پاناما سے بہاماس تک

پاناما لیکس کے بعد بہاما س لیکس بھی آگئیں۔ اس میں بھی بہت سے پاکستانی بزنس مین، افسران اور کچھ سیاست دانوں کے نئی نسل کے نام شامل ہیں۔ یہ افراد غیر ٹیکس شدہ رقم ( کالا دھن) ایک بدنام ٹیکس پناہ گاہ(ٹیکس ہیون) میں چھپانے کے لیے مشکوک کاروبار کررہے تھے ۔ اس انکشاف نے ایک مرتبہ پھر ہمارے اُن اداروںکی نااہلی کو عیاں کردیا جو ٹیکس چوری، ملک سے غیر قانونی ذرائع سے سرمائے کے فراراور بدعنوانی کی روک تھام کے لیے بنائے گئے ہیں۔ 
بیرونی ممالک، سمندر پار، اکائونٹس میں چھپائی گئی دولت عام طور پر غیر قانونی ذرائع، جیسا کہ منشیات فروشی، سمگلنگ، انسانی سمگلنگ اور دیگر مجرمانہ سرگرمیوں سے حاصل کی گئی ہوتی ہے ۔ٹیکس چوری ، قومی خزانے کی لوٹ ماراور سیاسی عہدوں سے فائدہ اٹھا کر حاصل کردہ رقوم کا رخ بھی سمندر پار اکائونٹس کی طرف ہوتا ہے ۔ 2003 ء میں لانچ کیے گئے ایک آزاد نیٹ ورک'' ٹیکس جسٹس نیٹ ورک‘‘، جو انٹر نیشنل ٹیکس اور مالیاتی ریگولیشن کا تجزیہ کرنے اور ان کی بابت مشورہ دینے کی سروسز رکھتا ہے ، کے مطابق ٹیکس پناہ گاہ کی کوئی متفقہ تعریف موجود نہیں۔ ٹیکس پناہ گاہیں نہ صرف ٹیکس کے کم یا زیرو نرخ پیش کرتی ہیں، بلکہ خفیہ مالیاتی سرگرمی سے استفادہ کرتے ہوئے قوانین، ضوابط اور آئینی حدود سے بچنے کی سہولت بھی فراہم کرتی ہیں۔ اس لیے ٹیکس جسٹس نیٹ ورک ''ٹیکس پناہ گاہ ‘‘ کی بجائے ''secrecy jurisdiction‘‘ کی اصطلاح کو ترجیح دیتا ہے ۔ 
ٹیکس پناہ گاہوں کی دنیا میں دنیا کی عظیم ترین معیشتیں بھی شامل ہیں، جیسا کہ سوئٹزرلینڈ، پاناما یا کیمن آئی لینڈز۔ یہ وہ jurisdictions ہیں جنہیں عام طور پر ٹیکس پناہ گاہوں کے طور پر نہیں لیا جاتا ہے ، جیسا کہ امریکہ، برطانیہ اور کسی حد تک جرمنی بھی۔ چونکہ دنیا کے طاقت ور ترین اور انتہائی بااثر اقوام بھی سمندر پاراکائونٹس کے نظام کی اہم کھلاڑی ہیں، اس لیے جائے حیرت نہیں اگر ٹیکس پناہ گاہوں کی کئی ایک فہرستوں کو آئی ایم ایف، OECD اور دیگرعالمی ادارے سیاسی یا دیگر وجوہ کی بنا پر تیار کرتے ہیں ، یا ان میں ترمیم کی جاتی ہے ۔ سمندر پار کی دنیا انتہائی پیچیدہ ہے۔ اس کا نظام مستقل طور پر تبدیل ہوتا رہتا ہے ۔ اس میں مختلف کھلاڑی مختلف پیش کش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کھلاڑی صرف رازداری پر فوکس کرتے ہیں۔ یہ کھلاڑی چھوٹا حجم رکھتے ہوئے مبہم jurisdictions رکھتے ہیں۔ ان میں امریکہ ، جیسا کہ Delaware، Nevada یا Wyoming شامل ہیں۔ کچھ پناہ گاہیں زیادہ خفیہ نہیں، لیکن وہ کارپوریٹ ٹیکس چوری کی سہولت فراہم کرنے کی ماہرہوتی ہیں، مثال کے طور پر آئرلینڈ، ہالینڈ، برمودا اورLuxembourg۔ کچھ پناہ گاہیں مالیاتی ضوابط میں لچک نکالنے کی ماہر ہوتی ہین، مثال کے طور پر Luxembourg اور برطانیہ ۔ ان میں سے کچھ ''all-singing, all-dancing tax havens‘‘ ٹیکس پناہ گاہیں ہوتی ہیں ، جیسا کہ برطانیہ ، سوئٹرز لینڈ، سنگاپور اور Luxembourg۔ کچھ مخصو ص امور میں ماہرہوتی ہیں، جیسا کہ انشورنس کے لیے برمودا، اور کیمن آئی لینڈز hedge فنڈز یا ذاتی ایکوٹی کے لیے ۔ 
ٹیکس پناہ گاہیں دولت مند لوگوں کو وہ رقم چھپانے میں مدد دیتی ہیںجوسکولوں، ہسپتالوں ، سڑکوں اور دیگر عوامی سہولیات پر خرچ کی جانی تھی۔ ان ٹیکس پناہ گاہوں کی وجہ سے غریب افراد وہ ٹیکس ادا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جو دراصل امیر افراد پر لاگو ہوتے ہیں۔ ٹیکس پناہ گاہیں جرائم پیشہ افراد کودولت چھپانے اور قانون سے بچ نکلنے کی سہولت فراہم کرتی ہیں۔ آمر حکمران اور اُن کے چمچے ملکوں کو لوٹ کر دولت چھپانے کے لیے ایسی ٹیکس پناہ گاہوں کیا رخ کرتے ہیں۔ صرف یہی نہیں، یہ ٹیکس پناہ گاہیں بنکوں کو بھی مالیاتی قوانین کو چکما دینے کے قابل بناتی ہیں، کیونکہ ان کی وجہ سے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اصل لین پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے ۔ اس طرح یہ ٹیکس پناہ گاہیں دولت مند اشرافیہ کی طاقت کو بڑھاتی ہیں۔ ان کی وجہ سے ہی معاشرے میں امیر اور غریب کے درمیان فرق بڑھتا ہے ۔ ان کی وجہ سے وہ قوانین بے کار ہوکر رہے جاتے ہیں جو ریاست اور عوام کے درمیان تعلق پیدا کرتے ہیں۔ اس طرح ان ٹیکس پناہ گاہوں کی وجہ سے ہمارا جمہوریت پر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے ۔ 
پاکستان میں پاناما لیکس سے لے کر بہاماس لیکس اور سوئس اکائونٹس یا خلیجی ممالک میں پاکستانیوں کی بھاری سرمایہ کاری پر ہونے والی بحث کو مندرجہ بالا معروضات کی روشنی میں دیکھا جانا چاہیے۔ اگر ان میں کوئی ایک سرگرمی بھی دکھائی دے ، تو اس میں ملوث شخص کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جانا چاہیے ۔ غضب خدا کا، ملک کے لاکھوں افراد زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں جبکہ ان افراد نے لاکھوں ڈالر سمندر پار اکائونٹس میں چھپائے ہوئے ہیں۔ یہ سرگرمی ایک سنگین جرم قرار دینی جانی چاہیے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اس غلط تصور کو بھی زائل کرنے کی ضرورت ہے کہ بیرونی اکائونٹس میں غیر ملکی کرنسی کی منتقلی کی تفتیش ''پروٹیکشن آف اکنامک ریفارمز ایکٹ 1992 کے سیکشن 5 کے تحت نہیں کی جاسکتی ۔ یہ تاثر نام نہاد ماہرین نے پھیلایا ہوا ہے ۔ اس قانون میں Ordinance No. XXI OF 1999 کے ذریعے ترمیم کی گئی ہے ۔ اس کے مطابق۔۔۔''immunity shall not be available to citizens of Pakistan residing in Pakistan and to firms, companies and other bodies registered or incorporated in Pakistan in respect of any new foreign currency account opened or deposits created on or after the 16th day of December, 1999 or to any incremental deposits thereafter in an existing foreign currency account‘‘بعد میں پارلیمنٹ نے پروٹیکشن آف اکنامک ریفارمز ایکٹ 1992 میں ترمیم کی Ordinance No. XXI OF 1999 کے ذریعے توثیق کردی ۔ چنانچہ اس قانون کے تحت چھوٹ حاصل نہیں ہے ۔ 
کسی شخص یا کسی کمپنی ، جن کے نام بہاماس لیکس یا پاناما لیکس میں موجو د ہوں، کی طرف سے حوالہ یا ہنڈی کے ذریعے پاکستان سے رقم باہر بھجوانا قابل ِ سزا جرم ہے ۔ اگر رقم بنک کے ذریعے ٹرانسفر کی گئی تو اس کے ذرائع کی تفتیش نیب، ایف آئی اے ، ایف بی آر، اے این ایف نے کرنی ہے ۔ اس قانون کے تحت اس مسئلے کا علاج تو موجود ہے ، لیکن بات سیاسی عزم ہے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں