آ ئین پاکستان کی مسلسل خلاف ورزی

اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین فوجی آمروںکے ہاتھوں تاراج ہوا تو اچنبھے کی بات نہ تھی ۔مگر اس دکھ کا ذکر کس سے اور کیسے کریںکہ منتخب حکومتیں بھی اس جرم ملوث رہی اورآج بھی ہیں ۔آئین پاکستان کی مسلسل خلاف ورزیوں کی فہرست تو طویل ہے مگر اس کا لم میں آرٹیکل 162کا تذکرہ ہے ۔اس آرٹیکل کا مطابق کوئی ایسا بل یا ترمیم جس سے کوئی ایسا محصول یا ڈیوٹی عائد ہوتی یا تبدیل ہوتی ہو ،جس کی اصل آمدنی کل یا جزوی طور پر کسی صوبے کو تفویض کی جاتی ہویا جس سے زری آمدنی کی اصطلاح کا وہ مفہوم تبدیل ہو تا ہو جو محصول آمدنی سے متعلق کردہ قوانین اعراض کے لیے متعین کیا گیا ہے یا جو ان اصولوں کو متاثر کر تی ہو جس پر اس باب کے مذکورہ بالا احکام میں سے کسی کے تحت رقوم صوبوں میں تقسیم کی جاتی ہو یا کی جا سکتی ہو،صدر کی ما قبل منظوری کے بغیر نہ قومی اسمبلی میں پیش کی جائے گی نہ اس کی تحریک کی جائے گی۔
آرٹیکل 160میں ان تمام محصولات کا ذکر ہے جن کو وفاق صوبوں کے درمیان تقسیم کیا جاتا ہے ۔ان محاصل میں ردوبدل کا بل قومی اسمبلی میں صدر پاکستان کی پیشگی منظوری کے بغیر پیش ہی نہیں کیا جاسکتا۔اور ہمارے ہاں ہر ماہ پیٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس کی شرح بغیر قومی اسمبلی کی منظوری کے بغیر کی جاتی ہے ۔یہ کام تو خود قومی اسمبلی بھی صدر کی منظوری کے بغیر نہیں کر سکتی ۔کیا ہمارے تمام آئینی ماہر اور سیاسی رہنما آئین پاکستان کی اس مسلسل خلاف ورزی سے آگاہ ہی نہیں؟پاکستان کے محترم اٹارنی جنرل پر آرٹیکل(3)100کے مطابق فرض ہے کہ وفاقی حکومت کو قانونی معاملات پر مشورہ دیں ۔وہ آئین کی کھلی خلاف ورزی پر خاموش رہ کر اپنے فرائض سے غفلت فرما رہے ہیں۔یہ معاملہ تمام صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز کا بھی ہے جوصوبائی حکومتوں کو آرٹیکل 162کی مسلسل خلا ف ورزی سے آگاہ نہیں کر رہے ۔آرٹیکل 140کے تحت یہ ان کی ذمہ داری 
ہے۔آئین پاکستان کی رو سے وفاق اور صوبوںکے مابین محاصل کی تقسیم میں آئینی تقاضوں کو نظر انداز کرنا ایک انتہائی افسوس ناک امر ہے۔عدالت عظمی نے ابھی تک آرٹیکل 184کے تحت اس کا نوٹس نہیں لیا ۔حیر ت کی بات ہے کہ کسی بھی کالم یا ٹی وی شو میں بھی اس کا تذکرہ نہیں کیا گیا ۔یہ اس بات کا مظہر ہے کہ بحیثیت قوم ہم سنجیدہ معاملات کا یا تو ادراک ہی نہیں کرتے یا اس پر بات کرنا پسند نہیں کرتے۔
وفاق اور صوبوں میں مندرجہ ذیل محصولات کی تقسیم قومی مالیاتی کمیشن کے ایوارڈ کے مطابق ہونی چاہیے ۔آمدنی اور محصولات جن میں محصول کارپوریشن شامل ہیں لیکن وفاقی مجموعی فنڈ میں ادا شدہ نہیں ہیں‘درآمد شدہ ،برآمد شدہ ،پیدا کردہ مصنوعات یا صرف شدہ مال کی فروخت اور خرید پر محصول‘ کپاس کی برآمدی محصولات اور ایسے دوسرے محصولات جن کی صراحت صدر کرے ‘آبکاری کے ایسے محصولات جن کی صراحت صدر کرے اور ایسے دوسرے جن محصولات جن کی صراحت صدرکرے ۔پیٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس کی شرح میں ردوبدل قومی اسمبلی کر سکتی ہے نہ کہ ایف بی آر یا کابینہ کیونکہ یہ 
آرٹیکل 77کی کھلی خلاف ورزی ہے۔آرٹیکل 77کے مطابق ''بجز مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ)‘‘ کے کسی ایکٹ کے ذریعے یا اس کے اختیار کے تحت وفاق کے اغراض کے لئے کوئی محصول نہیںلگایا جائے گا۔آرٹیکل 77،160اور162کے مطالعہ سے یہ بات عیاں ہے کہ اول محصول محصولات برائے پارلیمنٹ کے ایکٹ کے بغیر عائد نہیں کیے جاسکتے ۔دوم ان محصولات کے لگانے یا ان میں ترمیم کا کوئی بھی بل صدر کی پیشگی منظوری کے بغیر پیش نہیںکیا جاسکتا جن کا ذکر آرٹیکل160میں کیا گیا ہے۔ہر سال ایک مرتبہ مالیاتی بل جون میں پیش کیا جاتا ہے اور اب تو کئی مرتبہ دوران مالی سال ترمیمی بلز پیش کیے جاتے ہیں۔ایک مرتبہ بھی آرٹیکل 162کے تحت صدر کی پیشگی منظوری نہیں کی گئی ۔یہ ہے احترام آئین کا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں۔اس پر سیاسی زعما، عدلیہ،دانشوروںاور صحافیوں کی بے حسی بہت بڑا مقام افسوس ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں