکس وصول کیا جاتا ہے جبکہ پہلے سے ہی دولت مند اُس رقم پر پلتے ہیں۔ ہمارے حکمران ٹیکس کے نظام میں اصلاحات لانے میں یکسر ناکام ہو چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی بینک اور دیگر مالیاتی اداروں سے بھاری قرضے حاصل کرنے کے باوجود ہماری معیشت جمود کا شکار ہے۔ ٹیکس ریفارمز بہت مشکل مرحلہ نہیں لیکن اس کے لیے طاقت ور دھڑوں کی مخالفت مول لینا پڑے گی۔ اگر ہمیں کسی انقلابی رہنما کی ضرورت ہے تو وہ یہی میدان ہے... ایک ایسا بے خوف رہنما‘ جو ٹیکس کا منصفانہ نظام بنائے اور ٹیکس وصول کرکے دکھائے۔ اس کے بعد یہ رقم منصفانہ طور پر غریب عوام پر خرچ ہو۔ بس یہی ہے ایک فلاحی ریاست کا تصور۔ اس کے سوا باقی سب سیاست ہے۔
ٹیکس اصلاحات ایک مسلسل عمل ہے۔ ہمارا شمار اُن اقوام میں ہوتا ہے جن پر بہت سے ٹیکس عائد ہیں۔ اگر مقامی، صوبائی اور وفاقی محصولات کی کل تعداد کو جمع کیا جائے تو مجموعہ پچاس کے قریب بنتا ہے۔ اس سے بھی افسوس ناک بات یہ ہے کہ ٹیکس کا موجودہ نظام تکلیف دہ حد تک پیچیدہ ہے۔ اس میں ایماندار افراد کو سزا ملتی ہے کیونکہ وہ اپنی بچت اور سرمایہ کاری سے محروم ہوتے جاتے ہیں جبکہ کائیاں افراد ٹیکس بچانے کی بہت سی راہیں تلاش کر لیتے ہیں۔ ٹیکس افسران کا رویہ ایماندار شہریوں کے ساتھ دشمنوں جیسا جبکہ ٹیکس چوروں کے ساتھ دوستانہ ہے۔
کسی بھی ملک میں ٹیکس کا نظام سماجی اور معاشی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اس کے بغیر جتنے بھی منصوبے بنا لیں، سب اکارت جائیں گے یا پھر آپ کو ان کے لیے بیرونی ذرائع سے قرض لینا پڑے گا۔ اس قرض کو بوجھ آخرکار پھر اسی غریب آدمی پر پڑے گا جس کو فائدہ پہنچانے کے لیے یہ منصوبہ بنایا جانا تھا؛ چنانچہ ضروری ہے کہ قومی سطح پر ایک قابل عمل ٹیکس پالیسی بنائی جائے۔ ایسا کرتے ہوئے اپنے معروضی حالات، نہ کہ قرض فراہم کرنے والوں کی شرائط، کو مدنظر رکھا جائے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ قرض دینے والے ادارے ایسی پالیسی بنانے پر زور دیتے ہیں جو اُن کے مفاد کا تحفظ کرے۔ یاد رہے کہ معاشی پالیسیاں ساکت و جامد نہیں بلکہ متحرک ہوتی ہیں۔ ان پر نظرثانی کرتے رہنے اور ان میں نت نئی اصلاحات لانے کی ضرورت ہوتی ہے۔
ہمارے لیے ضروری ہے کہ آنے والے بجٹ 2015-16 کو ایک ٹول کی استعمال کرتے ہوئے ٹیکس کے نظام میں اصلاحات لائیں۔ اس ضمن میں پوری سیاسی طاقت استعمال کی جائے۔ درحقیقت اگر سیاسی جماعتوں کو کسی بات پر ہنگامی بنیادوں پر اکٹھا ہو کر قومی اتفاق رائے کا مظاہرہ کرنا ہے تو وہ یہی ہے۔ تاہم اس وقت ہماری قومی ترجیحات ایسی ہیںکہ سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے۔ حکومت یا اپوزیشن جماعتیں، کوئی بھی ٹیکس کے نظام کی اہمیت کو نہیں سمجھتا، اس کے باوجود سبھی جمہوریت کے چمپیئن کہلاتے ہیں۔ پتہ نہیں یہ جماعتیں جمہوریت سے کیا معنی اخذ کرتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام اپنے ووٹ سے نمائندوں کو حق اور طاقت دیتے ہیں کہ وہ ایسا نظام وضع کرے جو دولت مند افراد سے محصولات لے کر کم وسائل رکھنے والوں پر خرچ کرے۔ اس میدان کے ایک ماہر ، رائے گبن (Roy Gobin) کے مطابق۔۔۔ ''محصولات کے لیے پیمانہ وضع کرنے کے لیے اچھی طرح سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ترقی پذیر ممالک کی حکومتیں اس بات سے آگاہ ہو چکی ہیں کہ وہ بجٹ سے کیا کچھ حاصل کر سکتی ہیں۔ وہ بجٹ کے ذریعے ملکی پیداوار میں اضافے کی بجائے اپنی سیاسی طاقت بڑھانے کی طرف دیکھتی ہیں‘‘۔ پاکستان میں یکے بعد دیگرے مختلف حکومتیں، چاہے وہ فوجی تھیں یا سول، نے ٹیکس کے نظام میں اصلاح کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ کیا اب بھی، جبکہ ہم ایشیائی ٹائیگر بننے کا خواب دیکھنے لگے ہیں، اس کا وقت نہیں آیا؟ کیا ہم ٹیکس کے نظام میں اصلاح کیے بغیر ترقی کر سکتے ہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں