نیب اور کرپشن کی کہانی

سپریم کورٹ کی ہدایت پر نیب نے بدعنوانی کے ایک سو پچاس میگا سکینڈلز کی رپورٹ دوسری مرتبہ پیش کی۔ یہ کیسز سیاسی اشرافیہ، اعلیٰ شخصیات، جن میں موجودہ وزیر ِ اعظم ، خادم ِ اعلیٰ، سابق وزرائے اعظم ، وزیر اور اعلیٰ سرکاری افسران شامل ہیں، کے خلاف ہیں۔ ان کیسز میں رقم کا حجم کئی ٹریلین روپے ہے۔ حیرت انگیز طورپر، نیب نے رپورٹ پیش کی کہ فنانس منسٹر کے خلاف 23 ملین پائونڈز، 3488 ملین ڈالر اور 1250 ملین ڈالرکے تین کیسز زیر ِ التوا ہیں۔ کسی ایسے شخص کو ایک جمہوری ملک کی فنانس منسٹر ی چلانے کا کیا حق ہے جس کے خلاف اس طرح کے الزامات ہوں(چاہے ابھی الزامات ثابت نہ بھی ہوئے ہوں، لیکن تحقیقات کا مرحلہ تو جاری ہے)؟
سابق صدر، آصف علی زرداری کے خلاف بھی احتساب عدالت میں معلوم وسائل سے بڑھ کر اثاثے رکھنے کے ایک کیس کی سماعت جاری ہے۔ اُن کے خلاف 2۔2 بلین ڈالر اور 1.5 بلین ڈالر کی بدعنوانی کے کیسز کی تحقیقات بھی جاری ہیں۔ نیب کے مطابق 700 ملین روپے کے ایک فراڈ کیس کے سلسلے میں تاندلیانوالہ شوگر ملز کے غازی اختر اور نیشنل انشورنس کمپنی کے دو سابق چیئرمینوں کے خلاف چاربلین روپے کی انکوائریاںہورہی ہیں۔ شون گروپ (Schon group) کے خلاف1245 بلین روپے خوردبرد کرنے کے الزام کی انکوائری جاری ہے۔ یونس حبیب پر مبینہ طور پر تین بلین روپے پر خود کو دیوالیہ قرار دینے، بلوچستان کے سابق وزیر ِ اعلیٰ نواب اسلم رئیسانی پر معلوم وسائل سے بڑھ کر100 ملین روپے کے اثاثے رکھنے، سابق وزیرِاعظم چوہدری شجاعت حسین پر معلوم وسائل سے بڑھ کر 2428 بلین روپے کے اثاثے رکھنے، سابق انفارمیشن سیکرٹری اور امریکہ میں پاکستان کے سفیر، حسین حقانی پر بھاری فنڈز (اگرچہ رقم کا تخمینہ لگایا جانا ابھی باقی ہے) میں خورد برد کے الزامات ہیں۔ حقانی پر تین نجی کمپنیوں کو ایف ایم ریڈیو کے لائسنس جاری کرنے کا بھی الزام ہے۔ سابق وزیر ِ داخلہ آفتاب شیرپائوپر بھی معلوم وسائل سے بڑھ کر اثاثے رکھنے کا الزام ہے۔ 
ان تمام سیاست دانوں نے بیک زبان ہوکر نیب پر الزام لگایا کہ وہ انہیں مبینہ طور پر ''بدنام ‘‘ کرتے ہوئے ا ن کی ''کردار کشی‘‘ کر رہا ہے۔کہا گیا کہ یہ الزامات بے بنیاد ہیں۔ خادم ِ اعلیٰ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے شریف فیملی کادفاع کیا''ہم نے بنکوں اور مختلف مالیاتی اداروں سے لیے ہوئے 5.22 بلین روپے واپس کردیے ہیں‘‘۔ قومی اسمبلی کے سپیکر نے نیب کی سرزنش کرتے ہوئے وارننگ دی کہ اس کے خلاف بھی ریفرنس دائر کیا جاسکتا ہے۔ محترم سپیکر صاحب نے الزام لگایا کہ ایک طرف ڈیل کرتے ہوئے نیب اربوں روپے کے کیسز بند کررہا ہے تو دوسری طرف کچھ کے خلاف بے بنیاد کیسز فائل کیے جارہے ہیں۔ان الزامات کے جواب میں نیب نے اپنی کارکردگی کا جائزہ پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس نے اپنے قیام سے لے کر اب تک 262 بلین روپے نکلوائے ہیں۔ نیب کی طرف سے پیش کیے گئے جائزے کے مطابق 1999ء سے لے کر 2014ء کے درمیان اسے 270,675 شکایات وصول ہوئیں، 5,872 شکایات کی انکوائری کی گئی ، 2,908 کی تحقیقات کی گئیں اور2,159 ریفرنس ملک بھر کی احتساب عدالتوں میں فائل کیے گئے۔ 
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں بدعنوانی نے نجی اور سرکاری شعبوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ سیاست دان الزام لگاتے ہیں کہ ملٹری، عدلیہ اور سول افسران کے مخصوص مفاد کے لیے ان کا میڈیا ٹرائل کیا جاتا ہے۔ جائے حیرت ہے کہ وہ نہیں سمجھتے کہ کسی نے بھی انہیںاپنے طبقے اور دیگر اداروں کا احتساب کرنے سے نہیں روکا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بدعنوان، مکار، فریبی، دھوکے باز، بددیانت اور قومی دولت کو لوٹنے والے عناصر کو خطرہ محسوس ہونا شروع ہوگیا ہے کیونکہ آرمی چیف ہر قسم کی دہشت گردی، جس میں بدعنوانی سے حاصل کردہ رقوم سے دہشت گردوں کی مدد بھی شامل ہے، کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ 
یہ ناقابل ِ تردید حقیقت ہے کہ چاہے ماضی کی سول حکومتیں ہوں یا ملٹری، ملک سے بدعنوانی کا ناسور ختم کرنے کے لیے کبھی بھی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی ، بلکہ مشرف حکومت نے این آر او کے ذریعے ہزاروں بدعنوان عناصر کو تحفظ فراہم کیا۔ اگرچہ بعد میں سپریم کورٹ نے این آراو کو کالعدم قراردے دیا، لیکن اس سے فائدہ اٹھانے والے نہ صرف قانون کی گرفت سے بچ گئے بلکہ عوامی عہدے حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوگئے۔ ریاست کو دہشت گردی سے بھی بڑے جس خطرے کا سامنا ہے، وہ یہی مالیاتی دہشت گردی ہے۔ 
پاکستان ایک عجیب ملک ہے جہاں ریاست بدعنوانی کا مقابلہ کرنے کی بجائے اس کا تحفظ کرتی ہے۔ ہر سال اربوں ڈالر بیرون ممالک پرواز کرجاتے ہیں۔ اس دولت کا کچھ حصہ بیرونی ممالک میں محفوظ ہوجاتا ہے جبکہ کچھ ریاست کی طرف سے متعارف کردہ سکیموں کا فائدہ اٹھا کر سفید دھن میں تبدیل ہو کر واپس آجاتا ہے۔ سبحان اﷲ، کیا حسن ِ انتظام ہے!یقین کیا جاتا ہے کہ بیرونی ممالک سے بنکوں کے ذریعے بھیجے جانے والے14-15 بلین ڈالر زرمبادلہ میں سے ایسی رقوم کا حصہ چالیس فیصد تک ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ہنڈی اور حوالہ کے سدا بہار ذرائع کے ذریعے بھی اربوں روپے واپس لائے جاتے ہیں۔ اس طرح پاکستان منی لانڈرنگ کی ایک مستقل فیکٹری اور ٹیکس چوروں کی جنت بن چکا ہے۔ ٹیکس آرڈیننس2001ء کا سیکشن 111(4) کالے دھن کو سفید کرنے اور ٹیکس چرانے کا تیر بہدف نسخہ ہے۔ یہ سیکشن بنکوں کے ذریعے پاکستان میں بیرونی ممالک سے دولت لانے والوں کو ٹیکس میں چھوٹ کی نوید سناتا ہے۔ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھاری بھرکم کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے آپ کسی بھی منی ایکس چینج آفس جائیں جو کچھ فیس لے کر آپ کے نام سے فرضی رقم کسی بیرونی ملک سے منگوانے کا اہتمام کریں گے۔ اس کے بعد دوفیصد تک ٹیکس اداکرکے کالا دھن سفید کرلیں۔ 
کچھ سال پہلے انٹر نیشنل ٹرانسپرنسی پاکستان کے مطابق ملک میں بدعنوانی کی معیشت جی ڈی پی کا دس فیصد تھی۔ اُس وقت حکومت کو اس ہوشربا بدعنوانی سے مسلسل انکار تھا، جبکہ نیب ،جس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملکی دولت اور عوامی وسائل پر ہاتھ صاف کرنے والے بدعنوان اور طاقتور افراد اوران کے گماشتوں کو گرفت میں لاکر قانون کے کٹہرے میں کھڑاکرے، محض نمبر بڑھانے کے چکر میں خانہ پری کررہا تھا۔ معروف ماہر معاشیات، ڈاکٹر اکمل حسین کے مطابق ۔۔۔''پاکستانی معیشت کا ڈھانچہ اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ اس میں غریب اور درمیانے طبقے کو نقصان پہنچا کر اشرافیہ کو فائدہ پہنچایا جاسکے۔ رشوت کے علاوہ ہماری معیشت کی فالٹ لائن بھی معاشی ترقی اور مساوات کے راستے میں رکاوٹ ڈالتی ہے۔‘‘ڈاکٹر صاحب کا یہ جملہ نیب کی ناقص کارکردگی اور این آراو کے پھیلائے ہوئے گند کی تمام کہانی جامع طریقے سے بیان کرتا ہے۔ 
معاشرے میں پھیلے ہوئے منفی رویے کی ایک بڑی وجہ بدعنوانی کو قبول کرتے ہوئے جرم کی بجائے معمول کی زندگی کا ایک حصہ سمجھنا ہے۔ بدقسمتی سے آزادی کے 68 سال بعد آج جس مقام پر ہم پہنچے ہیں، وہ یہی ہے۔ آزادی کے فوراً بعد ہی پاکستان غیر قانونی طریقے سے زمین حاصل کرنے کی ایک جنت بن گیا تھا جب الاٹ منٹ مافیا سرگرم ِعمل ہوگیا۔ اُس عمل نے بہت سوں کو راتوں رات امیر کردیا۔ بعد میں یہی لوگ سیاست دان اور اعلیٰ افسر بن کر قوم کی قسمت سے کھیلنے لگے۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ ایف بی آر کی طرف سے 2014ء میں شائع کردہ ٹیکس ڈائریکٹری 2013ء میں ارکان پارلیمنٹ نے بہت کم آمدنی اور اثاثے ظاہر کیے۔اس صورت ِحال کے ہوتے ہوئے جتنی مرضی راہداریاں بنالیں، پاکستان ترقی نہیں کرسکتا اور نہ ہی عام آدمی کی زندگی میں کوئی بہتری آسکتی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں