ٹیکس کی اونچی شرح لیکن محدود ٹیکس بیس

پالیسی ساز، جیسا کہ منسٹری آف فنانس اور ایف بی آراس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے کہ ''پاکستان دنیا میں سب سے کم ٹیکس ٹو جی ڈی کی شرح رکھتا ہے ‘‘، اس بات پربلا جواز زور دیتے ہیں کہ '' ملک کی صرف 0.9 فیصد آبادی ہی انکم ٹیکس ادا کرتی ہے۔‘‘ صدمے والی بات ہے اگر ایف بی آر کے اعلیٰ افسران کو ایک ٹیکس دہندہ اور ایک ریٹرن فائلر کا فرق بھی معلوم نہیں ۔ دوسری بات یہ کہ وہ ٹیکس (انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس) کی اونچی شرح کو برقرار رکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن ٹیکس کے نرخ کم کرتے ہوئے اس کی بیس کو بڑھانے کے اقدامات کرتے دکھائی نہیں دیتے ۔ 
ان کالموں میں اس بات کا بار ہا ذکر کیا گیا ہے کہ پاکستان میں کم از کم پچا س ملین انکم ٹیکس دہندہ ہیں لیکن گوشوارے جمع کرنے والوںکی تعداد ایک ملین سے بھی کم ہے ۔ 2015-16 ء کے مالی سال کے دوران برآمدکنند گان نے 24.8 بلین روپے، تنخواہ دار افراد نے 92.3 بلین روپے، درآمدکنندگان نے 179.7 بلین روپے جبکہ ٹھیکیداروں نے 220 بلین روپے انکم ٹیکس ادا کیا ۔ انکم ٹیکس کی مد میں جمع ہونے والے کل محصولات 1270 بلین روپے(صرف 47.5 بلین روپے کے ریفنڈز جاری کیے گئے)میں ڈیمانڈ بڑھاتے ہوئے صرف 10.4 بلین روپے کا اضافہ کیا جاسکا(جو کہ کل جمع شدہ رقم کا 0.8 فیصد ہے )۔ وودہولڈنگ ٹیکس کی مد میں 919.5 بلین روپے ، ایڈوانس ٹیکس کی مد میں 302.3 بلین روپے اورریٹرنز کے ساتھ ادا کردہ ٹیکس کی مد میں38.4 بلین روپے جمع کیے گئے ۔ 
انکم ٹیکس کی مد میں حاصل ہونے والی اتنی کم رقم سے اس حقیقت کی تصدیق ہوتی ہے کہ جمع ہونے والی کم رقم آمدنی پر ٹیکس نہیں بلکہ بالواسطہ بہت سی اشیا پر ٹیکس ہے ، جیسا کہ اخراجات، سرمایہ کاری اور بہت سے کیسز میں محض ترسیل ِ زر پر ، حالانکہ یہ سرگرمی کسی صورت دولت کمانے کا باعث نہیں بنتی ۔ مثال کے طور پر ایک شخص اپنے بیرونی ملک مقیم بھائی کا مکان فروخت کرتا ہے ، اور رقم نکلوانے کے لیے اُسے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 ء کے سیکشن 236Pکے تحت ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے ۔یہی صورت ِحال اپنے گھر کے بل ادا کرنے کے لیے رقم نکلوانے والے ایک شخص کے ساتھ پیش آتی ہے ۔ بل ادا کرنے کی سرگرمی کا آمدنی سے کوئی تعلق نہیں۔ 2015-16 ء میں سیکشن 231A (کیش نکلوالنے کی بابت)کے تحت محصولات کا حجم 28.6 بلین رہا۔ سیکشن 236P کے تحت نان فائلرز سے حاصل ہونے والی رقم 21.6 بلین تھی ۔ کمرشل یا صنعتی بجلی کے بلوں پر ایڈوانس ٹیکس کا حجم 25.5 بلین روپے اور موبائل فون صارفین سے 47.6 بلین روپے تھا ۔ 
یہ ناقابل ِ تردید حقیقت ہے کہ ملک کی 7.5 فیصد افرادی قوت (کم و بیش پینتالیس لاکھ افراد)قابل ٹیکس آمدنی، چارلاکھ روپے یا اس سے زیادہ ، رکھتی ہے ۔ تاہم 2015 ء کے ٹیکس سال کے دوران گوشوارے جمع کرانے والوں کی تعداد صرف 1,064,108 تھی۔ ان میں سے 90 فیصد فائلرز کا ادا کردہ ٹیکس دس ہزار روپے سے بھی کم تھا۔ بالواسطہ ٹیکس بیس (سیلز ٹیکس اور ایکسائز ڈیوٹی)بھی بہت کم ہے ۔ تقریباً 82 فیصد کل سیلز ٹیکس ٹاپ 100 کمپنیوں سے حاصل ہوتا ہے ۔ 2015-16 ء کے مالی سال کے دوران درآمدات سے وصول ہونے والے سیلز ٹیکس کا حجم 683.6 بلین روپے تھا۔ اس میں 209 بلین روپے(30.5 فیصد) صرف پٹرولیم کی مصنوعات کی درآمد سے حاصل کیے گئے ۔ سیلز ٹیکس (ڈومیسٹک) کا کل جحم 668.9 بلین روپے ہے ، جس میں سے 349 بلین روپے(52.17فیصد) پٹرولیم کی مصنوعات سے حاصل ہوتے ہیں۔ 
حقیقی ٹیکس پوٹینشیل ، جو کہ آٹھ ٹریلین روپے ہے ، کو حاصل کرنے میں ناکامی دراصل پالیسی سازوں کا اصل مسئلہ ہے۔ موجودہ ٹیکس کا ڈھانچہ نہ صرف معاشی ترقی کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ یہ ریاست کی ضروریات کے لیے محصولات کی فراہمی سے بھی قاصر ہے ۔ معاشی مینیجر اس بات کا احساس کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں کہ بچت پر بھاری بھرکم ٹیکسز حکومت کے محصولات میں اضافہ نہیں کرتے ۔ ایک مرتبہ جب آمدن پر ٹیکس ادا کردیا جائے تو پھر بچت اور ترسیل ِ زر پر ٹیکس عائد نہیں کیا جانا چاہیے ۔ کیا دنیا کے کسی اور ملک بھی پاکستان کی طرح بنکوں سے رقوم نکلوانے اور منتقل کرنے پر ٹیکس لگایا جاتا ہے ؟
ضرورت اس امرکی ہے کہ ٹیکس کا موثر ماڈل وضع کیا جائے تو معاشی نمو میں معاون ثابت ہو۔ اس کے تکلیف دہ طریق ِ کار کو سہل اور عام فہم بنایا جائے۔ پرائم انسٹی ٹیوٹ کی ویب سائٹ ((http://primeinstitute.org/)) پر پیپر ''Towards Flat, Low-rate, Broad & Predictable Taxes‘‘ موجود ہے ۔ یہ اس سمت ایک رہنمائی فراہم کرتا ہے ۔ یہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ حقیقی ایشو نظام کو سادہ بنانے سے گریز کی پالیسی ہے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ ٹیکس ادا کرنا ٹیکس چور ی کرنے سے زیادہ سہل بنا دیا جائے۔ اُس وقت تک ٹیکس کے نظام میں اصلاحات کا کوئی ایجنڈا کام نہیں دے گا جب تک نئی ''نیشنل ریونیو اتھارٹی ‘‘ قائم نہیں کی جاتی اور اسے پارلیمنٹ کا مقرر کردہ ٹیکس ہدف حاصل کرنے کا ٹاسک نہیں دیا جاتا۔ نئی ٹیکس اتھارٹی عوام کا اعتماد حاصل کرتے ہوئے ٹیکس بیس کو بڑھا کر محصولات میں اضافہ کرسکتی ہے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں