محصولات،بدعنوانی اور علماکرام

یہ بات باعث طمانیت ہے کہ آج کل پاکستان میں دولت مندوں سے واجب ٹیکسز کی وصولی اور سب کے احتساب کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ بائیس نومبر 2015ء کو لاہور میں تنظیمِ اتحادِ امت کانفرنس میں ملک بھر سے شرکت کرنے والے دو سو سے زائد علما کرام اور مذہبی دانشوروں نے اعلان کیا کہ ٹیکس کی عدم ادائی شریعت کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔ کانفرنس نے ہر شہری کو آمدنی کے مطابق ٹیکس ادا کرنے کی ہدایت کی۔ علما کرام نے حکومت پر زور دیا کہ وہ ملک کے ارب پتی افراد کے نام ظاہر کرے‘ اور اُن میں سے ہر ایک سے آمدنی کا ساٹھ فیصد بطور انکم ٹیکس وصول کیا جائے۔ 
کانفرنس میں سود پر قرض لینے کی سرکاری پالیسی کو مسترد کرتے ہوئے اسے اسلام کے خلاف قرار دیا گیا۔ شرکا نے ''تحفظِ وطن اور بدعنوانی کے خاتمے‘‘ کے لیے تحریک چلانے کا بھی اعلان کیا۔ کہا گیا کہ بہت جلد اس مطالبے پر عوام کے دستخط حاصل کرنے کی مہم شروع کی جائے گی۔ انہوں نے ملک میں رہنے والی تمام اقلیتوں کے مساوی حقوق کا بھی مطالبہ کیا۔ علما حضرات نے عہد کیا کہ وہ جمعہ کے خطبات میں بدعنوانی کے خاتمے کو موضوع بنائیں گے۔ اس پلیٹ فارم سے ستائیس نومبر کو یعنی آج ''یومِ احتساب‘‘ منانے کا بھی اعلان کیا گیا۔ یہ سب فیصلے اور اعلانات قابل ستائش ہیں۔ راقم الحروف بہت عرصے سے منصفانہ ٹیکس کی وصولی‘ بدعنوانی کے خاتمے اور پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بنانے کی بات کر رہا ہے۔ 
کسی معاشرے کو کوئی انتہائی مایوسی اگر گرفت میں لے سکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ وہاں بدعنوانی کو معمول سمجھ کر قبول کر لیا جائے۔ بدقسمتی سے آزادی کے بعد کے سات عشروں میں پاکستانی معاشرہ اس نہج تک پہنچ چکا ہے۔ جو چیز صورتِ حال کو مزید تکلیف دہ بنا دیتی ہے‘ یہ ہے کہ عوام کی اکثریت بدعنوانی کو زیر بحث لانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتی‘ حالانکہ یہ شہریوں کی زندگی پر بہت منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ ہمارا معاشرہ بدعنوانی سے نباہ کرنا سیکھ چکا ہے۔ پیسہ سب سے بڑی حقیقت سمجھا جاتا ہے، اور اس بات کی مطلق پروا نہیں کی جاتی کہ یہ کن ذرائع سے آیا ہے، نہ کسی کو شرمندگی ہوتی ہے، نہ کوئی چھپانے کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔ سمگلنگ سے لے کر اسلحے اور منشیات کی فروخت تک‘ ہر طرح کے گھنائونے دھندوں سے دولت کے ڈھیر لگا کر معاشرے میں اشرافیہ کا درجہ حاصل کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد حکومت اس کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے سکیمیں شروع کر دیتی ہے۔ دنیا کے مہذب ممالک میں کالا دھن رکھنا انتہائی سنگین جرم شمار ہوتا ہے، لیکن ہمارے ہاں حکومت اس کی پردہ پوشی کرتی ہے۔ اس نے ایسے شرفا کے تحفظ کے لیے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کا سیکشن 111(4) بنا رکھا ہے۔ آپ صرف کسی منی ایکس چینج میں جائیں‘ تھوڑی سی ٹرانسفر فیس ادا کریں‘ اور آپ کے نام بیرونی ممالک سے رقم منگوا لی جائے گی۔ اس رقم پر کوئی قومی ادارہ آپ سے حساب نہیں مانگ سکتا۔
علمائے کرام سے گزارش ہے کہ وہ ایسے کالے قوانین کے خاتمے کا بھی مطالبہ کریں۔ اس کالے دھن کی چمک ملک میں ہر جگہ جلوہ گر دکھائی دیتی ہے۔ عالی شان بنگلے، مہنگی گاڑیاں، غیر ملکی سفر، ہوٹلنگ اور سمگل شدہ سامان سے بھری ہوئی مارکیٹیں۔ کسی شادی کی تقریب میں جائیں تو لگتا ہے کہ سینکڑوں گاڑیوں کا لشکر کسی شہر کو فتح کرنے جا رہا ہے۔ یہ اُس ملک کا حال ہے‘ جس کی معیشت غیر ملکی قرضوں پر چلتی ہے۔ کالے دھن اور ٹیکس چوری نے معاشرے کی اخلاقی قدروں پر جھاڑو پھیر دیا ہے۔ ہمارے ہاں دیانت ایک کمزوری اور بددیانتی اور دھوکہ دہی سے کمائی ہوئی دولت کا اظہار شرافت اور حسب و نسب کی علامت بن چکا ہے۔ اس کی وجہ سے عام آدمی کا محنت اور راست بازی اور زرق حلال کی برکت سے اعتماد متزلزل ہو چکا ہے؛ چنانچہ اس میں مطلق مبالغہ آرائی نہیں کہ حرام ذرائع سے حاصل کی گئی دولت نے کینسر کی طرح ملکی معیشت کو جکڑ رکھا ہے۔ اگر اس کا علاج نہ کیا گیا تو معیشت کی موت واقع ہو سکتی ہے، اور یہ دنیا میں کوئی انہونی نہیں ہو گی۔ 
چونکہ ہماری حکمران اشرافیہ دونوں ہاتھوں سے دولت جمع کرنے کا خبط رکھتی ہے، اس لیے عام لوگ بھی اسی راہ پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ بھی مہنگی اور پُرتعیش زندگی کے خواب دیکھتے ہیں۔ جب معمول کی آمدن اُن خوابوں کو پورا کرنے میں ناکام رہتی ہے‘ تو پھر وہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے؛ چنانچہ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ لوگ بدعنوانی کو 
زندگی کا ایک حصہ سمجھ کر قبول کر چکے ہیں۔ اس طرز عمل کا خطرناک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ معاشرے میں حقوق پر صرف دولت مند طبقے کی اجارہ داری قائم ہو چکی ہے۔ عوام کو تعلیم، صحت، ہائوسنگ، ٹرانسپورٹ کی ضرورت ہے‘ لیکن ان کے حقوق کو مہنگے منصوبوں کی بھینٹ چڑھا کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ سرکاری افسران نے عوام کی خدمت کرنا ہوتی ہے‘ لیکن اُن کا رویہ ایسا ہوتا ہے‘ جیسے وہ عوام پر کوئی احسان کر رہے ہوں۔ سرکاری نوکری سب کو اس لیے مرغوب ہوتی ہے کہ اس میں کچھ کرنا نہیں پڑتا۔ اگر عوام کا کام کرنا بھی ہو تو رشوت لیے بغیر نہیں ہو گا۔ حکمرانوں میں سے کوئی ایک‘ کسی دن بھیس بدل کر بتائے بغیر سرکاری دفاتر کی کارگزاری دیکھ لے‘ تو اُس کے چودہ طبق روشن ہو جائیں‘ اور پتہ چل جائے کہ وہ کس گورننس کی تشہیر کرتے ہیں اور حقیقت کیا ہے۔ 
اس حوصلہ شکن تصویر کا تاریک ترین پہلو یہ ہے کہ جو افراد اس بدعنوانی کو روکنے اور اس کا قلع قمع کرنے کی ذمہ دار ی رکھتے ہیں، جیسا کہ سیاست دان، سرکاری افسران اور قانون نافذ کرنے والے ادارے، وہ اسے اپنی پہلی ترجیح نہیں سمجھتے۔ جو سیاست دان انتخابات پر بھاری رقوم بے دریغ خرچ کر ڈالتے ہیں، مت سوچیں کہ وہ سب کی سب محنت سے کمائی ہوئی رقم ہوتی ہے۔ اُن سے یہ توقع کرنا عبث ہو گا کہ وہ اقتدار میں آ کر بدعنوانی کا خاتمہ کریں گے۔ غیر حقیقی ٹیکس قوانین بھی انڈر گرائونڈ معیشت کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ اس خاموش شراکت داری کا اندازہ لگانا ہو تو دیکھیں کہ بدعنوانی کرنے والوں (اگر کبھی پکڑے جائیں) کو کتنے مضحکہ خیز جرمانے ہوتے ہیں (نیب کے پلی بارگین کیسز چشم کشا مثالیں)۔ سمجھ نہیں آتی کہ انسان ہنسے یا روئے۔ اربوں کا غبن اور چند کروڑ میں سب حساب کتاب صاف۔ 
ماضی میں بدعنوانی کا احتساب کرنے کے لیے بہت سے کمیشن قائم کیے گئے۔ ان کی سفارشات کیا تھیں، کسی کو یاد نہیں؛ تاہم ہر کوئی جانتا ہے کہ منتخب نمائندے اپنی حیثیت سے فائدہ اٹھا کر بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہیں۔ وہ ملازمتیںدینے، ٹرانسفر کرانے اور دیگر سرکاری امور میں مداخلت کرکے بھاری رقوم حاصل کرتے ہیں۔ اس طرح بیوروکریسی میں ان کے من پسند افراد آ جاتے ہیں؛ چنانچہ اُن کے احتساب کے تمام دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ عدلیہ بھی اس ناپاک الائنس کو توڑنے کے لیے کچھ نہیںکر پاتی۔ اگر نظام کو مزید خرابیوں کا شکار ہونے سے بچانا ہے‘ تو تادیبی کارروائی عمل میں لانا ہو گی، اور ایسا ہنگامی بنیادوں پر کرنا ہو گا۔ سیاست دانوں کی یہ دلیل غلط ہے کہ اُن کا احتساب ووٹ کے ذریعے ہو گا۔ دنیا کے کسی جمہوری ملک میں ایسی فضول بات سننے کو نہیں ملتی۔ وہاں اہم ترین سیاست دان بھی عدالتوں میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ وقت آ گیا ہے‘ جب مالیاتی بدعنوانی کو بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی طرح ملک بچانے کی مہم کا حصہ سمجھا جائے۔ اس حوالے سے شاید سب سے بھاری ذمہ داری جج حضرات پر عائد ہوتی ہے۔ عوام کا بھی فرض ہے کہ وہ ایسے سیاست دانوں کو منتخب کریں‘ جن کا وہ احتساب کر سکیں۔ رعونت اور خود پسندی کو ووٹ کی طاقت سے گھر کا راستہ دکھانا ہو گا۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو جمہوریت ملک کو کچھ نہیں دے سکے گی، چاہے جتنے مرضی انتخابات کرا لیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں