ٹیکس میں چھوٹ کی ایک اور سکیم کیوں؟

ایف بی آر نے ایک مرتبہ پھر تسلیم کیا ہے کہ وہ تاجروںکے طاقتور طبقے کو اُس طرح ٹیکس گوشوارے جمع کرانے پر مجبورنہیں کرسکا جس طرح وہ عام شہریوں کو کرتا ہے ۔ حکومت ِ وقت بھی، جیسا کہ توقع تھی، طاقتور ٹیکس چوروں کو تحفظ دینے کے لیے ایک اور سکیم لا رہی ہے ۔ یہ سکیم ٹیکس چور ی کو قابل ِ مواخذہ جرم قرار نہ دینا(Decriminalize)ہے اور پریس رپورٹس کے مطابق اسے پارلیمنٹ کو بائی پاس کرتے ہوئے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نافذ کیا جائے گا۔ جائے حیرت ہے کہ ایسے افراد کی جائیدادیں ، جو اُنھوں نے کالے دھن سے بنارکھی ہیں، ضبط کرنے کی بجائے حکومت اُنہیں مزید چھوٹ دینے جارہی ہے۔ اس مجوزہ سکیم کے نمایاں خدوخال مندرجہ ذیل ہوں گے۔ 
یہ سکیم پچاس ملین روپے تک کے کالے دھن اور کاروباری سرمائے ، جس پر ٹیکس ادا نہیں کیا گیا، کو سفید کردے گی۔ اس سکیم سے استفادہ کرنے والے تاجرتین سال کے لیے آڈٹ سے مستثنیٰ ہوں گے اور ان کی آمدنی کے ذرائع کی بابت بھی کوئی سوال نہیں پوچھا جائے گا۔ اُنہیں پہلے سال اپنے اعلان کردہ کاروباری کے اثاثوں پر صرف ایک فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ انکم ٹیکس کے گوشوارے جمع کرانے والوں کے لیے اپنے سرمائے کو سفید کرنے کے لیے مواقع میسر ہوںگے۔ 250 ملین روپے سے زائد ٹرن اوور پر0.1 فیصد، سو سے دوسوپچاس ملین روپے کے ٹرن اوور پر 0.15 فیصد اور پچاس سے سو ملین روپے کے ٹرن اوور پر 0.2 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ اس سکیم کا نفاذ یکم جنوری، یعنی کالم کی اشاعت کے دن سے، ایک ماہ کے لیے ہوگا، اور اس میں کوئی توسیع نہیں کی جائے گی۔ 
پریس رپورٹس کے مطابق اگرچہ تاجر حضرات برائے نام ٹیکس ادا کرتے ہوئے غیر اعلانیہ اثاثوں کو سفید کر لیں گے لیکن حکومت گوشوارے جمع نہ کرانے والوں کو بنکوں کے لیے رقوم کی ترسیل پر ودہولڈنگ ٹیکس کی چھوٹ دینے کے لیے تیار نہیں۔ یہ ٹیکس انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے سیکشن 236P کے تحت لگایا گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب ایف بی آر نے ٹیکس جمع کرنے کا ایک آسان طریقہ دریافت کرلیا ہے۔ اٹھاون ودہولڈنگ پرویژنز حاصل کردہ مجموعی انکم ٹیکس کا پینسٹھ فیصد ہیں۔ ترسیلات پرنہ صرف بہت سے ٹیکسزہیں بلکہ ان کے بہت سے مراحل بھی ہیں۔ اپنی تنخواہ وصول کرنے اور واجب ٹیکس ادا کرنے کے بعد ایک تنخواہ دار شخص سے موبائل فون کے استعمال یا بچوں کے تعلیمی اخراجات پر مزید ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ یہ عام آدمی پر صریحاً ظلم ہے۔تاجروں کو بھی اسی صورت ِحال کا سامنا ہے۔ وہ بجلی کے بلوں پر ایڈوانس ٹیکس ادا کرتے ہیں، لیکن اگراس طرح حاصل کیا گیا ٹیکس بیس ہزار سے تجاوز کرجائے تو کوئی ریفنڈ نہیں کیا جاتا۔ 
ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل پاکستان نے مذکورہ تجویز پر شدید احتجاج کیا ہے۔ اس نے وزیر ِا عظم پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ یہ تجویز پیش نہ کریں کیونکہ ایسا کرنا ''مالیاتی این آر او‘‘ کے مترادف ہوگا۔ اس سے عا م شہری کونہیں، صرف بڑے بڑے ٹیکس چوروں کو ہی فائدہ ہوگا۔ فی الحال محترم فنانس منسٹر اور ایف بی آر کے چیئرمین نے عوام کو یہ بتانا مناسب نہیں سمجھا کہ اس کے ذریعے کتنے ٹیکس چور ٹیکس کے دائرے میں لائیں جائیں گے ، نیزماضی میں اس طرح کی سکیموں کا کیا حشر ہوا تھا؟حیرت ہے کہ میڈیا ان باتوں کا سراغ لگانے کی کوشش کیوں نہیں کرتا حالانکہ ٹیکس چوری بھی اتنا ہی سنگین جرم ہے جتنی دہشت گردی اور انتہا پسندی۔ درحقیقت ان سب کا تعلق کالے دھن سے بنتا ہے۔ کئی برسوںسے چیئرمین ایف بی آر کا دعویٰ رہا ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ کتنے اور کون کون سے افراد اپنی اعلانیہ آمدنی سے بڑھ پرتعیش زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ اگر چیئرمین صاحب کی بات پر یقین کرلیا جائے تو پھر اُن پر ہاتھ ڈالا جائے، اُنہیں بے نقاب کرنے کے لیے سکیم شروع کرنے کی کیا ضرورت ہے؟اُنہیں تو ٹیکس چوروں کے خلاف مبینہ ''این آر او ‘‘ نہیں، آپریشن ضرب ِ عضب شروع کرنا چاہیے تھا۔ 
اگرچہ ملک میں بھاری بھرکم کالے دھن کی موجودگی اور فعالیت کا اعتراف سبھی کرتے ہیں، لیکن سزا دینا تو کجا، ان ''شرفا‘‘ کے 
چہرے بے نقاب کرنے کی کوشش بھی نہیں کی جاتی۔ یہ صورت ِحال ایماندار ٹیکس دہندگان اور شہریوں کو پریشان کردیتی ہے۔ وہ بجا طور پر سوال کرتے ہیں کہ سیاسی مفاہمت، بدعنوانی، ٹیکس وصول کرنے والے اداروں کی نااہلی اور کوتاہی کی قیمت صرف اُنہیں ہی کیوں چکانی پڑے؟ بدعنوان افراد ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی دولت کو کچھ سال تک چھپا کررکھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ حکومت گاہے گاہے، ہر دوسرے سال، ٹیکس میں چھوٹ دینے کے لیے کوئی نہ کوئی سکیم شروع کرتی ہے، چنانچہ وہ اس سے فائدہ اٹھا کراپنے اثاثے سفید کرلیتے ہیں۔ یہ افسوس ناک صورت ِحال ہے کیونکہ تمام ریاستی ڈھانچہ اُن افراد کے رحم وکرم پر ہے جو کالے دھن کو سفید کرنے کے بعد معاشرے کو کنٹرول کرتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ایسا نہ کرنے والے قانون پسند شہریوں کو بھاری ٹیکس اداکرنے پڑتے ہیں۔ چنانچہ ہم سیاست، انتظامیہ اور طاقت کی دیگر راہداریوں میں اس کالے دھن کی جلوہ گری دیکھتے ہیں۔ شاید پاکستان سے زیادہ دنیا کا کوئی ملک نہیں جانتا کہ ٹیکس چوروں کو مراعات کیسے دینی ہیں اور ان کے سر پر شرافت کا تاج کیسے رکھنا ہے ۔ دنیا کے دیگر ممالک میں ایسے افراد کی جائیداد ضبط کرکے اُنہیں جیلوں میں ڈالا جاتا ہے اور ایسے افراد زندگی بھر کسی عوامی عہدے کے لیے نااہل ہوجاتے ہیں لیکن ہمارے دیس میں گنگا الٹی بہتی ہے۔ ٹیکس میں چھوٹ دینے والی سکیم پر سب سے پہلا اعتراض یہ ہے کہ اس سے ایماندار ٹیکس دہندگان کی حوصلہ شکنی، بلکہ حق تلفی ہوتی ہے۔ اس سے پیغام یہ جاتا ہے کہ بھاری اثاثے رکھنے والے ٹیکس ادا کرنے کی بجائے انتظار کرلیں، جلد ہی کوئی سکیم آنے والی ہوگی ، چنانچہ وہ معمولی سی رقم ادا کرکے اس دھن کو سفید کرلیں۔
ایک ٹیکس دہندہ ، جس کی درخواست کسی بدعنوان افسر کی میز پر پڑی ہے ، اُسے بدعنوانی کے خلاف لڑنا پڑتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت پوری شعوری کوشش سے ٹیکس دہندگان کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے اُنہیں باور کراتی ہے کہ وہ نادان نہ بنیں، تھوڑاانتظار کر لیں ، کوئی اچھی سی سکیم آتی ہوگی۔ اس سے نہ صرف ریاست کو مالی نقصان ہوتا ہے بلکہ حکومت کی ساکھ بھی جاتی رہتی ہے لیکن یہ مخصوص حلقوں کو خوش رکھنے کے لیے یہ رسک لیتی رہتی ہے۔ آزاد ذرائع کے مطابق ملک میں کالے دھن کی متوازی معیشت کے حجم میں بائیس فیصد سالانہ کے حساب سے اضافہ ہورہا ہے۔کہا جاتا ہے کہ پاکستانی بنکوںسے ترسیل ہونے والا ہر پانچواں روپیہ ''کالا‘‘ ہوتا ہے۔ اس کالے دھن کے ہاتھ بہت دور دور تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ٹیکس چور ی کے علاوہ غیر ملکی تجارت، اسلحے کی خریداری، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے مبینہ طور پر بھاری رقوم مختلف جیبوں میں جارہی ہیں۔ بدعنوان ذرائع سے حاصل کیے گئے اس روپے نے معاشرے کی اخلاقی اقدار کا جنازہ نکال دیاہے۔ آج پاکستان میں شیکسپیئر کے ڈرامے ''اوتھیلو‘‘ کے کردار ایاگو کا مشہور جملہ عملی صورت میں ڈھلتا دکھائی دیتا ہے۔۔۔'' دنیا میں ایماندار اور سیدھا سادا ہونا خطرے سے خالی نہیں۔‘‘لوگ اس کی حکمت کو سمجھتے جارہے ہیں۔ چنانچہ منصفانہ ٹیکس نہ لگانے اور ٹیکس چوروں کو چھوٹ پر چھوٹ دیے چلے جانے کا ہم بھاری خمیازہ بھگت رہے ہیں، اور ابھی مزید بھگتیں گے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں