فنانس بل2015ء …عوام کا معاشی قتلِ عام

قومی اسمبلی نے فنانس بل2015ء منظور کرلیا۔ 23 جون 2015ء کو اس کی تیرہویں نشست کے 23 ویں اجلاس میں اپوزیشن نے واک آئوٹ کر کے ایف بی آر اور فنانس منسٹر کے معاشی جادوگروں کو کم وبیش فری ہینڈ دے دیا کہ وہ جس طرح چاہیں معیشت کے ساتھ کھیلیںاور بھاری ٹیکسوں کے ذریعے عام آدمی کا جینا دوبھر کردیں، لیکن اُن سے کسی کو بھی یہ پوچھنے کی توفیق نہیں ہوئی کہ ترمیم شدہ ٹیکس اہداف کیوں حاصل نہیں ہو سکے؟جیسا کہ ان کالموں میں پیش گوئی کی گئی، ایف بی آر کا تیسری مرتبہ محصولات کا ترمیم شدہ ہدف، 2605 بلین روپے ، بھی حاصل نہ سکا، اس کے باوجودبہت سے افسران کو بطور بونس دوماہ کی تنخواہ دے دی گئی حالانکہ ابھی موجودہ مالی سال ختم ہونے میں کئی دن باقی ہیں۔ ہر سال ایسا ہی ہوتا ہے کہ ٹیکس کی اہمیت سے لاپروا ہمارے قانون ساز اپنے مفاد(ٹیکس چوری) کے لیے ایف بی آر کے افسران کا تحفظ کرتے ہیں۔ اس ذاتی تعلق کا خمیازہ سخت ٹیکسز کی صورت میں عوام کو بھگتنا پڑتا ہے جبکہ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ وہ ان سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتی۔ اس کے نتیجے میں دیگر اہم اداروں اور افسران کو بھی مالی فائدے پہنچائے جاتے ہیں۔
افسوس، صد افسوس، یہ ہے کہ آج کا پاکستان جہاںعام آدمی کی زندگی اجیرن جبکہ اشرافیہ زندگی کے مزے لوٹ رہی ہے‘ ایف بی آر کا اصل ہدف 2810 بلین روپے تھا جسے تخفیف کرکے 2691 بلین روپے کیا گیا۔ اس کے بعد اسے مزید کم کرکے 2605 بلین روپے کردیا گیا۔ اس میں سے فی الحال غیر تصدیق شدہ رپورٹس کے مطابق 2580 بلین روپے جمع کیے گئے ہیں۔2013-14ء میں ایف بی آر نے صرف 2254.5 بلین روپے جمع کیے تھے جبکہ اصل ہدف 2475 بلین روپے تھا۔ اس کے بعد تخفیف کردہ ہدف 2275 بلین روپے کیا گیا لیکن ایف بی آر اسے بھی حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ 
محصولات جمع کرنے میں ناکامی کی بنیادی وجوہ نااہلی، بدعنوانی، ناقص انتظامیہ اور ٹیکس چوروں کو خوش کرنے والی پالیسیاں ہیں۔ چونکہ عوام کو سہولیات میسر نہیں اس لیے عمومی طور پر ٹیکس ادا کرنے سے گریز کا رجحان پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ٹیکس کا موجودہ نظام ایک ایسے غیر منصفانہ ڈھانچے پرا ستوار ہے جس میں دولت مند افراد کو زیادہ سے زیادہ مراعات دے کر ان کی دولت میں اضافہ کیا جاتا ہے تو دوسری طرف عام شہریوں کی جیب سے آخری پائی تک نکلوانے کی تدبیر کی جاتی ہے۔ ایف بی آر کی کارکردگی کا قریبی جائزہ ظاہر کرتا ہے کہ اس نے محصولات جمع کرنے کی ذمہ داری ودہولڈنگ ایجنٹس کو سونپ دی ہے جو ریاست کی طرف سے ٹیکس کولیکٹرز کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ 2013-14ء کے دوران ایف بی آر کی اپنی کوشش سے جمع شدہ انکم ٹیکس نو فیصد سے بھی کم تھا۔ فیلڈ میں جاکر کام کرنے والوں نے ڈیمانڈ پیدا کرتے ہوئے 80.58 بلین روپے اکٹھے کیے جبکہ 2012-13ء میں یہ رقم 89.4 بلین رپے تھی۔ اس سے ایف بی آر کی کارکردگی میں گراوٹ آشکار ہوتی ہے کہ ڈیمانڈ پیدا کرنے کے باوجودحاصل کردہ رقم کم رہی۔ اسی طرح سیلز ٹیکس کے حصول میں بھی اسے افسوس ناک ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس شعبے کا 47 فیصد صرف پٹرولیم کی مصنوعات کی فروخت سے ہی حاصل کیا جاسکا۔ 
ایف بی آرعام شہریوں کو مورد ِ الزام ٹھہراتا ہے کہ جو پہلے ہی ''مالیاتی دہشت گردی‘‘ کا نشانہ ہیں جبکہ وہ انتہائی امیر افراد سے کوئی باز پرس نہیں کرتا ۔ ان افرادکوٹیکس کے دائرے میں لانا کوئی مشکل نہیں کیونکہ وہ عالی شان مکانات میں رہتے ہیں، مہنگی گاڑیاں چلاتے ہیں اور ان کا شاہانہ طرز ِ زندگی بھی کسی سے پوشیدہ نہیں اور غیر ملکی سفر ان کا معمول ہیں۔ اس وقت ملک میں موبائل فون کے کل صارفین کی تعداد 113 ملین ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کم از کم پچاس ملین افراد ایڈوانس انکم ٹیکس ادا کررہے ہیں حالانکہ ان میں سے اکثریت کی آمدنی انکم ٹیکس کی شرح سے کم ہے۔ دوسری طرف دولت مندافراد انکم ٹیکس کے گوشوارے جمع کرانے کی زحمت نہیں کرتے ۔ 2014میں صرف 3,663 افراد نے اپنی آمدنی دس ملین روپے سے زیادہ ہونے کا اعتراف کیا۔ ہر سال انکم ٹیکس کے گوشوارے جمع کرانے والوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔ ایف بی آر نے کبھی اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ 2011ء میں گوشوارے جمع کرانے والوں کی تعداد 1,443,414 سے کم ہوکر 2014ء میں صرف 856,229 کیوں رہ گئی؟ کیا ملک غربت، قحط اور افلاس کی لپیٹ میں ہے؟کچھ تو فرمائیے؟
فنانس ایکٹ 2015ء کا ایک سرسری جائزہ ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے مالیاتی نظام کا دارومدار حسب معمول جابرانہ ٹیکسز کی وصولی اور کشکول کی وسعت پذیری پر ہے۔ بجٹ پیش کرنے سے پہلے میڈیا پر چلائی جانے والی بھرپور مہم ،کہ دولت مند افراد کو ٹیکس کے دائرے میں لازمی لایا جائے گا، کے باوجود پروگریسو ٹیکسز کا نفاذ دکھائی نہ دیا اور نہ ہی پاکستان کی معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ کر برباد کردینے والے بالواسطہ اور براہ راست ٹیکسز کے درمیان وسیع فرق کو دور کیا جاسکا۔ ایف بی ا ٓر کا کردار برطانوی دور کی ایسٹ انڈیا کمپنی کی یاد دلاتا ہے جب حکمران اشرافیہ بھاری بھرکم ٹیکسز لگاکرعوام کو جیب کے ذریعے کنٹرول کرتی تھی۔ برطانوی دور میں کمپنی کے نمائندے کھیتوں میں جاکر کسانوںسے ان کی پیداوار چھین لیتے تھے۔ کچھ مورخین کے مطابق ایسٹ انڈیا کمپنی کے گماشتے دوتہائی فصل تک پر قبضہ کرلیتے تھے۔ چنانچہ نوآبادیاتی دور میں کسانوں کی زندگی افلاس کا شکار تھی۔غریب عوام پر جبری ٹیکس لگاکر موجودہ حکمران بھی ایسٹ انڈیا کمپنی سے کم نہیں ہیں۔ اُس 
وقت کمپنی نے مقامی صنعت کو تباہ کرکے ملکہ کے انگلینڈ میں صنعتی پیداوار کو فروغ دیا‘ اسی طرح ہمارے حکمران غیر ملکی آقائوں کے کہنے پر مقامی صنعتوں کو نقصان پہنچاتے دکھائی دیتے ہیں۔ مقامی صنعتوں کو نقصان پہنچانے والے اقدامات میں بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ ، اربوں روپے کی ریفنڈ کی جانے والی رقم کو روک لینا وغیرہ شامل ہیں۔ موقع سے فائدہ اٹھا کر کثیر ملکی کمپنیاں مقامی صارفین تک رسائی حاصل کرلیتی ہیں۔ پاکستان، بھارت اور وسطی ایشیائی ممالک میں عطیات فراہم کرنے والے ادارے اپنے ممالک کی کمپنیوں کی مصنوعات کے لیے راستہ ہموار کرتے ہیں لیکن فی الحال یہ موضوع ہمارے میڈیا کے مکالمے کا حصہ نہیں ہے۔بھاری ٹیکسز کے نفاذ سے ہمارے حکمران مقامی صنعت کو تباہ کرکے اس عمل میں ہاتھ بٹاتے ہیں۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو صنعتی نظام مستحکم بنیادوںپر استوار ہوتا، بے روزگاری کم ہوتی اور ملک میں مصنوعی مہنگائی پیدا کرنے کے عمل کی حوصلہ شکنی ہوتی۔ لیکن ٹیکس کے موجودہ نظام نے جہاں صنعتیں تباہ کردی ہیں، وہیں امیر اور غریب کے درمیان فرق کو بڑھا کر معاشرے کو لاعلاج مسائل سے دوچار کردیا ہے۔ 
دراصل پاکستان کا حکمران طبقہ ایک ایسا مافیا ہے جو ٹیکس چوری اور قومی دولت کو لوٹ کر طاقتور ہوچکا ہے۔ اب اسے کوئی قانون گرفت میں نہیں لاسکتا۔ غیر ملکی طاقتیںبھی پاکستان کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک کرتی ہیں کیونکہ وہ دیکھتی ہیں اس کے حکمران ہی اس کے ساتھ مخلص نہیں ہیں۔ اس عالم میں 2015-16ء کا بجٹ پاکستانیوں کی ابتلا میں مزید اضافہ کرکے ملک کو عدم استحکام کی طرف لے جائے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں