سماجی جمہوریت کا فقدان

ایف بی آر کے ترجمان کے مطابق پندرہ فروری تک 1664 بلین روپے اکٹھے کیے جاچکے ہیں۔ گزشتہ سال اس مدت کے دوران جمع کی جانے والی رقم کا حجم 1404 بلین روپے تھا۔ چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ اس سال ایف بی آر کی کارکردگی بہت متاثر کن ہے۔ محصولات میں اٹھارہ فیصد اضافے کی ایک وجہ اربوں روپوں کے ریفنڈز کو روکنا ہے (ان کا حجم 250 بلین روپے سے کسی طور پر کم نہیں) تو دوسری وجہ بالواسطہ ٹیکسز میں اضافہ ہے۔ پٹرولیم کی مصنوعات کے علاوہ سینکڑوں اشیا پر ساٹھ فیصد سے لے کر پچانوے فیصد تک ریگولیٹری ڈیوٹی وصو ل کی جارہی ہے۔ دسمبر 2015 ء میں حکومت نے آئی ایم ایف کے کہنے پر تیسرا منی بجٹ پیش کردیا۔ جولائی اور ستمبر کے کوارٹر میں محصولات کے ہدف میں چالیس بلین روپے کی کمی کا جائزہ لیتے ہوئے آئی ایم ایف نے صرف ایک آپشن ہمارے سامنے رکھا کہ کچھ اضافی ٹیکسز عائد کردیے جائیں۔ ہمارے محترم فنانس منسٹر نے دولت مند اور طاقتور طبقے کو ٹیکس کے نیٹ میں لاکر کمی پوری کرنے کی بجائے بالواسطہ جابرانہ ٹیکسز بڑھادیے ہیں۔ اس کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ناگزیر ہے۔ ہماری برآمدات ہر گزرنے والے دن کے ساتھ عالمی منڈی میں مقابلہ کرنے کی سکت سے محروم ہورہی ہیں۔ اس کی وجہ سے بہت سے روایتی مارکیٹس ہمارے ہاتھ سے نکل رہی ہیں لیکن ہم ایف بی آر کو شابا ش دے رہے ہیں۔ 
ایف بی آر کے ترجمان نے مندرجہ بالا حقائق ظاہر نہیں کیے لیکن دعویٰ کیا کہ اس کے ادارے کی کارکردگی غیرمعمولی ہے۔ان کے مطابق ''یہ کارکردگی بہت جلدترقی یافتہ ممالک کی ٹیکس اتھارٹی کے ہم پلہ ہو جائے گی‘‘حقائق اس کے برعکس ہیں۔ایکسپورٹرزاورٹیکس دہنددگان کو ری فنڈ واپس نہیں کئے جارہے۔یہ سلسلہ کئی سال سے جاری ہے۔غیرمصدقہ خبروںکے مطابق حکومت ری فنڈکی بجائے بانڈ جاری کرے گی۔کامرس منسٹر خرم دستگیر نے ایران اورترکی کے ساتھ فری ٹریڈایگریمنٹ کی تفصیل سینیٹ کی سٹینڈ نگ کمیٹی کو 16فروری کو پیش کی، ان کا کہنا تھا ''میں نہیں جانتا کہ کس ری فنڈ کے عوض بانڈ جاری کیے جائیں گے‘ یہ ایف بی آر پر ہے کہ وہ کس طرح ری فنڈ واپس کرتی ہے‘‘ جب وزیر اعظم کاروباری برادری سے میٹنگ کرتے ہیںتو یقین دلاتے ہیںکہ ری فنڈ کی ادائیگی کر دی جائے گی۔یہ ہے وہ کارکردگی جس کی بنیاد پر ایف بی آرترقی یافتہ ممالک کے ہم پلہ بننا چاہتا ہے۔
ایف بی آر بہت خوش ہے کہ اس نے ری فنڈنگ روک کر اور بے تحاشا ٹیکس لگا کر محصولات میں اضافہ کر دیا ہے۔ تاہم اس سے صرف دولت مند اور ٹیکس نادہندگان کو فائدہ ہو گا۔ہمارے ہاں دولت مندودہولڈنگ ٹیکس ادا کرتے ہیںمگر ان کی اصل آمدنی ظاہر نہیںہوتی۔ بہت سے لوگ خوشحال ہیں جو باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرتے ہیں، تنخواہ دار طبقے کو بھی ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے لیکن امیروں کے ٹیکس نہ دینے سے ان کا استحصال ہوتا ہے۔غریب اور درمیانے طبقے کے لوگ بھاری ٹیکس ادا کرنے پر مجبور ہیں۔معاشی 
ماہرین یہ احساس کرنے میں ناکام ہیںکہ جب ایک مرتبہ آمدنی ٹیکس ادا کیا جائے توبچت اور رقم کی ترسیل پر ٹیکس نہیں ہونا چاہیے۔کیا کسی اور ملک میں پاکستان کی طرح رقم کی ترسیل پر ٹیکس ہوتا ہے؟ اس کا دوسرا تاریک رخ یہ ہے کہ پسے ہوئے عوام سے ٹیکس پر ٹیکس لیا جا رہا ہے لیکن بدلے میں انہیں کوئی سہولیات مہیا نہیں کی جاتیں۔ زیادہ تر رقم ایسے پراجیکٹس پر لگا دی جاتی ہے جو عوام کی پہلی ترجیح نہیں ہوتے۔ صرف ایک مخصوص روٹ پر اورنج ٹرین جس بجٹ سے چلائی جا رہی ہے اس سے کہیں کم بجٹ میں اچھی اور معیاری بسیں پورے شہر کے روٹس پر چلائی جا سکتی ہیں‘ لیکن ان باتوں کی طرف توجہ کون دے گا؟
تمام دکاندار ، تاجر اور بزنس مین بجلی کے بلوں پر ایڈوانس انکم ٹیکس دیتے ہیں۔ان کا ڈیٹا ایف بی آر کے پاس موجود ہے۔سوال یہ ہے کہ ایف بی آر ان کو نوٹس کیوں نہیںبھجواتا؟ اس سے ایف بی آر کا یہ دعویٰ بے بنیاد ثابت ہوتا ہے کہ2036Pکا مقصد ٹیکس بیس میں اضافہ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ٹیکس جمع نہ کرانے والوں کو اس طرح ڈرانا مسئلے کا حل نہیں۔ایف بی آر کے باس اپنے سیا سی ماسٹرز کو خوش کرتے ہیں تاکہ ان کی کارکردگی کا ناقدانہ جائزہ نہ لیا جائے۔
پاکستان کی حکومت کے سامنے مسئلہ یہ ہے کہ جابرانہ ٹیکسوںکی وجہ سے ٹیکسوں کا ڈھانچہ تباہ ہو گیا ہے۔حکومت کے بیکار اور مہنگے منصوبے بجٹ ہضم کر دیتے ہیں۔ملک میں ایسی کوئی سیاسی جماعت نہیں جو ٹیکس کے نظام کو بہتر بنانا چاہے۔چناچہ غریب آدمی معاشی پریشانیوں کا شکار ہے۔ایف بی آر کے تازہ ترین بیان کے مطابق مالی سال کے پہلے آٹھ ماہ میں 1814بلین روپے اکٹھے کیے گئے ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ اس سال مارچ سے جون تک 1286بلین روپے اکٹھے کرنا ہوں گے۔حکومت اگر اسی ڈگر پر چلتی رہی تو معیشت کا تو بیڑا غرق ہو گا ہی‘ اس کی اپنی رہی سہی ساکھ بھی جاتی رہے گی جس کا اسے آئندہ انتخابات میں خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ بہتر ہو گا کہ ایف بی آر اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھائے۔ صرف بیوروکریٹس اور اشرافیہ کو خوش رکھنے کے لئے نچلے طبقے پر بوجھ نہ بڑھائے بلکہ ٹیکس کے نظام کو شفاف بناتے ہوئے بڑے مگرمچھوں کو بھی ٹیکس نیٹ میں لائے‘ جو اس کی اصل ذمہ داری ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں