پاناما لیکس اور ہماری اشرافیہ

پاناما پیپرز کے انکشافات نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کی اشرافیہ اور احتساب کے نظام کے بارے میں کئی سوالات اٹھا دئیے ہیں۔ عام شہری، جو سیاست دانوں کو ووٹ دیتے ہیں، بے حد نالاں ہیں کہ اُن کے خودساختہ رہنما اپنے مالی معاملات کا دفاع کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ موجودہ حکمران اور ان کے بچے لندن کے مہنگے گھروں میں رہنا اپنا حق سمجھتے ہیں(کہا گیا کہ یہ اُن کی حق حلال کی محنت سے کمائی ہوئی رقم ہے)جبکہ اُن کوووٹ دینے والے لاکھوں افراد غربت کی لکیر سے نیچے، صاف پانی اور زندگی کی دیگر ضروریات سے محروم زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ پنجاب میں کئی کروڑ بچے سکول نہیں جاتے مگر حکمران غیر ملکی ، آف شور کمپنیوں کے ذریعے اپنی دولت کو تحفظ دینے میں مصروف ہیں۔ 
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جلا وطنی کے زمانے میں دولت کیسے اور کہاںسے حاصل کی گئی۔ اگر اس کے ذرائع جائز تھے توپھر اُسے عام لوگوں کے سامنے لانے میں کیا امر مانع ہے۔ پوشیدہ کمپنیاں، جیسا کہ بیرونی اور سمندر پار ، ہمیشہ دولت چھپانے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ان پر یہ کہہ کر پردہ نہیں ڈالا جاسکتا کہ یہ اُ ن کی محنت کی کمائی تھی۔ اگر سیاسی رہنما اپنے مالی معاملات کو پوشیدہ رکھیں تو اُن کے پاس حکمرانی کا حق نہیں رہتا۔ قانونی طور 
پر بدعنوانی سے حاصل شدہ دولت کو ثابت کرنا یا نہ کرنا ایک پہلو ہے ، مگر سیاسی رہنمائوں کے لیے یہ بات ہر گز جائز نہیں کہ وہ اپنے اور اپنے قریبی اہل ِخانہ کے اثاثہ جات نہ بتائیں اور سمندر پار کمپنیوں کا سہار ا لیں۔ اگر وزیر اعظم کے بیٹے خود اپنی ذاتی کمپنیوں کے ذریعے بھی کاروبار کر رہے ہیں تو ان کے اثاثہ جات میں اضافہ کو ایک نظر ضرور دیکھنا ہو گا کہ کیا اس کا تعلق کسی طور پر سرکاری عہدوں کے استعمال سے تو نہیں ۔ مثال کے طور پر اگر وزیر اعظم کے بیٹے اور بیٹیاں پاکستان سے باہر کاروبار کر رہے ہیں اور کسی طور پر پاکستانی حکومت کے ادارے ان کی مدد نہیں کر رہے یا وزیر اعظم کا دفتر اور اثر و رسوخ استعمال نہیں کر رہے تو پھر اثاثہ جات کو بتانے میں کیا حرج ہے ۔ اگر پچھلے چیف آف آرمی سٹاف کے بھائیوں نے ڈی ایچ اے کے ساتھ کاروبار کیا تو کئی انگلیاں اٹھ گئیں۔اگر وزیر اعظم ابھی بھی کئی کمپنیوں کے حصہ دار ہیں تو پھر ان کمپنیوں کو بھی کسی طرح حکومتی اداروں سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے ۔ اگر وزیر اعلیٰ پنجاب کے صاحبزادے پولٹری کے کاروبار میں ہیں تو مرغی کے گوشت میں غیر منطقی اضافہ پر سوال تو اٹھائے جائیں گے ۔ کاروباری حضرات جب اقتدا ر میں ہوں تو ان کے مالی معا ملات پر شہری ہر طرح کا سوال اٹھا سکتا ہے۔ وہ کسی صورت بھی کسی خاص قانون کا سہارا لے کر استثنیٰ نہیں مانگ سکتے۔ آئین پاکستان کا آرٹیکل 19-Aواضح طور پر کہتا ہے کہ '' قانون کے ذریعے عائد کردہ مناسب پابندیوں کے تابع ہر شہری کو عوامی اہمیت کی حامل تمام معلومات تک رسائی کا حق ہو گا‘‘ اس آرٹیکل کے تحت ہر پاکستای شہری کو یہ جاننے کا حق حاصل ہے کہ ان کے اثاثہ جات جائز ذرائع سے حاصل کئے گئے ہیں ۔ یہ پہلو ابھی کسی نے بھی اجاگر نہیں کیا ۔ 
محض ایک عدالتی کمیشن بٹھانے سے ، جس کو باہر کے ملکوں کے کاغذات تک رسائی نہیں ہو گی ، ایک بے معنی قدم ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم کے لیے زیادہ مناسب ہوتا کہ تمام کاغذات عوام کے سامنے رکھ دیتے اور تمام تر بحث و مباحثہ کو ختم کرد یتے۔ اگر وزیر اعظم کے تمام اثاثہ جات جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں ان کے بچوں کے نام ہیں ان کے ذرائع درست ہیں تو پھر ان کو عیاں کرنے میں کیا تردد ؟ یہ عدالتی کمیشن کا تماشا کیوں؟۔ یہ بات انتہائی افسوس ناک ہے کہ ہمارے ملک میں طاقتور طبقات اور اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگ اپنے اثاثہ جات اور آمدنی و اخراجات کو رضاکارانہ طور پر عوام کے سامنے پیش کرنے سے گریزاں ہیں جبکہ تمام جمہوری معاشروں میں ایک لازمی قدم ہے۔ احتساب اور شفافیت کے لیے بہت ضروری ہے کہ تمام جج ، جرنیل ، اعلیٰ سول آ فیسر اور سیاست دان اپنے اور اہل خانہ کے اثاثہ جات کو ہر سال عوام کے لیے پیش کریں ۔ اس سے معاشرے میں ایک ایسی مثال قائم ہو گی جو حقیقی جمہوریت اور معاشی انصاف کی طرف بڑا قدم ہو گا۔ جب اشرافیہ محصولات ادا کرے گی اور اپنے مالی معا ملات کو صاف رکھے گی تو باقی افراد بھی ایسا ہی کریں گے۔ معاشرے میں تبدیلی اور نظام کی بہتری کے لئے یہ اقدامات ضروری ہیں ، پانامہ لیکس کے تہلکہ خیز انکشافات بہتری کی جانب ایک قدم ہیں ۔ اس سے پوری دنیا میں بہتر نظام کی طرف مہم زور پکڑ رہی ہے ۔ دولت چھپانے کا عمل ناپسندیدہ قرار پا رہا ہے ۔ انسانوں کو اس بات کا احساس ہو رہا ہے کہ یہ پوشیدہ دولت تمام لوگوں اور خاص طور پر مستحق طبقات کی فلاح و بہبود پر خرچ ہو سکتی ہے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ اب نئے پاکستان میں بھی اس رجحان کو تقویت حاصل ہو گی اور لوگ پوشیدہ دولت اور محصولات کے منصفانہ نظام کے لیے عملی جدوجہد کریں گے۔پاکستان پہلے ہی بہت سے مسائل کا شکار ہے۔ یہ مزید بحرانوں اور کرپشن کامتحمل نہیں ہو سکتا۔ معیشت کی بہتری کے لئے ضروری ہے کہ بیرون ممالک چھپائی گئی دولت واپس لائی جائے تبھی غیر ملکی سرمایہ کار یہاں سرمایہ کاری کریں گے۔ حکمران خود بھی ٹیکس ادا کریں۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو عوام بھی ان کے نقش قدم پر چلیں گے۔ ٹیکسوں کے نظام کو بہتر بنایا جائے۔ زیادہ سے زیادہ اشرافیہ کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔ ٹیکس چوری کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ جو ٹیکس دے اسے اس کے بدلے میں مراعات بھی دی جائیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ عوام سے ٹیکس لے لیا جائے لیکن بدلے میں عوام کو بجلی پانی اور گیس سے بھی محروم رکھا جائے۔ ان اقدامات کے بعد ہی ہم ملکی حالات میں کسی قسم کی بہتری کی توقع کر سکیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں