انمول خواب

ایک شخص کتنے بڑے خواب دیکھ سکتا ہے۔
کوئی یہ بات جاننا چاہے تو کراچی جا کر ڈاکٹر ٹیپو سلطان سے مل سکتا ہے۔ ان کے پاس ان کے والد‘ ابو ظفر اور والدہ ڈاکٹر عطیہ خاتون کی خوابوں بھری کہانی ہے۔ ابو ظفر اور عطیہ خاتون کی شادی پٹنہ میں ہوئی۔ پاکستان بنا تو وہ کراچی چلے آئے۔ تہی دست‘ تہی دامن۔ بس امید کا ایک دیا کہیں روشن تھا۔ ابو ظفر سکول میں پڑھانے لگے لیکن انھیں کچھ اور کام بھی کرنا تھے۔ 1952ء میں جب بڑے بیٹے ٹیپو سلطان نے سکول جانا شروع کیا تو والدہ عطیہ خاتون سوچنے لگیں کہ انھیں بھی تو پڑھنا چاہیے۔ عطیہ خاتون نے الف‘ ب سیکھی‘ گھر میں ہی میٹرک کیا اور پھر جب ٹیپو سلطان ڈو میڈیکل کالج کے آخری سال میں تھا تو والدہ کو بھی وہیں داخلہ مل گیا۔ بہت جلد ماں بیٹے کے ہاتھ میں ایم بی بی ایس کی ڈگری تھی۔ ابو ظفر اور عطیہ خاتون کے آٹھ بچے تھے۔ پانچ بیٹیاں اور تین بیٹے۔ ''یہ ڈاکٹر بن جائیں تو ان کی زندگی بدل جائے گی‘‘ ابو ظفر نے صبح کی کسی گھڑی دعا مانگی اور پھر یہ آٹھوں کے آٹھوں ڈاکٹر بن گئے۔ بچوں کی شادیوں کا موقعہ آیا تو میاں بیوی نے اک اور دعا مانگی ''ہمارے دامادوں اور بہوئوں کو بھی ڈاکٹر ہی ہونا چاہیے‘‘۔ یوں آٹھ بچوں کی شادیاں آٹھ اور ڈاکٹرز سے ہو گئیں۔ یہ سولہ ڈاکٹر سفید کوٹ پہنتے تو چھوٹا سا گھر امن کا گہوارہ نظر آتا۔ ڈاکٹر بننے کے بعد یہ سب مزید تربیت کے لیے انگلستان چلے گئے۔ 
کہانی کا اگلا حصہ اس سے بھی غیر معمولی ہے۔
ان سولہ افراد کا دل دیارِ غیر میں نہ لگا اور انھوں نے واپس پاکستان آنے کا فیصلہ کیا۔ ابو ظفر کا کہنا تھا کہ جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا؟ ''جس وطن نے تمھیں دو سو نو روپے سالانہ فیس میں ڈاکٹر بنایا‘ کیا اسے بھول جائو گے؟ کیا بھول جائو گے کہ وہاں لوگ ایڑیاں رگڑتے ہوئے مر جاتے ہیں؟‘‘۔ ان سب نے اس حکم پر سرِ تسلیم خم کیا اور واپس لوٹ آئے۔ ہمارے والدین نے ایک فیصلہ اور بھی کیا‘ انھوں نے کہا‘ ان کے پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں بھی مسیحا بنیں گے۔ یوں ابو ظفر اور عطیہ خاتون کے پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں بھی میڈیکل کالج میں پہنچ گئے۔ 1999ء میں ابو ظفر خاندان نے کراچی کے نواح میں گھر بنانے کا ارادہ کیا۔ سولہ ایکڑ جگہ خریدی گئی اور کوہی گوٹھ نامی گائوں میں ایک خوبصورت گھر تعمیر ہو گیا۔ ابو ظفر اور عطیہ خاتون کو بس یہی کچھ دیکھنا تھا اور پھر انھوں نے آنکھیں موندیں اور کسی اور سفر پہ روانہ ہو گئے۔ والدین رخصت ہوئے تو بچوں نے ان کی یاد میں ہسپتال بنانے کا ارادہ کیا۔ نگاہِ انتخاب اسی خوب صورت گھر 
کی طرف گئی جو سب نے مل کر بنایا تھا۔ سولہ ایکڑ زمین‘ جس کی موجودہ مالیت پندرہ کروڑ کے لگ بھگ ہے‘ ہسپتال کے لیے وقف کر دی۔ ''ہم اپنے لیے کتنے گھر بنائیں گے۔ دمِ واپسیں تو چند گز زمین ہی درکار ہو گی‘‘۔ کوہی گوٹھ ہسپتال کے نام سے بننے والا یہ ہسپتال زچہ اور بچہ کے امراض کے حوالے سے دنیا کے بہترین اداروں میں شمار ہونے لگا۔ عالمی ادارہ ٔ صحت اور جان ہاب کن یونیورسٹی نے اسے جنوبی ایشیا کا بہترین ہسپتال قرار دے دیا۔ پورے سندھ سے آنے والی بچیوں کو یہاں مڈوائفری کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔ میں ان بچیوں سے ملا تو آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ آنسو صرف دکھ میں نہیں بہتے۔ امید اور تشکر میں بھی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔
''ہمارے والدین نے جو خواب دیکھے ان کا سلسلہ نہیں رکا‘‘ ٹیپو سلطان اور ان کے بھائی سراج الدولہ کہنے لگے۔ ہم نے ایک روز فیصلہ کیا کہ اب اس ہسپتال کو یونی ورسٹی کا رتبہ ملنا چاہیے۔ سوچ بچار‘ منصوبہ بندی‘ وسائل کی تلاش۔ کچھ اور درد مند لوگ بھی آن ملے جن میں عبداللہ فیروز سرِ فہرست ہیں۔ خوش اخلاق‘ خوش مزاج اور دریا دل۔ بہت جلد حکومتِ سندھ نے یونی ورسٹی کا چارٹر ڈاکٹر ٹیپو سلطان اور عبداللہ فیروز کے حوالے کر دیا۔ کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد۔ اب یہاں ایک بہت بڑی یونی ورسٹی بنے گی جس کا ابتدائی تخمینہ ڈیڑھ ارب سے زائد ہے۔
جی چاہتا ہے اس شخص کا دوبارہ ذکر کریں جس نے یہ سارے خواب دیکھے۔ ابو ظفر! ابو ظفر ایک پرائمری سکول میں استاد تھے۔ ان کی بیگم عطیہ خاتون نے شادی کے بہت سال بعد الف ب سیکھی اور پھر ڈاکٹر بنیں۔ آج اس خاندان میں چالیس افراد ڈاکٹر ہیں۔ ستر سال پہلے ایک شخص بے سروسامانی میں سرحد عبور کرتا ہے اور پھر ایک نئی کہانی شروع ہوتی ہے۔ عزم‘جدوجہداور استقلال۔ درد مندی‘ ایثار اور قربانی۔
ابو ظفر اور ڈاکٹر عطیہ خاتون ایک ایسی کہانی رقم کر گئے جس کی مثال مشکل سے ملے گی۔ خواب خواب اور خواب! کوہی گوٹھ سے واپسی کا سفر اس کہانی کو دہراتے گزر گیا۔ ڈاکٹر ٹیپو سلطان‘ ڈاکٹر سراج الدولہ اور ڈاکٹر سید شیر شاہ۔ تین بھائی ابو ظفر کی اس لازوال کہانی کے اہم کردار ہیں۔ دولت اور آسائش کو تج دینے والے۔ ایک دوست نے کہا: شاید یہ کہانی ان ہزاروں ڈاکٹرز کے لیے بھی ہے جو ''دو سو نو روپے‘‘ سالانہ فیس دے کر ڈاکٹر بنے اور پھر وطن چھوڑ کر دیارِ غیر میں جا بسے۔کاش کوئی انھیں بتائے کہ کچھ لوگ ان کی راہ تکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں