ٹیکسوں کی دردناک کہانی

تاریخی طور پر برصغیر کی آبادی کا بڑا حصہ مختلف طرح کے محصولات ادا کرنے کی وجہ سے غریب تھا، سوائے ان کے جو غیر ملکی حکمرانوں کے حمایتی یا پروردہ تھے‘ یا ان کے جو غیر منصفانہ نظام میں دولت کے ارتکاز کے باعث ہمیشہ سے مراعات یافتہ طبقات میں شامل تھے۔ غیر ملکی حکمرانوں سے آزادی حاصل کرنے کا ایک بڑا محرک یہ تھا کہ غریب لوگ بھی خوشحال ہوں گے‘ اور ہم دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور سماجی اور معاشی ناہمواریوں سے نجات حاصل کر پائیں گے‘ لیکن افسوس، یہ خواب آج بھی خواب ہی ہے۔ آزادی کے بعد پاکستان میں اور بھی تکلیف دہ زیادتیوں کا آغاز ہو گیا‘ جب صوبوں سے اشیا پر سیلز ٹیکس لگانے کا اختیار چھین لیا گیا‘ جو Government of India Act 1935 کے تحت ان کو حاصل تھا۔ 1948ء میں آئین ساز اسمبلی نے یہ کہہ کر اس کو وفاقی دائرہ کار میں شامل کر لیا کہ وسائل میں بہتری آتے ہی یہ اختیار واپس صوبوں کے حوالے کر دیا جائے گا۔ وہ دن آج تک نہیں آیا۔ یہ مسئلہ نہ تو صوبوں نے اٹھارہویں ترمیم کے وقت اٹھایا‘ اور نہ ہی کسی National Finance Commission Award کے وقت۔ وفاقی حکومت نے سیلز ٹیکس کو اس طرح نافذ کیا کہ غریب اور متوسط طبقات پر بوجھ بڑھتا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ پسماندہ صوبوں کو اس حق سے محروم رکھا گیا کہ وہ اپنے علاقوں میں پیدا ہونے والی اشیا پر سیلز ٹیکس لگا کر اتنے محاصل حاصل کر سکیں کہ خود انحصاری کی منزل پا سکیں۔ ان کو دانستہ طور پر پسماندہ رکھنے کا نتیجہ 1971ء میں ملک کے دو لخت ہونے کی صورت میں ظاہر ہوا۔
1958ء سے 1971ء تک امیر لوگوں کو اس قدر مراعات ملیں کہ پاکستان کو 22 خاندانوں کی آماجگاہ سمجھا جانے لگا۔ آمدن اور دولت میں بے پناہ ناہمواریوں، امیر اور غریب کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج نے پاکستان کو اس دور میں ایک ایسی ریاست بنا دیا‘ جہاں قومی وسائل کا ارتکاز چند ہاتھوں میں تھا۔ امیر لوگوں سے مناسب ٹیکس وصول نہ کرنے کی وجہ سے مالیاتی خسارہ بتدریج بڑھتا رہا اور ساتھ میں قرضوں کا بوجھ بھی۔ یہ ناپسندیدہ عمل آج بھی جاری ہے۔ اسی زمانے میں امیروں پر لگائے گئے Progressive ٹیکسز یعنی Estate Duty اور Gift Tax کو ختم کیا گیا‘ حالانکہ یہ ٹیکسز دولت کا ارتکاز توڑنے میں معاون تھے۔ 
1971-1977ء کے درمیانی عرصہ میں ادارے قومیائے گئے۔ اسلامی مساوات اور سماجی انصاف کے نعرے 1973ء کے آئین میں اور سیاست میں تو عام ہوئے مگر عملاً جاگیرداری کا نظام مضبوط ہوا اور غریب لوگوں کی حالت بہتر نہ ہو سکی۔ خوش قسمتی سے 1977ء میں زرعی اصلاحات اور زرعی انکم ٹیکس کے قوانین پہلی دفعہ اسمبلی سے پاس ہوئے۔ یہ بات فوجی جرنیلوں اور جاگیرداروں کو ناگوار گزری۔ اُنہوں نے سیاسی کشیدگی اور ملا تاجر اتحاد کے ذریعے منتخب حکومت کا تختہ اُلٹ دیا‘ اور 1979ء میں بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ پاکستان میںمختلف گٹھ جوڑوں نے ہمیشہ طفیلی سیاست دانوں کو برائے نام حکومت کرنے دی اور جس نے اُن کو عوام کی طاقت سے زیرنگوں کرنے کی کوشش کی‘ اُس کی زندگی کا ہی خاتمہ کر دیا۔ اِس کی ایک اور مثال بے نظیر بھٹو کا 27 دسمبر 2007ء کو قتل تھا۔
1977ء سے 1988ء تک یقینا سیاہ ترین دور تھا. اس دور میں امیر غریب کے درمیان خلیج اور بھی بڑھ گئی، کیونکہ ٹیکسوں کے نظام کو امیروںکے لیے مزید پُرکشش بنا دیا گیا تھا۔ اس زمانے میں Agricultural Income Tax اورCapital Gain Tax کو ختم کیا گیا‘ اور زرعی اصلاحات کو غیر اسلامی قرار دے کر دفن کر دیا گیا۔ محاصل غریبوں سے زیادہ وصول کر کے امیروں کے فائدے کے لیے استعمال کیے گئے۔ ریاستی املاک بشمول زرخیز زرعی زمینیں Awardاور Reward کے نام پر طاقتور طبقوں میں بانٹ دی گئیں‘ جس سے ارتکازِ دولت ہوا‘ اور نو دولتیے سیاستدانوں کا ایک نیا طبقہ وجود میں آیا۔ اس طبقہ کا طرزِ حکمرانی دولت سمیٹنا اور اجارہ داریاں قائم کرنا تھا۔ یہ طبقہ آج بھی پیسے کی طاقت کے بل پر سیاست میں چھایا ہوا ہے۔ ضیاالحق کے دور میں غریب اور پسماندہ طبقات شدید مشکلات کا شکار رہے‘ اور ایک تہائی آبادی سطحِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پہ مجبور ہوئی۔ ضیاالحق کی باقیات کو آج بھی طاقت ور طبقات کی حمایت حاصل ہے‘ اسی لیے وہ کرپشن کریں تو ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ کوئی اُن کے اندرونی اور بیرونِ ملک اثاثوں کی انکوائری نہیں کرتا۔
یہ بات بالکل واضح ہے کہ پاکستان میں غربت کا غیر منصفانہ نظامِ محاصل کے ساتھ براہِ راست تعلق ہے‘ کیونکہ بالواسطہ ٹیکسوں کے ساتھ ساتھ براہِ راست ٹیکس بھی وصول کیے جاتے ہیں اور امیر لوگ اِس کا بوجھ صارف پر ڈال دیتے ہیں۔ 1999ء سے 2005ء تک براہِ راست ٹیکسوں (Direct Taxes) کو مزید کم کر دیا گیا اور Wealth Taxختم کر دیا گیا۔ پرویز مشرف اور شوکت عزیز‘ دونوں نے مل کر طاقتور طبقات کو ٹیکسوں کے حوالے سے لاتعداد مراعات دیں۔
2008ء سے 2015ء تک جمہوری حکومتوں میں پرانی پالیسیوں کا تسلسل جاری ہے‘ جن میں امیروں پہ ٹیکسوں کا بوجھ کم اور غریبوں پہ زیادہ ہے۔ علاوہ ازیں وسائل کا بے جا ضیاع ہو رہا ہے، لوگوں کو بنیادی ضرورتوں کی فراہمی نہ ہونے کے برابر ہے اور معاشی ناہمواریوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ موجودہ حکومت نے تو حد ہی کر دی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار 17 سے 50 فیصد تک سیلز ٹیکس نافذ کیا گیا ہے اور 30 نومبر 2015ء کو منی بجٹ کے ذریعے 40 ارب کے مزید ٹیکسز نافذ کر دیے گئے ہیں۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ:
وہ لوگ جو روزانہ دو ڈالر سے بھی کم کماتے ہیں (تقریباً60 ملین لوگ) ظالمانہ ٹیکسوں کے بوجھ سے بے حال ہیں اور ریاست اُن کی حالت بہتر کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔
حکومتی قرضوں میں اس قدر اضافہ ہو چکا ہے کہ کل ٹیکسوں کا ساٹھ فیصد صرف سود کی مد میں چلا جاتا ہے۔
ٹیکسوں سے چھوٹ، امیروں کو مراعات اور اس کے علاوہ طاقتور طبقات (جرنیل، جج‘ اعلیٰ سرکاری افسر اور حکومتی عہدیدار( کو بے شمار رعایتوں کی وجہ سے ریاست کو سالانہ 1000 ارب کا نقصان ہوتا ہے۔ 
امیر لوگ بالکل ٹیکس ادا نہیں کرتے یا شرمناک حد تک کم ادا کرتے ہیں۔ اندازہ اس بات سے لگائیں کہ 2014ء میں صرف 3633 لوگوں نے 10 ملین سے زیادہ ٹیکس ادا کیا۔
کروڑوں بچے تعلیم کی سہولت سے محروم ہیں‘ اور صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
یہ سب حقائق اس حقیقت کو ثابت کرتے ہیں کہ خوشحال اور منصفانہ نظام کا خواب آزاد پاکستان میں آج بھی ادھورا ہے۔ استحصالی نظام کا خاتمہ اور ہر ایک سے اس کی استعداد اور کام کے مطابق معاوضہ کا آئینی وعدہ (آرٹیکل 3) پچھلی چار دہائیوں سے پورا نہیں ہوا۔ یہ المناک داستان 2015ء کے اختتام کے قریب بیان کرنے کا مقصد حکمرانوں کو آئینہ دکھانا ہے کہ شاید وہ خوفِ خدا کریں‘ اور پاکستان کے مفلس عوام سے کئے گئے آئینی وعدے ہی پورے کر دیں‘ اگرچہ سیاسی وعدے پورے کرنا اُن کے بس، بلکہ ترجیحات کے دائرے سے باہر ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں