سیلاب 2022ء اورتعمیرِ نو۔ ہم نے کیا دیکھا … (26)

(یہ مختصر سرگزشت ان چند دنوں کی ہے جو ہم نے سیلاب زدگان کے ساتھ گزارے۔ جنوبی پنجاب‘ سندھ‘ بلوچستان‘ خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان۔ یہ روداد آنسو بہانے یا الزام تراشی کے لیے نہیں اصلاحِ احوال کے لیے ہے۔ اس میں جہاں تعمیرِ نو کا پیغام ہے‘ وہیں امید کے کچھ دیے بھی ہیں)
بیرونِ ملک بسنے والے پاکستانی ایک عجب کشمکش کا شکار رہتے ہیں۔ اجنبی دیار سے محبت کریں یا اپنے وطن کی گلیوں سے۔ یہ کیا ہے کہ پاکستان دل سے نہیں نکلتا۔ اک تصویر ہے کہ رگ و جاں پہ نقش رہتی ہے۔ اسلام آباد کی ایک تنظیم ''ویلفیئر سوسائٹی فار اوور سیز پاکستانیز رائٹس‘‘ ان لوگوں کی خدمات کو اجاگر کرنے میں پیش پیش ہے۔ اس تنظیم کے صدر‘ اٹارنی داؤد غزنوی نے ان کے مسائل کے حوالے سے بہت کام کیے۔ ان اہلِ وطن کو اکٹھا کیا جو دنیا کے مختلف کونوں میں بستے ہیں لیکن پاکستان کا ورد کرتے نہیں تھکتے۔ سیلاب‘ زلزلے‘ بارشیں‘ بیماریاں یا کوئی بھی اور موقع ہو۔ جہاں بھی پاکستان کو ضرورت ہو وطن کے یہ بیٹے اور بیٹیاں سب سے پہلے آگے ہوتے ہیں۔ اس تنظیم نے اس بار پچیس پاکستانیوں کو شانِ پاکستان کا لقب دیا اور صدرِ پاکستان کے ہاتھوں یہ اعزاز پیش کیا گیا۔ زیادہ تر لوگ وہ تھے جنہوں نے حالیہ بارشوں اور سیلاب میں اپنے حصے سے بڑھ کر کام کیا۔ میری بدنصیبی کہ میرا تعارف صرف چند لوگوں سے تھا۔ ڈاکٹر عارف انیس‘ عارف کسانہ‘ حسن جلیل‘ صباحت رفیق۔
صدرِ پاکستان نے ان تمام پاکستانیوں کی خدمات کا تذکرہ کیا۔ ایثار کا یہ تذکرہ صرف صدر علوی کی طرف سے نہیں‘ پورے پاکستان کی طرف سے تھا۔ صدر علوی نے اپنی گفتگو کے دوران بہت دلچسپ باتیں کہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارا بیوروکریٹ ایک ایسی گاڑی کا ڈرائیور ہے جہاں صرف بریک ہے‘ ایکسلریٹر نہیں۔ صدر علوی اور ان کی اہلیہ محترمہ ثمینہ علوی نے معذور افراد کی بحالی کے لیے بہت کام کیا۔ خاص طور پر خاتونِ اول تو اس کام میں پیش پیش رہیں۔ صدر علوی دردمند دل رکھنے کے ساتھ حسِ مزاح بھی رکھتے ہیں۔ میرے ساتھ والی کرسی پہ براجمان ایک صاحب‘ جو بیرونِ ملک سے آئے تھے‘ کہنے لگے کہ صدرِ پاکستان گزشتہ چار سال سے اس عہدے پر براجمان ہیں‘ وہ ایسے ڈرائیور کو گاڑی سے اتار کیوں نہیں دیتے۔ میں نے وضاحت کرنا چاہی کہ صدر قانون کے مطابق آئینی سربراہ ہیں‘ وہ غلطی کی نشاندہی تو کر سکتے ہیں لیکن کوئی عملی اقدام نہیں کر سکتے۔ اس کی ذمہ داری مقننہ یا پارلیمان پر ہے۔ ان صاحب نے پہلے تو گھور کے مجھے دیکھا اور پھر مسکرا کے کہنے لگے ''اگر صدرِ پاکستان صرف علامت ہیں تو پھر اس علامتی عہدے کی ضرورت ہی کیا ہے‘‘۔ میں نے مزید وضاحت کی کوشش نہیں کی؛ تاہم میں کچھ لمحے سوچتا رہا کہ کیا ہماری بیوروکریسی واقعی ایسی ڈرائیور ہے جسے صرف بریک پہ پاؤں رکھنا آتا ہے۔کیا اہلِ سیاست اور حکمرانوں میں اتنا دم خم نہیں کہ اس پاؤں کو اٹھانے کا حکم دے دیں یا گاڑی میں ایکسلریٹر ہی نصب کردیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ افسر شاہی ایک منہ زور گھوڑا ہے جس پہ سواری کے لیے ماہرسوار چاہیے لیکن یہ ماہر سوار کہاں سے آئے گا۔ بریک اور ایکسلریٹر کی کہانی بھی بہت پرانی ہے۔ ایسا نہیں کہ بیوروکریسی ایکسلریٹر کے بغیر گاڑی چلانا چاہتی ہے‘ مسئلہ یہ ہے کہ ہر نئی حکومت ایکسلریٹر بدل دیتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ڈرائیور کو ہر بار نیا رخ لینے پہ مجبور کردیا جاتا ہے۔ جو چلے گئے انہیں بُرا کہو‘ جو آگئے ان کے گیت گاؤ۔ ایسے میں ڈرائیور کا کیا گناہ۔
مجھے وہ کٹھن لمحے یاد آنے لگے جب ایک سرکاری ''افسر‘‘ کے دفتر کے باہر ٹوٹی پھوٹی کرسی پہ نجانے کتنی دیر بیٹھنا پڑا۔ صرف یہ بتانے کے لیے کہ ہم ''غریبوں‘‘ کے لیے کام کرتے ہیں اور ہمارا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں۔ یہ واقعہ اگر ایک بار ہوتا تو کوئی حرج نہ تھا لیکن ایک بار نہیں یہ واقعہ کئی بار ہوا۔ کتنے افسر اور وزیر‘ کتنی پیشیاں۔ بقول غالبؔ:
مجھے کیا بُرا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
صدر نے دھیمے اور مدبرانہ انداز میں اور بھی کئی اچھی باتیں کہیں۔ وہ اپنی تقاریر میں اکثر اوقات تاریخی واقعات سناتے ہیں۔ اس بار بھی بہت سی کتابوں کے حوالے دیے لیکن سیلاب زدگان کے بارے میں کہنے کو ان کے پاس شاید بہت کچھ نہ تھا۔ کچھ لوگوں کو لگا کہ وہ بھی انہیں فراموش کر چکے تھے۔ بھول چکے تھے کہ کروڑوں لوگوں کی مشکل ابھی ختم نہیں ہوئی۔ ان کی زیادہ تر گفتگو ان کوششوں تک محدود رہی جو انہوں نے بیرونِ ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دلانے کے لیے کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک بنیادی حق ہے جو انہیں ملنا چاہیے۔ میرے پاس براجمان شخص نے ایک بار پھر کہا کہ ''سیاست دان بہت جہاندیدہ اور دور اندیش ہوتے ہیں لیکن ان کی نگاہ ووٹ سے آگے کیوں نہیں جاتی‘‘۔ میرے پاس اس سوال کا بھی کوئی جواب نہ تھا۔ صدرِ پاکستان نے تقریر کرکے رخصت طلب کی۔ انہیں کسی اور تقریب میں جانا تھا۔ ہم نے اپنے ساتھ بیٹھے شخص سے ہاتھ ملایا۔ اس نے کاغذ کا ایک پرزہ جس پہ کچھ لکھا ہوا تھا‘ میری جیب میں ڈال دیا۔ فرصت ملنے پر میں نے وہ کاغذ نکالا۔ اس پہ شکستہ اندازِ تحریر میں کچھ درج تھا: ''صدر صاحب! کاش کوئی آپ کو بتائے کہ ایوانِ صدر سے بہت دور ڈیرہ مراد جمالی ہے۔ صحبت پور ہے۔ نوشکی ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان اور تونسہ شریف ہے۔ جہاں سینکڑوں گھرانے خیموں میں پناہ لیے آپ کے منتظر ہیں۔ ان میں بچے بھی ہیں اور بچیاں بھی۔ اک نظرِ التفات ان پر بھی‘‘۔
صدر صاحب رخصت ہوئے؛ تاہم تقریب جاری رہی۔ مجھے بھی تقریر کی دعوت دی گئی۔ میرے پاس سنانے کو کیا تھا۔ وہی نالۂ غم‘ وہی آہ و بکا۔ وہی سیلاب کی کہانی۔ وہ کہانی سنا کر میں نے نوشہرہ کے ان بابا جی کی کہانی بھی سنائی جن کی دی ہوئی دس روٹیاں ختم نہ ہوئیں‘ کھانے والے کم پڑ گئے۔ میں نے یہ بھی کہا کہ ابھی سیلاب کی کہانی جاری ہے۔ ابھی آنسو بہہ رہے ہیں۔ ابھی خیموں میں بیٹھے لوگ منتظر ہیں کہ کب گھر کی چھت تلے پناہ ملے گی۔ ابھی کاروبارِ حیات ٹھہرا ہوا ہے۔ ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہم انہیں بھول جائیں۔ جوں جوں سردی کا موسم آرہا ہے ان کی مشکل اور بڑھ رہی ہے۔ ہم نے ان بہت سی تنظیموں کا ذکر کیا جو بحالی کے کام میں آگے آگے تھیں۔ اخوت کی دیرینہ دوست صباحت رفیق جو خدمت کا ایک خوبصورت استعارہ ہیں‘ بھی وہاں موجود تھیں۔ یوں تو وہ کیلیفورنیا میں رہتی ہیں لیکن دل پاکستان میں ہے۔ پوری تقریب کے دوران اور خاص طور پر سیلاب زدگان کے ذکر پر ان کی آنکھیں کئی بار بھیگیں۔ میری تقریر کے بعد اچانک وہ اپنی نشست سے اٹھیں اور وہ میڈل جو صدرِ پاکستان نے انہیں عطا کیا‘ گلے سے اتار کر مجھے پیش کردیا۔ ''میں سمجھتی ہوں کہ جو کام اخوت جیسے اداروں نے کیا‘ اس کے بعد اس اعزاز کے اصل حقدار تو آپ ہیں‘‘۔ یہ کہہ کر وہ ایک بار پھر اپنی جگہ پہ جا بیٹھیں۔ ایک لمحے کے لیے سکوت اور پھر یہ سکوت تالیوں کی گونج میں بدلنے لگا۔ صباحت رفیق جیسے لوگ بہت کم ہیں جو اپنا اعزاز بھی دوسروں کے نام کردیتے ہیں۔ جو لوگ اپنی ذات کی نفی کریں وہی اللہ کے محبوب بندے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں