حضوری باغ میں ایک شام

حضوری باغ میں منعقد ہونے والی یہ تقریب کئی اعتبار سے منفرد تھی۔
بہار کی اوّلین شاموں میں سے ایک شام۔ ہلکی سی خنکی اور مدھر کرنے والی موسیقی۔ سامنے شاہی قلعے کا مہیب دروازہ‘ جسے کھولیں تو مغلیہ شان و شوکت نظر آتی ہے۔ اب یہ دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو چکا ہے۔ عقب میں بادشاہی مسجد‘ جس کے مینار اللہ اکبر کی صدا بلند کر رہے ہیں۔ مسجد کے قدموں میں ایک مردِ درویش خوابیدہ ہے‘ اقبال‘ جس کی صدائوں میں مستقبل کی چاپ سنائی دیتی ہے۔ پہلو میں ایک بہادر سکھ حکمران کی یادگار۔ یہ تاریخ کا ایک ایسا دور ہے جس کا بظاہر ہم سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ کچھ ہی فاصلے پر مینارِ پاکستان‘ جہاں بہت سال قبل ایک خواب دیکھا گیا۔ حضوری باغ‘ عجب سا مقام‘ عجب سی گزرگاہ ہے۔ ہندو دیوتائوں کے بیٹے ''لوہا‘‘ کے عہد سے لے کر اکیسویں صدی تک! نجانے کتنے قافلے یہاں پہنچے‘ ٹھہرے اور پھر چل دیے۔ کبھی کبھار رات خاموش ہو تو اس چلہ گاہ کی سرگوشی بھی سنائی دیتی ہے جو ایک پیرِ کامل کا مسکن تھی۔ گنج بخشِ فیض عالم مظہرِنورِ خدا۔ اور پھر وہ بازار بھی دور نہیں جس کے در و دیوار سے گھنگھروئوں کی آواز اٹھتی ہے۔ جہاں حوا کی بیٹی رقص کرتی ہے۔ پائل‘ گجرے‘ موتیے کے پھول... حضوری باغ تہذیب اور تاریخ کی گزرگاہ ہے۔ شان و شوکت‘ زوال‘ بے بسی‘ آنسو‘ آہیں اور امید کے کھلتے ہوئے پھول۔ حضوری باغ پہنچ کر انسان کہیں کھو جاتا ہے۔ گزرے ہوئے زمانوں میں اور آنے والے دنوں میں۔ ماضی‘ حال اور مستقبل۔ اس روز وہاں بیٹھے ہوئے یہ سب یاد آیا تو لگا‘ وقت کی ڈور ٹوٹ گئی ہے اور تسبیحِ روز و شب کے دانے بکھرنے لگے ہیں۔ شان و شوکت‘ زوال‘ بے بسی‘ آنسو‘ آہیں‘ راکھ کے ڈھیر اور امید کے پھول۔ بہت کچھ میرے روبرو تھا۔
میں اسی طلسماتی فضا میں گم تھا کہ تقریب کی غرض و غایت بیان ہونے لگی۔ سب سے پہلے اس ادارے کا تعارف‘ جس کی جانب سے یہ تقریب منعقد ہوئی۔ United We Reach نامی اس ادارے کا مقصد تعلیم کا فروغ ہے۔ تعلیمی اداروں کے ساتھ اشتراکِ عمل‘ مستحق طلبا کو وظائف کی فراہمی‘ تحقیق اور معیار کی جستجو۔ ایسا تعلیمی نظام جس میں ٹیکنالوجی صفِ اول میں ہو۔ مختصر تعارف کے بعد محترمہ صباحت رفیق کو دعوت دی گئی جو اس ادارے کی روحِ رواں ہیں۔ ان کی گفت گو سن کے یوں لگا جیسے گہر ا سماجی شعور ایک خوب صورت بیانیے میں ڈھل رہا ہو۔ کچھ کھو جانے کا دکھ اور پھر اس سے جنم لینے والی امید۔ دکھ اگر امید کو جنم نہ دے تو محض زیاں ہے۔ صباحت نے اک تفصیل سے بتایا کہ یہ ادارہ کیوں وجود میں آیا۔ اس دیوانگی کا راز کیا ہے۔ میں ان سے پہلے بھی مل چکا تھا‘ زرقا طاہر کے توسط سے۔ نہ ان کے پاس الفاظ کی کمی ہے اور نہ جذبوں کی۔ انھوں نے جو کچھ کہا‘ دل میں اتر گیا...
''غربت‘ افلاس اور استحصال۔ دو طرح کے پاکستان۔ دو طرح کے نظام‘‘۔ صباحت کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ قبول نہیں۔ ''کب تک ہم روشنی سے محروم رہیں گے۔ ایک لاکھ سکول صرف حکومت کے ہیں۔ کئی ہزار سکول نجی شعبہ کے بھی ہیں۔ نئے سکول بنانے یا نئے استاد بھرتی کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ موجودہ سکولوں کو خوب صورت بنایا جائے۔ ایسا دل کش ماحول کہ بچے کِھنچے چلے آئیں۔ نئے اساتذہ کی بجائے انھی اساتذہ کی تربیت۔ یہ کام ٹیکنالوجی کے مرہون منت ہیں۔ ہر سکول اگر کسی مرکزی کمپیوٹر سے منسلک ہو جائے تو یہ سارے کام آسانی سے ہو سکتے ہیں۔ تعلیم بھی‘ نگرانی بھی‘ تربیت بھی۔ ٹیکنالوجی کا حصول کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ دنیا کے ہر ملک میں کمپیوٹر سے تعلیم ہو رہی ہے۔ ہمارے ہاں کیوں نہیں؟ ہم نے بہت سے سکولوں کو اس مجوزہ نظام سے منسلک ہونے کی دعوت دی ہے۔ جدت‘ تخلیق اور تنوع۔ شوق‘ جست جُو اور عمل۔ ''کریں گے اہلِِ نظر تازہ بستیاں آباد‘‘۔ صباحت نے یہ کہا اور مزارِ اقبا ل کی طرف دیکھنے لگی۔ ''جست جُو کا یہ پودا اسی مردِ قلندر نے بویا‘ ثمربار ہوا تو اسی کی نظر کا فیض ہو گا‘‘۔ یہ آخری بات تھی۔
ہم یہاں نہ آتے تو کتنے دریچے بند رہتے۔ ماضی کے بھی اور مستقبل کے بھی۔ میں نے زرقا طاہر کا شکریہ ادا کیا‘ جو ہمیشہ نیکی کی طرف بلاتی ہیں۔ تقریب میں بہت سے اور لوگ بھی تھے۔ رانا مشہود احمد‘ کامران لاشاری‘ الماس حیدر‘ جاوید خان‘ الطاف حسن قریشی‘ طلحہ زبیر‘ اشعر عزیز‘ مسز یوسف طاہر۔ برطانیہ سے آئے ہوئے محمد مرسی اور بیسیوں مہمان۔ یہ سب اک نیا جہان آباد کرنا چاہتے ہیں۔ غربت کی زندگی انھیں گوارا نہیں۔ پیچھے رہ جانا بھی انھیں گوارا نہیں۔ اقوامِ عالم میں کوئی بڑا مقام۔ پاکستان کی سربلندی اور عظمت و رفعت۔ شام اور گہری ہونے لگی۔ ہمت اور بڑھنے لگی۔
حضوری باغ‘ عجب گزرگاہ ہے۔ ان گنت قافلے یہاں ٹھہرے اور چل دیے۔ یہ بھی ایک قافلہ ہے۔ کیا یہ قافلہ بھی کہیںپہنچے گا۔ بہار کی اولین شام۔ ہلکی سی خنکی اور مدھر موسیقی۔ کسی نے کہا ''پہنچنا شرط نہیں‘ چلنا شرط ہے‘‘۔ مزارِ اقبال سے ایک محافظ کی چاپ سنائی دیتی ہے اور اس چاپ میں پوشیدہ یہ نغمہ:
چلنے والے نکل گئے ہیں
جو ٹھہرے ذرا کچل گئے ہیں
انجام ہے اس خرام کا حسن
آغاز ہے عشق انتہا حسن
جس سفر کا آغاز عشق سے ہو اس کی انتہا پہ کسے شک ہو گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں