سیلاب 2022 اور تعمیرِ نو۔ ہم نے کیا دیکھا… (25)

روٹی والے بابا کی کہانی
کچھ لوگوں کو یہ کہانیاں اچھی لگتی ہیں۔ کچھ کو ان پہ یقین نہیں آتا۔ کچھ لوگ برکت کا مفہوم سمجھتے ہیں‘ کچھ لوگ اس سے انکار کرتے ہیں۔کسی کو قطرے میں دریا دِکھتاہے‘ کسی کو دریا بھی دکھائی نہیں دیتا۔وہ جسے چاہے حسن اور بصیرت سے نواز دے۔ ہمارے ساتھیوں نے بہت سی اور کہانیاں بھی سنائیں۔ ایثار کی‘ قربانی کی۔ عام لوگوں کے جذبۂ اخوت کی۔جن کے پاس کچھ بھی نہ تھا وہ بھی مدد کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ہاں وہ ایک ڈرائیور جس نے اپنی سوزوکی وین دوہفتوں کے لیے کیمپوں میں کھانا پہنچانے کے لیے وقف کردی۔ کئی کئی فٹ پانی‘ ٹوٹی ہوئی سڑکیں اور کیچڑ ہی کیچڑ لیکن اس نے اپنی گاڑی کی پروا نہ کی۔ہمارے ساتھی اسے کہتے: یہ ''خراب ہو جائے گی‘‘۔ اس کا جواب ہوتا: ''اللہ اور دے گا‘‘۔اس کی یہ بات سب کو خاموش کردیتی۔ دینے والے بس ایک ہی فقرہ کہتے ہیں: ''اللہ اور دے گا‘‘۔ انہیں خدا کے وعدے پہ یقین ہوتا ہے۔ ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو یہ فقرہ بھی نہیں کہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ اللہ سے کیا مانگیں۔ وہ مانگے بغیر بھی دیتا ہے۔ غالب نے بھی تو یہی کہا تھا؎
بے طلب دیں تو مزا اس میں سوا ملتا ہے
وہ گدا جس کو نہ ہو خوئے سوال اچھا ہے
وہ جو خوئے سوال سے بلند ہیں‘وہ جو زبان سے نہیں مانگتے‘ وہ کچھ اور ہی مرتبہ رکھتے ہیں۔
لوگوں سے باتیں بھی ہو گئیں۔ ان کے گھر بھی دیکھ لیے۔ امیدوں کی نئی فصل بھی نظر آگئی۔ یہ سارے کام مکمل ہوئے تو ہم اپنی ٹیم کے ساتھ بیٹھ گئے۔ ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھانے لگے۔ پشاور سے بیس کلومیٹر دور گڑھی مومن کے 62 گھرانے۔ کھانا‘ پینا‘ راشن‘ رضائیاں‘ کپڑے اور گھروں کی تعمیر۔ یہ سب کیسے ممکن ہوا۔ چترال کی وادی گولین اور شی شی کوہ کا ذکر ہونے لگا۔ بارشوں اور پہاڑوں سے آنے والے پانی نے کس طرح ان کچے گھروں کو تباہ کیا۔ پُرسکون زندگی کیسے بھنور کا شکار ہو گئی۔ دشوار گزار راستوں میں کھانا اور راشن پہنچانا اور جہاں راشن پہنچانا مشکل تھا وہاں رقم کی تقسیم۔ اپر دیر اور لوئر دیر میں جو تباہی ہوئی وہ بھی کئی لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہے۔ تھل‘ کمراٹ‘ کلکوٹ‘ پتراک‘ بری کوٹ‘ مکڑانہ‘ براول۔ یہ بستیاں اب پہلے جیسی نہیں۔ خوشیاں ان سے دور جا چکی ہیں۔
کمراٹ کے علاقوں میں مسلسل اٹھارہ روز بارش ہوئی۔ ایسی مسلسل بارش نہ اس سے پہلے کسی نے سنی‘ نہ دیکھی۔ کئی جگہوں پر آسمانی بجلی گرنے کے واقعات بھی ہوئے۔ ضلع دیر میں اخوت کے علاوہ بہت سے اور ادارے بھی پہنچ گئے۔ جسے جو توفیق مل جائے‘ جس کے نصیب میں جو انعام ہو۔ ہمارے ساتھیوں نے بہت محنت کی۔ ڈاکٹر کامران شمس اور شہزاد اکرم کی قیادت میں۔ جن کی محنت اور جذبۂ ایثار کی کوئی اور مثال نہیں اور پھر ریحان‘ احسن‘ حسن‘ شکیل‘ طاہر فہیم اور پاکستان بھر میں پھیلے ہوئے ساتھی۔ نجانے کتنے دن‘ نہ کوئی گھر گیا۔ نہ کوئی چھٹی ہوئی۔ پہلے ضرورت مندوں کی شناخت اور پھر مساجد میں بیٹھ کر عجزو انکسار کے ساتھ تحائف اور رقوم کی تقسیم۔ دینے والے کے لیے انکسار لازم ہے کہ دینے کی توفیق سب کو نہیں ملتی۔ سارا کام عزت اور وقار کو ٹھیس پہنچائے بغیر ہوا۔ ہمارے ساتھیوں کو وہاں بے شمار لوگ ملے۔ ملک کے کئی کونوں سے آنے والے رضا کار جو انفرادی حیثیت میں وہاں پہنچے۔ اپنی جیپوں اور گاڑیوں میں سامان رکھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے حکومت کو بھی عطیات دیے ہیں‘ غیر سرکاری اداروں کو بھی لیکن اللہ کی راہ میں خود سے چل کرآنے میں جو لذت ہے وہ کسی اور کام میں نہیں۔ ان میں سے کئی افراد کو مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن ان کا جذبہ ان مشکلات سے کہیں بڑا تھا۔پھر سے وہی بات یاد آئی۔ ایک آدمی ایک آدمی کا ہاتھ تھام لے۔ایک آسودہ حال ایک غریب کو اپنا لے۔ سارا وطن خوش حال ہوسکتا ہے۔ مواخات کا وہی نظام‘جو ہمارے لیے راہِ نجات ہے۔
ہمیں پشاور سے آج ہی واپس لاہور پہنچنا تھا۔ سفر طویل تھالیکن تھکاوٹ کے کوئی آثار نہ تھے۔ انسانی طاقت کی حدود ضرور ہیں لیکن اگر دعائیں شامل ہوں تو طاقت بڑھ بھی جاتی ہے۔ واپسی کے سفر میں ہم سب ایک ہی گاڑی میں تھے۔ اسلام آباد تک کا سفر میجر(ر) امان اور جنرل (ر) جیلانی کے ساتھ طے ہوا۔ ایک بار پھر کالام‘ مدین اور بحرین کے سفر کی یاد تازہ ہوئی لیکن آج کا سفر اس روز کے سفر سے کہیں آرام دہ تھا۔ راستے میں سکھر کی بات ہوئی۔ یوں تو ہم اس سے پہلے سندھ جاچکے تھے لیکن دوسری بار جانا بھی ضروری تھا۔ اخوت کی ٹیم منتظر تھی کہ ہم ان سے ملیں۔ ان سے بات کریں۔ ان کا حوصلہ بڑھائیں۔ ان کے ساتھ مل کر سیلاب زدگان کے دکھ بٹائیں۔ ان کو کیا خبر کہ ہم ان ہی سے طاقت حاصل کرتے ہیں۔ یہ وہی ہیں جن سے ہمارے حوصلوں کو جلاملتی ہے۔ سکھر‘ شکار پور‘ خیر پور کہاں کہاں جانا ہے۔ تفصیلی بات ہوئی۔ ان علاقوں میں تو شاید کچھ بھی نہیں بچا۔ نقصانات کے تخمینے ہمارے پاس موجود تھے۔کچھ کا انتظار تھا۔ اسی دوران حکومتِ سندھ کے ایک نمائندہ کا فون بھی آیا جو مختلف اداروں کے ساتھ مل کر گھروں کی تعمیر کے لیے کام کرنا چاہتے تھے۔حکومت ِ سندھ کی طرف سے ایک بڑی امداد۔ اچھی خبر یہ تھی کہ وہ یہ کام مل جل کرکرنا چاہتے تھے تاکہ وسائل کا ضیا ع نہ ہو اور ایک دوسرے کے تجربے سے فائدہ اٹھایا جائے۔حکومت کا خیال تھا کہ ہر اس شخص کو جس کا گھر مکمل طور پر گر گیاہو تین لاکھ کی مالی امداد پیش کی جائے لیکن رقم کی تقسیم اور گھروں کی تعمیر کے لیے وہ غیر سرکاری اداروں کی مدد چاہتے تھے تاکہ سب کو حق ملے اور کوئی غلطی نہ ہو۔ اسی اثنامیں اسلام آباد انٹر چینج نظر آیا۔ اب راستے تبدیل ہونے والے تھے۔ میں نے دوستوں کو الوداع کہا اور اپنی گاڑی میں منتقل ہونے لگا۔ ان کا رخ اسلام آباد کی طرف تھا اور ہمارا لاہور کی طرف۔ رات کا اندھیرا اور تنہائی۔یہ بھی کیا کیفیت ہے کہ انسان تنہا ہو کر بھی تنہا نہیں ہوتا۔ کچھ پرانی باتیں۔ کچھ ماضی کے زخم۔ جانے والوں کی یاد۔ اور پھر مستقبل کے خواب۔ وہ جو غالب نے کہا ؎
ہے آدمی بجائے خود اک محشرِ خیال
ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو
رات دیر گئے ہم لاہور پہنچے لیکن سفر کے دوران خلوت کے باوجود ایک محشرسا بپا رہا۔ وہ لوگ جو دربدر ہوئے‘ اپنی چھت تلے کب پناہ لیں گے یا پھر یہ آسمان ہی ان کی چھت ہو گا اور تیز ہوائیں ہی در اور دیوار۔
لاہور میں صرف دو دن گزرے۔ ابھی لندن کی داستان اخوت کے ساتھیوں کو سنانا تھی کہ عارف انیس کا پیغام ملا کہ وہ لندن سے کئی ایک ساتھیوں سمیت اسلام آباد آرہے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے وطنِ عزیز کے لیے بہت کچھ کیا۔ صدرِ پاکستان ان سے ملنا چاہتے ہیں۔ ان کی خدمات کو سراہنا چاہتے ہیں۔ دو ہی دن بعد ہم پھر اسلام آباد کی طرف روانہ تھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں