امن وامان اور ریاستی بے حسی

ریاست کی بنیاد محصولات وصول کرنا قرار دیا جائے‘ اور پھر لوگوں سے حاصل شدہ رقم سے امن و امان (بذریعہ پولیس اور دوسرے محکمہ جات)، انصاف کی فراہمی (بذریعہ عدلیہ وغیرہ)، دفاع مملکت (بذریعہ فوج اور ذیلی ادارے) کے اغراض و مقاصد پورے ہوں تو لوگ مطمئن ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ صحت، تعلیم، رہائش اور دیگر ضروریات زندگی کی فراہمی تو بہرکیف بنیادی حق کے طور پر ملنے چاہییں۔ مگر آپ ریاست پاکستان میں ان کا حال دیکھیں، یہ بنیادی حقوق تو بہت دور کی بات، حکومتیں لوگوں کے جان و مال کی حفاظت میں بھی مکمل طور پر ناکام ہیں۔ اربوں اور کھربوں روپے کی مقروض ریاست اپنے شہریوں کو دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے حملوں سے بچانے میں اس قدر بے بس دکھائی دیتی ہے کہ وزیروں کی فوج ظفر موج کو مناظروں کے لیے تیار رکھتی ہے کہ وہ ٹاک شوز میں جا کر اِس بات کا دفاع کریں کہ اب ایسے واقعات پچھلے برسوں کے مقابلے میں کم ہو رہے ہیں‘ اور انسانی جانیں نسبتاً کم ضائع ہو رہی ہیں۔ الامان و الحفیظ!
یہ کیسا طرز حکمرانی ہے کہ اہل اقتدار اور ریاستی اشرافیہ کے لیے بہترین حفاظتی انتظامات یہ ہیں کہ اُن کے قریب ایک چڑیا بھی پَر نہ مار سکے‘ دوسری طرف عام آدمی جب چاہے لقمہ ٔ اجل بن جائے اور وہ بھی، جیسا کہ کہا جاتا ہے، صرف چند ہزار دہشت گردوں کے ہاتھوں۔ یہ بے حسی اور لاتعلقی سمجھ سے بالاتر ہے۔ یہ رویہ بلاشبہ ایسی سوچ کا ترجمان ہے جس میں انسانی جان کو قطعاً کوئی اہمیت حاصل نہیں۔ یہ سوچ بے گناہ انسانوں کے لقمہء اجل بننے کو محض امن کا مسئلہ سمجھتے ہوئے سکیورٹی کے نام پر اربوں روپے کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس کے بعد محصولات ادا کرنے کے باوجود وہ لوگوں کو اپنی حفاظت خود کرنے کا درس دیتی ہے، لیکن اپنی جان کی حفاظت کے لیے کروڑوں روپے کا بجٹ مانگتی ہے۔ اُدھر میڈیا اور سول سوسائٹی اصل مسئلے کو اجاگر کرنے کے بجائے محض ''تفریحی مناظروں‘‘ کو ہی فروغ دینے میں لگے رہتے ہیں۔ 
معاشی انصاف کا سب کے لیے آسان اور بروقت حصول ہمارا اوّلین مسئلہ ہے۔ محصولات کے نظام کو درست کیے بغیر اور اتکاز دولت کو رد کیے بغیر یہ ممکن نہیں۔ اس مسئلے پر کتنے ٹی وی ٹاک شوز ہوتے ہیں؟ دوسری طرف حقوق نسواں بل پر ہزاروں گھنٹے صرف کر دیے جاتے ہیں۔ کیا تمام مرد و زن معاشی انصاف کے طالب نہیں؟ کیا سماجی ہم آہنگی اور باہمی اعتماد و تعظیم سب پر لازم نہیں؟ اختلافات کو ہوا دینا، ہر ایک معاملے کو جنگ و جدل بنا دینا‘ اور نفرتوں میں اضافہ کرنا آج کے مشہور و معروف اینکرز کا من پسند مشغلہ ہے۔ اس ضمن میں وہ علمائے سُو سے کسی طرح پیچھے نہیں۔ اشرافیہ ٹیکس ادا نہیں کرتی مگر بجٹ کا بڑا حصہ اس کی عیاشیوں اور حفاظتی انتظامات پر خرچ ہو جاتا ہے۔ ہر موبائل صارف چودہ فیصد انکم ٹیکس ادا کرتا ہے‘ جبکہ میڈیا میں یہ تاثر اجاگر کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں صرف چند لاکھ لوگ ہی انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اینکر حضرات کو ریٹرنز جمع کرانے اور ٹیکس ادا کرنے والوں کے درمیان فرق کا پتہ ہی نہیں۔ اُن لوگوں کے بارے میں قطعاً ذکر نہیں کرتے جو بیرون ملک بڑے بڑے کاروباروں میں سرمایہ کاری کرنے اور جائیداد خریدنے کے لیے پاکستان سے ٹیکس ادا کیے بغیر سرمایہ لے جاتے ہیں‘ مگر عام پاکستانیوں سے‘ جن پر ٹیکس کا اطلاق نہیں ہوتا‘ ایڈوانس میں ہی وصول کر لیا جاتا ہے۔ پھر بھی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے کہ یہ لوگ ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ وہ عام شہریوں کا نام لینا بھی گوارا نہیں کرتے حالانکہ یہی لوگ ٹیکس ادا کرکے ریاست کو چلا رہے ہیں۔ حکمرانوں کی ترجمانی کرتے ہوئے تمام شہریوں کو، جن کی جان و مال کی حفاظت بھی نہیں ہو رہی، مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ کبھی کوشش نہیں کرتے کہ عوام کو دکھائیں کہ بڑی بڑی گاڑیوں میں بیٹھ کر پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں آنے والے منتخب نمائندے کتنا ٹیکس ادا کرتے ہیں؟ کیا کبھی کسی صحافی دوست نے کسی انٹرویو یا ٹاک شو میں سینیٹ یا قومی اسمبلی کے کسی امیدوار سے سوال کیا کہ آپ کے اخراجات تو لاکھوں میں ہیں‘ مگر ٹیکس چند ہزار روپے ہے، تو پھر بقایا اخراجات کے لیے وسائل کہاں سے آ رہے ہیں؟ کیا مراعات یافتہ طبقات سے کبھی پوچھا گیا کہ کئی پلاٹ لینے کے بعد انہوں نے کروڑوں اور اربوں کا فائدہ تو اٹھایا مگر اس پر انکم ٹیکس ادا کیوں نہیں کیا؟
دراصل ہمارا بنیادی ریاستی ڈھانچہ، جیسا کہ پہلے کئی ایک کالموں میں بیان کیا جا چکا، اشرافیہ کے لیے ہے‘ اور یہ شہریوں کو غربت اور بے یقینی کے عالم میں رکھے ہوئے ہے۔ یہ اشرافیہ اُن لوگوں کی حفاظت کی زحمت نہیں کرتی جو تفریح کے لیے پارکوں میں جاتے ہیں۔ لاہور کے گلشن پارک کا سانحہ ہو یا پشاور کے آرمی پبلک سکول کا، یہ سب ریاستی اشرافیہ کی بے حسی کا نتیجہ ہے۔ پولیس اور دیگر محکموں کے حکام بالا کے پاس ہر قسم کی مراعات ہوتی ہیں‘ جبکہ ماتحت عملہ زبوں حالی کا شکار ہو کر معمولی سطح پر بدعنوانی کا ارتکاب کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ آپ ماتحت عملے کو جتنا بھی مورد الزام ٹھہرا لیں، لیکن جب اُن کی تنخواہ دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے کہ وہ اس میں کس طرح دو وقت کا کھانا، بچوں کی فیس، بجلی، گیس اور پانی کے بل اور مکان کا کرایہ ادا کر سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست اور حکومت‘ اُنہیں بدعنوانی پر مجبور کرتی ہیں۔ مزدوروں اور کسانوں کا حال تو ہمارے سامنے ہے۔ سب جانتے ہیں کہ متوسط طبقہ محصولات کے غیر منصفانہ نظام کی وجہ سے کس بری طرح پس رہا ہے۔ یہ ہے ہمارا اصل مسئلہ۔۔۔۔ عوام پر محصولات کی بھرمار، ریاست پر کھربوں کے قرضہ جات کا بوجھ اور پھر حکمران اشرافیہ کی عیاشیاں اور ٹیکس دینے سے گریز۔ حکمرانی کا یہ وتیرہ تبدیل ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ کون نہیں جانتا کہ اس رقم کا ایک بڑا حصہ کس طرح اشرافیہ کے ذاتی استعمال اور بے کار کاموں پر ضائع ہو جاتا ہے۔ یہ بات اعداد و شمار کے ذریعے متعدد بار ثابت کی جا چکی ہے، مگر بقول شاعر۔۔۔ ''شرم تم کو مگر نہیں آتی‘‘۔ 
بے شرمی جیسے الفاظ مطبوعہ صحافت میں موزوں تو نہیں لگتے‘ لیکن ہمارے حکمرانوں اور ریاست میں مراعات یافتہ طبقات کے لیے تو اس سے بھی سخت الفاظ درکار ہیں۔ ان کی سب چالیں عوام پر عیاں ہیں۔ بیانات، اجلاس اور طفل تسلیاں اُن کا وتیرہ ہے۔ ہر چھوٹے بڑے سانحے کے بعد وہ دہشت گردوں اور اُن کے حمایتیوں کو بُرا بھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں۔ نہایت سنجیدہ لہجہ اختیار کرکے کہا جاتا ہے کہ ملک اور سماج دشمن عناصر کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی جائے گی، لیکن یہ سب کچھ معمول ہے۔ اگر ان سے کہا جائے کہ ذرا اپنے حصار سے نکل کر، اپنے تمام حفاظتی اقدامات کو خیر باد کہہ کر عوام کے ساتھ مل کر دہشت گردی کا مقابلہ کریں‘ تو اُن کا جواب معلوم۔ پولیس کے جوان (کم مراعات یافتہ طبقہ) لازوال قربانیاںدے رہے ہیں، عوام وطن کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں لیکن مراعات یافتہ طبقے کا کیا کردار ہے؟ وہ کیک کا بڑا حصہ بھی کھاتے ہیں اور اپنے گرد حفاظتی حصار قائم رکھتے ہیں۔ اس دوران عوام پر محصولات کا دبائو بھی ہے‘ اور وہ دہشت گردی کے خطرے کی زد میں بھی ہیں۔ پس چہ باید کرد؟ اس ساری صورت حال کے بعد کیا کچھ کہنے کی ضرورت ہے؟ صرف اظہار افسوس ہی ہماری قومی عادت بن چکا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں