دولت مند طبقہ اور پاناماانکشافات

پاناما پیپرز کے منظر عام پر آنے کے بعد دنیا بھر میں اشتعال پایا جاتا ہے۔ عوام اپنی اپنی حکومتوں سے وضاحت چاہتے ہیں کہ امیر اور طاقتور افراد کس طرح آسانی سے اپنی دولت اور کالا دھن بیرونی ممالک میں چھپا لیتے ہیں جبکہ ٹیکس حکام اُن کا منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ سمندر پار کمپنیوں میں چھپائے گئے پینتیس بلین ڈالر کی خطیر رقم سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی‘ اور جمہوریت کے اس دعوے کی نفی ہے کہ اس کا بنیادی مقصد عوام کی بہتری ہے۔ اس سے پہلے کہا گیا تھا کہ جمہوریت‘ عوام کی عوام کے لیے حکومت ہے لیکن اس دعوے کو عملی شکل میں دیکھا جانا ابھی باقی ہے۔ پاکستان میں بہت سے اہم افراد کے ناموں کی بازگشت پاناما پیپرز میں سنائی دی‘ لیکن بدقسمتی سے پاکستانی حکومت ابھی تک الزامات کی تردید کر رہی ہے۔ یہ اس سارے معاملے کو قالین کے نیچے چھپاتے ہوئے اُن اداروں کی ناکامی کا دفاع کرنے کی کوشش میں ہے‘ جن کے ذمے ٹیکس چوری کا سدِباب کرنا‘ اور سرمائے کے غیر قانونی طور پر بیرونی ساحلوں کی طرف پرواز کو روکنا تھا۔ 
نیو یارک ٹائمز کی ایک تازہ رپورٹ پاناما کی لا فرم‘ موزیک فونسیکا‘ کے بارے میں انکشاف کرتی ہے کہ اس میں گزشتہ ایک عشرے میں امریکہ سے تعلق رکھنے والے 2400 افراد نے برطانیہ کے ورجن آئی لینڈ، پاناما اور دولت چھپانے کی سہولت فراہم کرنے والے دنیا کے دیگر ٹھکانوں پر 2800 کے لگ بھگ کمپنیاں قائم کیں؛ تاہم اخبار نے اس بات پر قدرے طمانیت کا اظہار کیا کہ غیر قانونی طور پر دولت چھپانے والوں کی فہرست میں کم از کم کسی قابل ذکر سیاسی شخصیت کا نام موجود نہیں۔ یہ طمانیت امریکی اخبار کو تو ہو سکتی ہے، ہمیں نہیں، کیونکہ ہمارے اعلیٰ ترین سیاسی عہدے رکھنے والے افراد اس فہرست میں موجود ہیں۔ حد یہ ہے کہ موجودہ وزیر اعظم کے خاندان کے کچھ نام اس میں موجود ہیں۔ منظر عام پر آنے والے کاغذات سے وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے قریبی اہل خانہ سنگین سوالات کی زد میں آتے ہیں کہ آخر برٹش ورجن آئی لینڈ کمپنی کے ذریعے لندن میں جائیداد خریدنے کے لیے لاکھوں ڈالر پاکستان سے کس طرح لے جائے گئے؟ یہ ذکر بھی برمحل ہو گا کہ وزیر اعظم کی صاحبزادی کو ان کے انتخابی کاغذات میں زیر کفالت اولاد ظاہر کیا گیا ہے‘ لیکن ان کاغذات میں وہ اپنی کمپنیوں سے استفادہ کرنے میں والوں میں شامل ہیں۔ برٹش ورجن آئی لینڈ کے قانون کے مطابق۔۔۔ ''فائدہ اٹھانے والا شخص ہی ان شیئرز کا حقیقی مالک تصور ہو گا۔ وہی ان کی خرید و فروخت کا فیصلہ کرنے کا مجاز ہو گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ فائدہ اٹھانے والا‘ اور ان کے متعلق فیصلہ کرنے والا شخص ایک ہی ہوں‘‘۔ اس سے نواز شریف صاحب کے بیٹے کے دعوے پر سنجیدہ شکوک و شبہات اٹھتے ہیں کہ اُن کی ہمشیرہ محض اُن کی جائیداد کی نگران ہے۔
دنیا بھر کے ٹیکس چوروں کا پہلا انتخاب موزیک فونسیکا ہی ہوتی ہے‘ کیونکہ اس کی پیش کش بہت جامع اور مربوط ہوتی ہے۔ یہ پرائیویٹ کمپنی، بشمول چارٹرڈ ڈاکومنٹس قائم کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ قائم کی جانے والی پرائیویٹ کمپنی اور فائونڈیشن کے لیے ریگولیشن، نامزد کیے جانے والے افسران، بینک اکائونٹس، فنڈز کی مینجمنٹ، نجی فون اور فکس نمبر اور میل فاروڈ کرنے کی سہولت میسر آتی ہے۔ اس قانونی ڈھانچے میں رکھی گئی غیر قانونی رقم ایک ایسے بلیک ہول میں چلی جاتی ہے‘ جہاں سے اس کی واپسی ممکن نہیں ہوتی۔ ان دستاویزات پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ جب موزیک فونسیکا میں کوئی دولت مند کلائنٹ اپنی کمپنی یا فائونڈیشن قائم کرتا ہے‘ تو یہ لا فرم کسی بینک اکائونٹ یا سرمایہ کاری کے اکائونٹ کے ذریعے اس میں رکھے گئے فنڈز کو مکمل طور پر خفیہ بنا دیتی ہے۔ نیو یارک ٹائمز نتیجہ نکالتا ہے کہ امریکہ جیسے ملک، جہاں ٹیکس قوانین بہت سخت، موثر اور پوری طاقت سے نافذ ہیں، کا ٹیکس چور شہری بھی بہت آسانی سے اپنے کالے دھن کو تحفظ دے سکتا ہے؛ چنانچہ یہ صرف پاکستانی شہریوں کی کہانی نہیں ہے، دنیا کے دیگر ممالک کے ہزاروں شہری بھی اپنی دولت چھپانے کے لیے موزک فونسیکا کی سروسز استعمال کرتے ہیں۔ 
پاناما پیپرز سے پتہ چلتا ہے کہ موزیک فونسیکا کے تحت چلایا جانے والا انتظام پاناما کے ٹیکس قوانین کے دائرے میں نہیں آتا، اور نہ ہی ان فنڈز کو فلاحی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا دکھاوا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ فائونڈیشنز سرمایہ کاروں کو اُن کے ملکی قوانین کے مقابلے میں تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ نیو یارک ٹائمز کے مطابق۔۔۔ ''امریکی افسران کا اندازہ ہے کہ ہر سال سمندر پار اکائونٹس کی وجہ سے حکومت کو چالیس سے ستر بلین ڈالر کے ٹیکسز وصول نہیں ہوتے ہیں‘‘۔ جب سمندر پار اکائونٹس کی وجہ سے امریکہ جیسے ملک کو اتنے بھاری نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو پھر پاکستان، جہاں ٹیکس کی وصولی کا نظام ویسے ہی بہت ناقص ہے، کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ لگانا دشوار نہیں۔ 
تاحال پاکستان نے غیراعلانیہ غیر ملکی سرمایہ کاری اور اثاثہ جات پر ٹیکس عائد کرنے کے لیے کسی قسم کے ٹھوس اقدامات نہیں کیے‘ لیکن انڈیا نے 2015ء میں ایسے قوانین منظور کیے‘ جن کی ذریعے وہ یورپی یونین کی قیادت میں ٹیکس چوروں، بدعنوان افراد اور کالا دھن جمع کرنے والوں کو گرفت میں لانے کی کوششوں میں شریک ہو چکا ہے۔ انڈیا اور یورپی ممالک کے علاوہ افغانستان، نائیجیریا، یو اے ای اور میکسیکو بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ اس پیش رفت کا مقصد عالمی سطح پر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ٹیکس حکام کے درمیان معلومات کا تبادلہ کرتے ہوئے ٹیکس چوروں اور بدعنوان افراد کو قانون کے کٹہرے میں لانا ہے۔ گزشتہ ماہ اس پیش رفت کا آغاز کرتے ہوئے برطانوی وزیر اعظم، ڈیوڈ کیمرون کا کہنا تھا۔۔۔ ''اس کا مطلب ہے کہ دنیا کا ہر شخص یہ جان سکے گا کس کے اثاثے کتنے ہیں، نیز کس کمپنی کو درحقیقت کون کنٹرول کر رہا ہے؟‘‘
اس پس منظر میں ضرور ی ہے کہ پاکستان بھی ایسی قانون سازی کرے تاکہ عوام کو پتہ چل سکے کہ اندرونی اور بیرونی طور پر کس کے کتنے اثاثے ہیں، کس نے ان اثاثوں پر ٹیکس ادا کیا ہے، یا کس کے ٹیکس حکام کو چکمہ دیا ہے۔ قلب کی جراحی سے قبل وزیر اعظم صاحب نے ٹی وی پر اور ایوان میں بہت جذباتی اور متاثر کن تقاریر کی تھیں‘ لیکن اُنھوں اُن سمندر پار کمپنیوں کا ریکارڈ پیش نہیں کیا‘ تو پھر کوئی طریقہ تو ہونا چاہیے جس کے ذریعے درست ریکارڈ تک عوام کی رسائی ہو۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں