بجٹ 2016-17 ء کے لیے تجاویز

آج کل، نئے مالی سال کے لیے، ریاستی محصولات میں اضافے کی خاطر ایف بی آر تمام سٹیک ہولڈرز سے تجاویز طلب کررہا ہے ۔ یہ رسمی کارروائی ہر سال دیکھنے میں آتی ہے ، اور ہر سال عام آدمی اور کاروباری افراد کے مسائل میں اضافہ ہوتا جاتا ہے ۔ نہ تو ایف بی آر پوٹینشل کے مطابق حقیقی ٹیکس اکٹھا کرتے ہوئے مالیاتی خسارے کو کم کرنے میں کامیاب ہوا اور نہ ہی ٹیکس پالیسی میں کوئی بامعانی تبدیلی لائی گئی جس کے نتیجے میں معیشت میں بہتری آتی اور عام آدمی خوشحال ہوتا۔ دراصل ٹیکس اور معاشی ترقی لازم و ملزوم ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ پیداوار بڑھائے ، محصولات میں خودبخود اضافہ ہوتا جائے گا۔ تاہم اس کے لیے ہمیں ایک نئے ٹیکس ماڈل کی ضرورت ہے ۔ 
گزشتہ کئی برسوںسے ان کالموں میں یہ تجویز پیش کی جاتی رہی ہے کہ معیشت کی نمو میں بتدریج ترقی کے لیے ٹیکس کے ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے ۔ ہمیں ہر سال پندرہ سے پچیس لاکھ نئی ملازمتیں پیدا کرنے کے لیے آٹھ فیصد ترقی کی شرح درکار ہے۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے ہم نے ایک پالیسی پیپر ''Towards Flat, Low-rate, Broad & Predictable Taxes‘‘ لکھا اور اسے ایک پبلک پالیسی تھنک ٹینک، پرائم انسٹی ٹیوٹ نے شائع کیا۔ اس سٹڈ ی سے پالیسی ساز اور تمام اسٹیک ہولڈر استفادہ کرسکتے ہیں۔ یہ پیپر وفاقی سطح پر آٹھ ٹریلین روپے ٹیکس سالانہ اکٹھا کرنے کا ایک روڈ میپ دکھاتا ہے۔ فنانس بل 2016ء میں حکومت نے بہتری لانے کی بجائے نظام کو مزید پیچیدہ اور گنجلک بنا دیا تھا، چنانچہ اس میں بنیادی اصلاحات لانے کی ضرورت ہے ۔ 
بدقسمتی سے ہائوس سٹینڈنگ کمیٹی برائے محصولات ہر سال ایف بی آر کے تجویز کردہ غیر حقیقی اور غیر منطقی ٹیکس تجاویز کو منظور کرلیتی ہے ، اور پھر قومی اسمبلی بھی فنانس بل کو ایک ربر سٹیمپ کی طرح پاس کردیتی ہے ۔ بے قاعدہ ٹیکس کا نظام بدستور موجودہ کاروباری ڈھانچے کو تباہ کرتے ہوئے نئی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کررہا ہے ۔ چنانچہ اگر ہم معاشی شرح ِ نمو میں پائیدار اضافے کے متمنی ہیں تو ہمیں اس نظام کو تبدیل کرنا ہوگا۔ بدقسمتی سے اس ضمن میں کسی مثبت اور جاندار پالیسی کی حوصلہ افزائی نہیں کی جارہی ۔ محصولات کا ہدف پورا کرنے کا واحد طریقہ جابرانہ ہتھکنڈوںسے سرمایہ کاری کے ماحول کو خرا ب اور سرمایہ دار کو بددل کرنا ہے۔ لگاتار قائم ہونے والی کئی حکومتوں نے ہمیشہ ٹیکس چوروں اور قومی دولت لوٹنے والوں کی دلجوئی کی ہے ۔ کالے دھن کی موجودگی کو قابل گرفت کبھی سمجھا ہی نہیں گیا۔ اس کی بجائے انتہائی امیراور بااثر افراد ، عوامی عہدیداروں، سول اور ملٹری بیوروکریسی اور اشرافیہ کو سہولیات دینے کے لیے اربوں روپے خرچ کردیے جاتے ہیں کہ ٹیکس اد اکرنے والے عام آدمی کے حصے کچھ نہیں آتا۔
غربت کم کرنے اور ملازمتیں پیدا کرنے کے لیے ہمیں تیز معاشی اور ترقی اور عملی اصلاحات درکارہیں ۔ ایک اچھی ٹیکس پالیسی بچت کے لیول میں اضافہ کرتے ہوئے نئی سرمایہ کاری کے لیے سرمایہ اکٹھا کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے ۔ تاہم پاکستان اس میںایسی کوئی پالیسی دیکھنے میں نہیں آتی۔ چنانچہ حالیہ برسوں کے دوران صنعتیں بند اور معاشی ترقی مفلوج اور پیداوارجمود کا شکار دکھائی دیتی ہے ۔ ایف بی آر ظالمانہ طریقے، جیسا کہ ریفنڈز کی واپسی روکنا، استعمال کرتے ہوئے ملک کو اہم سرمائے سے محروم کردیتا ہے ۔ چنانچہ غیر ملکی سرمایہ کاربھی پاکستان آنے سے کنی کتراتے ہیں۔ چنانچہ پاکستان کی باصلاحیت افرادی قوت کام تلاش کرنے میں ناکام رہتی ہے ۔ اس سے عوام میں مایوسی بڑھتی ہے اور سماجی تنائو میں اضافہ ہوتا ہے ۔ 
پاکستان اُن چند خوش قسمت ممالک میں سے ایک ہے جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں، اور اس کا ماحول ساراسال معاشی سرگرمیوں کے لیے ساز گاررہتا ہے ۔ تاہم عطیات فراہم کرنے والوں کے حکم پر ٹیکس لگانے کی پالیسی اور ہماری نااہل ٹیکس مشینری کی وجہ سے پاکستان کا درآمدی بل بہت بڑھ چکا ہے ، جبکہ برآمدات کا پیمانہ سکڑ چکا ہے ۔ حتیٰ کہ ہماری روایتی برآمدات میں بھی شدید کمی واقع ہورہی ہے ۔ ہم ٹیکنیکل مہارت سے ویلیو ایڈیڈ برآمدات کے قابل نہیں۔ دنیا کی جدید معیشتیں نالج کی بنیاد پر ہیں، اور مستقبل بھی انہی کے ہاتھ میں ہے ،جبکہ ہم اس میدان میں دوردور تک کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ ٹیکنیکل مہارت سے تیار کردہ اشیاکی فروخت کے لیے ضروری ہے کہ ہم تیزی سے اپنی صنعتوں کو جدید اور توانا بنائیں اور ان کی پیداوار میں اضافہ کریں۔ اس کے لیے براہ ِراست غیر ملکی سرمایہ کاری درکار ہوگی۔ تاہم جس وقت پاکستان میں مقامی افراد ہی سرمایہ کاری نہ کررہے ہوں، غیر ملکی سرمایہ کاری کی توقع کرنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے ۔ اس مقصد کے لیے ٹیکس پالیسی اہم ہے جو سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول پیدا کرسکتی ہے ۔ بدقسمتی سے ہمارے بجٹ سازمحصولات کے ہدف کے حصول میں اتنے گم ہوجاتے ہیں کہ وہ معاشی ترقی، سرمایہ کاری اور صنعتی ڈھانچے کی تعمیر کا سوچتے بھی نہیں۔ حالانکہ یہی عوامل ٹیکس میں اضافے کا باعث بنیںگے ۔ 
اس وقت پاکستان کے سامنے انتہائی اہم مسئلہ ہر سال پندر ہ لاکھ سے زائد نوجوانوں کو ملازمت کی فراہمی ہے ۔ اس کے لیے معیشت کو آٹھ سے دس فیصد سالانہ ترقی کی ضرورت ہے ، اور ضروری ہے کہ طویل عرصے تک یہ شرح برقراررہے ۔ یہ ہدف حاصل کرنے کے لیے جی ڈی پی کے 20 فیصد تک کی سرمایہ کاری درکار ہے ۔ یہ چیلنج ہماری معاشی ترقی کے لیے ایک موقع بھی فراہم کرتا ہے ۔ ملازمت کے متلاشی یہ نوجوان ملک کا بہت بڑا سرمایہ ہیں، بشرطیکہ ہمیں انہیں مناسب تعلیم اور مہارتیں سکھاسکیں اور یہ انتہا پسندتنظیموں کے ہتھے نہ چڑھ جائیں۔ یہ نوجوان ملکی ترقی کو حقیقی تحریک فراہم کرسکتے ہیں ۔ موجودہ مایوسی کی فضا کی وجہ علم کی کمی اور نام نہادمعاشی ماہرین کارویہ ہے کیونکہ وہ عطیات فراہم کرنے والوں کی فراہم کردہ دانائی سے آگے سوچنے کے قابل نہیں۔ 
معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ٹیکس کوڈ کے مشکل اور تکلیف دہ عمل کو تبدیل کیا جائے۔اس ضمن میں فلیٹ اور لو ٹیکس ریٹ ایک اہم کوشش ہو گی۔تاہم اصل مسئلہ قوت ارادی کی کمی ہے۔بہتر محصولات کے لیے ایک ریونیو ایجنسی قائم کی جائے جس پر شہر یوں کا اعتماد ہو۔اگر حاصل کردہ رقم کو شہریوں پر خرچ کیا جائے تو ان کا اعتماد بحال ہو گا۔اس وقت شہریوں اور کاروباری افراد کو شکایت ہے کہ ایف بی آر ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے ورنہ وہ ٹیکس ادا کرنا چاہتے ہیں۔ان کا الزام ہے کہ ٹیکس افسران انہیں ہراساں کرتے ہیں۔اسی ضمن میں سیلز ٹیکس جمع کرنے والے مافیا کی مثال دی جاتی ہے۔ٹیکس ریفارمز کمیشن کے مطابق ایک موثر سیلز ٹیکس کی شرح موجودہ نرخوں سے بہت کم ہوتی ہے۔ہم اس کی سفارشات پر کب عمل کرتے ہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں